مملکت ناپرسان عالی شان میں پچھلے دنوں جوایک بہت بڑا قانونی، آئینی اورانصافی بحران پیدا ہوا تھا اسے حسب معمول، حسب روایت اور حسب سابق صرف پانچ نئے بحران پیدا کرکے حل کرلیا گیا ہے اوراب پانچ نئے بحرانوں کو جو اس بحران کی کوکھ سے جنم لے چکے ہیں، کو بھی انشاء اللہ بہت جلد مزید بحرانوں سے حل کرلیا جائے گا ۔
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ مملکت ناپرسان عالی شان کوکچھ لوگ بحرانستان اورمسائلستان بھی کہتے ہیں اس کی جب پیدائش ہوئی تھی تو اس وقت اس کی تعمیر میں کچھ ایسی خرابی پیدا ہوگئی تھی کہ ماہرین نے کہہ دیا کہ اس میں ہمیشہ بحران پیدا ہوتے رہیں گے اورہمیشہ نازک دورسے گزرتا رہے گا چنانچہ مملکت ناپرسان عالی شان میں بحران اورمسائل یوں پیدا ہوتے ہیں جیسے چین میں چینی، جاپان میں جاپانی اور روس میں روسی پیدا ہوتے ہیں۔
بحرانوں اور مسائل کی اس ریکارڈ پیداوار کا علاج کسی اور طرح سے ممکن نہ ہوسکا تو علاج ’’بالمثل‘‘کا طریقہ اختیار کرلیا گیا یعنی بحران اور مسائل کو حل کرنے کے لیے مزید بحران اورمسائل پیدا کرنا۔ چنانچہ اس وقت مملکت ناپرسان میں پولٹری فارم، ڈیری فارم ، بی فارم کی طرز پر بحران فارم اورمسائل فارم بھی چل رہے ہیں جنھیں مقامی زبان میں پارٹیاں کہاجاتا ہے۔
اب یہ نیا قانونی آئینی اورانصافی بحران جو پچھلے دنوں پیدا ہواتھا اسے بھی پانچ نئے بحرانوں کے ذریعے حل کر لیا گیا ہے ۔بحران یہ تھا کہ ملک میں جتنے بھی انصاف خانے ، قانون خانے اورقاضی خانے تھے ان پر پارٹیوں اورسابق ولاحق لیڈروں اورسرکاریوں نے قبضہ کرلیا تھا یا یوں کہیے کہ یہ سارے صرف کرسیوں کے مقدمات کے لیے مخصوص ہوگئے تھے ،کرسیوں کے گردگھومنے والے مقدمات کی اتنی بہتات ہوگئی تھی کہ اگر کسی سیاسی قیدی کوجیل میں ’’حلوہ‘‘نہیں مل رہا ہو تو اس کی طرف سے بھی آٹھ دس مقدمات دائر ہوجاتے تھے اورپندرہ بیس بلیک اینڈ وائٹ برسر روزگار ہوجاتے تھے ۔
ظاہرہے کہ اس طرح کرسی کے گرد ناچنے والے مقدمات اتنے بڑھ گئے تھے اور بلیک اینڈ وائٹ کے معاوضے اتنے چڑھ گئے تھے کہ کالانعاموں کے مقدمات ان کے نیچے دفن ہوکر رہ گئے اورکالانعام تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ میں گڑ گئے ،سڑ گئے ۔
ایک اندازے کے مطابق ایسے مردہ نیم مردہ مقدمات کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ آج سے انصاف خانے، قانون اوربلیک اینڈ وائٹ خانے ان کو حل کر نے میں جت گئے ہیں جوآیندہ تین سو سال میں بمشکل حل کر سکیں گے اور ان تین سو سال میں یہ زرخیز مٹی اتنے اورمقدمات پیدا کرچکی ہو گی جن کو حل کرنے کے لیے چھ سو سال کا عرصہ چاہیے ہوگا۔
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا؟
چنانچہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے ماہرین اورمدبرین سرجوڑ کر بیٹھے اوراپنے اپنے سروں کی ’’جوئیں‘‘ دوسرے سروں میں ٹرانسفر کیں تو حل نکل آیا جس کی دم سے پانچ نئے نویلے بحران بندھے ہوئے تھے ۔
پوری تفصیلات تو ابھی کچھوؤں اورچیونٹیوں کے ذریعے آنے والی ہیں لیکن خلاصہ اس ’’حل‘‘ کا یہ بتایا جاتا ہے کہ کالانعاموں سے صاف صاف اوردوٹوک کہا جائے گا کہ اپنے کام سے کام رکھو، کماؤ اورحکومت کو دیاکرو، یہ مقدمات وغیرہ کی عیاشیاں صرف حکمرانیہ اوراشرافیہ کے کھیل اورشغل ہیں اوراگر مقدمات کااتنا ہی شوق ہے تو وہاں چلے جاؤ جہاں سے آئے ہو اوپر کی اس مملکت میں ۔ جہاں تمہارے ساتھ انصاف ہوگا اس کے ساتھ ہی یہ قانون بھی منظور ہوگیا ہے کہ اگر کوئی کالانعام کوئی مقدمہ دائر کرتا ہوا پکڑاجائے تو اسے اسی وقت کیفرکردار تک پہنچایا جائے جو زیرزمین ہے ۔
قیمت خود دو عالم گفتہ ای
نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز
یعنی اپنی فیس بڑھاؤ کہ کوئی کالانعام تمہارے قریب آنے کی بھی ہمت نہ کرپائے ۔سنا ہے ایک نادان دانا دانشور نے نکتہ اعتراض اٹھایاتھا کہ اس طرح تو سارے کالانعام اہل انعام واکرام کے ہاتھوں تو فنا ہوجائیں گے، اس پر باقی تمام دانشوروں نے یک آوازہوکرکہا کہ اس میں نئی بات کیا ہوگئی، یہ کالانعام پیدا ہی مرنے کے لیے ہوتے ہیں، ان کی زندگی کامقصد ہی یہی ہے کہ اہل انعام واکرام کے ہاتھوں یا ان کے لیے مرتے رہیں ۔ ان میں ایک اہل انعام واکرام کاتعلق صوبہ خیر پہ خیر سے تھا چنانچہ اس نے ایک پشتو ٹپہ دے مارا کہ
دا زمانہ د غریب نہ دہ
کڈے دے نغاڑی د اللہ ملک تہ دے زینہ
ترجمہ۔ یہ زمانہ بلکہ یہ ملک غریبوں کا نہیں ہے جتنی جلدی ہوسکے اپنا سامان باندھیں اوروہی چلے جائیں جہاں سے آئے ہیں ۔
اورکالانعاموں کے مقدمات ہی کیا ہیں، کسی نے ان کی زمین گھیری ہوگی تو زمین تو اللہ کی ہے اوراللہ کے لاڈلے ان کے اصلی مالک ہیں، کالانعام تو پیدائشی مزارع اورکمی کمین ہوتے ہیں، ان کی ملکیت صرف دوگززمین سے زیادہ نہیں ہوتی وہ بھی چارچھ فٹ نیچے۔
مطلب یہ کہ کل انعام سے صاف صاف کہا جائے کہ یہ مملکت ان کرسیوں نے اپنے لیے بنایا ہے ،تم بدبختوں کے لیے جاؤ اپنے یہ منحوس چہرے اوراکثرمروض قسمت اورسڑے ہوئے بدبودار وجود کہیں گم کرو۔
جہاں تک قتل کے معاملات ہیں تو مولی گاجرنے کبھی چاقو چھری کے خلاف مقدمے دائر کیے ، گھاس نے گھوڑے کے خلاف کبھی رپٹ لکھوائی ہے، سڑکوں، پلوں اورراستوں نے کبھی ٹرکوں، بسوں کے خلاف منہ کھولا ہے ؟
مطلب کہ قاضی خانے، انصاف خانے اورقانون خانے اب صرف اورصرف ان مقدمات کے لیے مختص ہوں جو کرسی کے گرد گھومتے ہوں ،کالانعام کوصاف صاف بتایا گیا ہے کہ اگر اتنا ہی ’’مرن داشوق‘‘ ہے تو سب سے بڑی عالمی اورآسمانی عدالت میں جاسکتے ہیں جسم کا لباس بدل کر
اس گزرگاہ سے پہنچیں تو کسی منزل پر
جو بھی گزرے گی گزاریں گے گزرنے والے