بدلتی دنیا کے مسائل

مقتدا منصور کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی ساری زندگی تدریس اور تخلیق میں گزری ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan July 23, 2014
[email protected]

RAWALPINDI: مقتدا منصور کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی ساری زندگی تدریس اور تخلیق میں گزری ہے۔ وہ گزشتہ 20سال سے اخبارات میں کالم تحریر کررہے ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس کراچی کی اشاعت کے کچھ عرصے بعد ہی مقتدا منصور کے کالم روزنامہ ایکسپریس کراچی میں شایع ہونے لگے۔ اب ان کے مضامین پر مشتمل کتاب ''بدلتی دنیا کے مسائل ''کے عنوان کے تحت شایع ہوگئی ہے۔ جب اخبار میں کوئی مضمون شایع ہوتا ہے تو بعض اوقات اس کا مطالعہ کرنے کے باوجود بعض پہلوؤں کی اہمیت پر توجہ نہیں جاتی مگر جب کتاب کی صورت میں ان مضامین کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو پھر بہت سے پہلو ذہن کو سوچنے کے نئے زاویوں پر آمادہ کرتے ہیں۔

بدلتی دنیا کے مسائل کا مطالعہ کر کے مجھے مقتدا کے تحریر کیے گئے کالموں میں زندگی و سیاست کے کئی گوشوں کے ادراک کا موقع ملا۔ یہ کتاب 305 صفحات پر مشتمل ہے اور کل 51موضوعات پر شایع ہونے والے مضامین کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔ اس کتاب کا پہلا موضوع جنگ اور ذرایع ابلاغ ہے۔ مقتدا لکھتے ہیں کہ جنگ و جدل میں ذرایع ابلاغ کے کردار کا مطالعہ کرنے سے قبل ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جنگ کا سبب کیا ہوتا ہے اور اس میں تنازعات کا کیا کردار ہوتا ہے؟ اسی مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ روانڈا میں ذرایع ابلاغ خاص طور پر سرکاری ریڈیو نے جس انداز میں سرکاری نقطہ نظر کی ترویج کی اس کے نتیجے میں وہاں نسلی و لسانی آپریشن بدترین خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔

اس طرح پاکستان اور بھارتی میڈیا اپنی حکومتوں کی ایماء پر جس انداز میں کشمیر کے مسئلے کو پیش کرتے ہیں اس کی وجہ سے اس مسئلے کے حل میں تاخیر ہورہی ہے۔ مقتدا ہمیشہ ایسے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں جو سوچ و فکر اور مباحث کو دعوت دیتے ہیں اور ایک آزاد خوشحال معاشرے کے لیے ضروری ہیں۔ اسی تناظر میں انھوں نے ''سیکولر ازم'' کے موضوع پر ایک معلوماتی مضمون تحریر کیا۔ مقتدا لکھتے ہیں کہ دائیں بازو کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے سیکولرازم کو اسلام کے خلاف قرار دے کر جو مہم شروع کی ہے اس نے عام آدمی کا ذہن کو خاصا پراگندہ کیا ہے۔

سیکولرازم کو متنازعہ بنانے میں مولوی عبدالحق کی ترتیب کردہ انگریزی اردو لغت کا بھی اہم کردار ہے جس میں سیکولرازم کے معنیٰ لادینیت کے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ سیکیولر معاشرے سے مراد ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں رنگ، نسل، لسان، عقیدہ اور ثقافتی پس منظر کی بنیاد پر شہریوں کے ساتھ امتیازنہیں ہوتا۔ تمام شہریوں کو اپنی قابلیت، اہلیت اور محنت کے بل بوتے پر ترقی کرنے کے پورے مواقعے ملتے ہیں۔اس کتاب میں ایک مضمون بھارتی مسلمانوں کی سیاسی و سماجی کشمکش کے موضوع پر بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سیکولر ریاستی ڈھانچے کے باعث ہندوستانی سماج نے خاصے فوائد حاصل کیے ہیں لیکن صدیوں کے مزاج کے باعث وہاں اب بھی ایسی جماعتیں اقتدار میں آجاتی ہیں جو اپنی سرشت میں کٹر ہندو قوم پرستی میں یقین رکھتی ہیں۔

اپریل 2014 کے عام انتخابات میں B.J.P نے نہ صرف اکثریت حاصل کی بلکہ گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے ذمے دار وزیر اعلیٰ کو اگلا وزیر اعظم بنا لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بھارتی مسلمان جو آبادی کے اعتبار سے بنگلہ دیش سے زیادہ نہیں تو برابر ضرور ہیں البتہ ان کی آبادی پورے بھارت میں پاکستان سے زیادہ ہے اور مختلف شعبہ جات میں ان کی کار کردگی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور مختلف سماجی دھڑوں کی جانب سے ان کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں پیدا کی جارہی۔ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے مذہب کی ترویج کے لیے کی جانے والی کوششوں اور تبلیغ سے بھی نہیں روکا جاتا اور نہ ہی پاکستان کی طرح مسجدوں میں پولیس کے پہرے میں نماز ادا کی جاتی ہے۔

یہ تمام سہولتیں انھیں سیکولر آئین کی بناء پر ملی ہیں۔ وہ ضابطہ اخلاق اور میڈیا کونسل کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ایک فعال اور عالمی معیار کے ضابطہ اخلاق کی تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے تاکہ ذرایع ابلاغ کے اداروں کی غیر پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا احتساب کیا جاسکے۔

وہ بحرانوں میں گھرا پاکستان کے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے، لکھتے ہیں کہ پاکستان اس وقت 6 مختلف بحرانوں کا شکار ہے۔ 1۔ ریاست کے منطقی جواز کا بحران، 2۔ سیاسی اور ریاستی انتظام کا بحران، 3۔ معاشی بحران، 4۔ مختلف قومیتوں کے تشخص کا بحران، 5۔ قومی سلامتی کا بحران اور 6۔ وسائل کی متعصبانہ تقسیم کا بحران۔ وہ لکھتے ہیں کہ ملتان کے نامور وکیل اور حقوقِ انسانی کے سرگرم کارکن راشد رحمن اس لیے قتل کردیے جاتے ہیں کیونکہ انھوں نے ایک نوجوان کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا جو توہینِ مذہب کے مقدمے میں ایک سال سے ساہیوال جیل میں قید ہے۔ کوئی وکیل اس مقدمے کو لڑنے کو تیار نہیں تھا۔

ان کی اس کتاب میں شامل ایک مضمون ''پاکستان اور بھٹو خاندان'' کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت سے خاندان اور خانوادے شہرت کی بلندیوں تک پہنچے مگر جو مقام بھٹو خاندان کو حاصل ہوا وہ کسی دوسرے گھرانے کے حصے میں نہیں آسکا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کی بقاء اور عوامی مسائل کے حل کی خاطر جتنی قربانیاں بھٹو خاندان نے دیں، اتنی قربانیاں کسی خاندان نے نہیں دیں۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین کے دیگر سیاسی گھرانوں کے مقابلے میں بھٹو خاندان پر ہونے والی سب کی تنقیدکے باوجود عوام کی چاہت اور لگاؤ میں کوئی کمی نہیں آسکی۔

مقتدا منصور بار بار لکھتے ہیں کہ بلدیاتی نظام کے نافذ کیے بغیر جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکتی۔ وہ ''ثانوی تعلیم، شہری حقوق کی تدریس ''کے موضوع پر یوں روشنی ڈالتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیمی پالیسی میں مذہبی تنگ نظری پر مبنی ایڈونچرازم کی بنیاد اس وقت رکھی گئی ۔حکمران طبقے نے قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی کی پالیسی تقریر کو نظرانداز کرتے ہوئے قراردادِ مقاصد منظور کی۔ جب ملک کا تشخص مذہبی بنیادوں پر ہوتا ہے تو پھر تعلیمی نظام کے سیکیولر بننے کا امکان باقی نہیں رہتا۔

وہ قیادت کی بصیرت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پنڈت نہرو نے تین بنیادی فیصلے کیے جن کے ثمرات سے آج بھی بھارت بہرہ مند ہورہا ہے۔ ان فیصلوں میں پہلا فیصلہ سیکیولر آئین کی تشکیل، دوسرا اقدام ریاستوں اور جاگیرداری کا خاتمہ اور سیاسی بصیرت کا تیسرا قدم غیر وابستہ تحریک شروع کرنا تھا۔ مقتدا منصور صرف حالات حاضرہ پر ہی نہیں لکھتے بلکہ ثقافت اور مختلف قومیت اور برادریوں کے مسائل پر بھی ان کی توجہ ہے ۔ وہ پارسی کمیونٹی کے مسائل و معاملات کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ پارسی گھرانے جو کراچی کی زندگی کا اٹوٹ انگ ہوا کرتے تھے جنرل ضیاء الحق کے بدترین مارشل لاء کے دور میں اس ملک سے بد دل ہونا شروع ہوئے۔

کراچی شہر جس کی تزئین و آرائش اور سیاسی ، سماجی، ثقافتی اور معاشی ترقی میں پارسی کمیونٹی نے اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا آج اس کے لیے اجنبی بن چکا ہے۔ انتخابی اصلاحات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ چونکہ پاکستان کا سیاسی کلچر دنیا کی دیگر جمہوریتوں سے مختلف ہے اور سیاسی جماعتیں ایسے افراد کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہیں جو اپنے علاقے میں اپنی فیوڈل یا برادری حیثیت کی وجہ سے خاصے طاقت ور اور بااثر ہیں، لہٰذا یہ امیدوار کبھی دولت کے بل بوتے پر ووٹ خریدتے ہیں تو کبھی قبائلی اور برادری کے جذبات کومشتعل کرکے ووٹ حاصل کرتے ہیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مروجہ انتخابی عمل میں اگر کچھ عرصے کے لیے تبدیلیاں لائی جائیں تو بہتر نتائج کی توجہ کی جاسکتی ہے۔

معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی نے بدلتی دنیا کے مسائل کے پیشِ لفظ میں لکھا ہے کہ مقتدا منصورنے معاشرے کے مختلف مسائل کا جائزہ لیا ہے اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ان مسائل کے حل نہ ہونے سے ہمارا معاشرہ تیزی سے پسماندگی کی طرف جارہا ہے۔ ڈاکٹر مبارک نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ مقتدا منصور کے یہ مضامین ہماری سوسائٹی اور اس کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے تدارک کرنے میں مدد کریں گے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (SZABIST) کے ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے کتاب کا تعارف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مقتدا منصور کے مضامین میں ان کے مطالعے اور مشاہدے کی واضح جھلک نظر آتی ہے ۔ مقتدا منصور کی یہ کتاب علم کے طالب علموں کو سوچ کے نئے زاویوں پر سفر کی دعوت دیتی ہے۔ اس مضمون میں مقتدا کے چند کالموں کا ذکر ہے۔ کتاب کے مطالعے سے تمام کالموں کی خوبیوں کا اندازہ ہوجائے گا۔ کتاب سٹی بک کراچی نے شایع کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔