انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسے ذہانت اور حکمت سے نوازا گیا ہے۔ یہ انعام زمین پر موجود کسی دوسری مخلوق کو نہیں ملا۔
عقل و دانش کی طاقت کے ذریعے انسان نے ناقابل یقین کارنامے حاصل کیے ہیں: اوزار بنانے سے تہذیبوں کی تعمیر تک، کائنات کی کھوج لگانے سے کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے تک، ناقابلِ یقین کارنامے انجام دیے ۔ یعنی آج ایک صرف کِلک پر دنیا ہمارے سامنے آجاتی ہے۔
آئیے! دیکھتے ہیں کہ انسانی عقل نے اس دنیا اور اس دنیا سے باہر ہمیں کیا کیا دیا:
ماحولیاتی تبدیلی: فصلوں کی کاشت سے لے کر فلک بوس عمارتیں بنانے تک، ہم نے اپنی ضروریات کے مطابق کرۂ ارض کو نئی شکل دی ہے۔
جدید علم: سائنس، فنون اور فلسفہ نے عقل کے ذریعے دنیا کو ایک نئی جہت دے دی۔ وہ انسان جب کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا، تو اسے باقاعدہ ایک کرب ناک دور سے گزرنا پڑتا، یعنی باقاعدہ اس کے جسم کے مخصوص حصے کو کاٹ کر دیکھا جاتا کہ کیا مسئلہ ہے، اب ایک ’ایکسرے‘، ’اسکین‘، یا ’خون ٹیسٹ‘ کے ذریعے بڑی سے بڑی بیماری اور اس کا علاج دریافت کرلیا جاتا ہے۔
دنیا سے منسلک: اس عقل کے ذریعے ہی انسان نے انٹرنیٹ، عالمی تجارت، اور نقل و حمل کے نظام جیسی اختراعات سے لوگوں کو پہلے سے کہیں زیادہ قریب کردیا۔ آپ سوچیے کہ ایک ویڈیو کال کے ذریعے مشرق میں بیٹھا ہوا شخص، مغرب میں بیٹھ کر باآسانی بات کرسکتا ہے۔
زمین سے باہر کی کھوج: خلائی تحقیق چاند، مریخ اور اس سے آگے کی دریافت کے لیے ہماری بے پایاں پیاس کا مظاہرہ ہے۔ یعنی انسان اس دنیا سے باہر نکل کر اوپر خلا میں اپنے نظامات کو نصب کرکے وہاں رہ کر دنیا میں اپنا پیغام دے رہا ہے۔ چاند پر اپنا قدم رکھ کر مزید تسخیرِ کائنات میں گم ہے۔
یہ کامیابیاں انسانی عقل و دانش کی ہی بنیا د پر ہیں۔ یہ ایک ایسی قوت ہے جو پیچیدہ مسائل کو حل کرنے، زندگیوں کو بہتر بنانے اور وجود کے اسرار کو کھولنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تاہم! یہ سچ ہے کہ عقل کا غلط استعمال بھی انسان ہی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ عقل کا منفی استعمال یا یوں کہیے کہ عقل کا ناجائز استعمال انسانیت کےلیے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے، اس کی چند مثالیں قلم بند کی جاتی ہیں:
قلیل مدتی سوچ اور ماحولیاتی نقصان: انسان کئی دہائیوں سے جانتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ صنعت کاری اور جنگلات کی کٹائی کرۂ ارض کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کے باوجود، ہم قدرتی وسائل کا غیر مستحکم استحصال کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور ماحولیاتی انحطاط ہورہا ہے۔ موسم اپنی اصل کے مطابق نہیں ہیں، جس سے فصلوں کو نہ صرف نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ انسانی صحت خطر ے میں پڑ رہی ہے۔
جنگی ہتھیار: وہی عقل و دانش جو ہمیں تخلیق کرنے کے قابل بناتی ہے، اسی عقل کے ذریعے ہم اپنے آپ کو تباہ کررہے ہیں۔ جنگی ہتھیار، بشمول جوہری ہتھیار، جدید سائنسی علم کی پیداوار ہیں۔ تباہ کن نتائج کو جاننے کے باوجود، انسانی عقل نے بار بار پرامن حل کے بجائے تنازعات کا سہارا لیا، اتحاد کے مواقع کو ضائع کیا۔ نتیجہ، اس کا یہ ہے کہ کروڑوں انسان ان ہتھیاروں سے لقمۂ اجل بن گئے۔
اقتصادی اور سماجی عدم مساوات: انسانی عقل نے حکمرانی اور معاشیات کے ایسے نظام بنائے ہیں جو دولت اور مواقع پیدا کرتے ہیں۔ پھر بھی، ان نظاموں کو اکثر بہت سے لوگوں کی قیمت پر چند لوگوں کی خدمت کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ غربت، عدم مساوات اور استحصال برقرار ہے، حتیٰ کہ ایسی دنیا میں بھی جہاں انہیں ختم کرنے کےلیے وسائل اور علم موجود ہے۔
اخلاقی اقدار کو نظر انداز کرنا: حکمت صرف ذہانت کے بارے میں نہیں ہے، اس میں اخلاق اور اخلاقی قدریں بھی شامل ہیں۔ اس کے باوجود عقل نے اکثر طاقت، منافع یا سہولت کو رحم، انصاف پر ترجیح دی ہے۔ یہ غفلت بدعنوانی، جبر اور معاشرتی تنزلی کا باعث بنتی ہے۔
انسان اپنی عقل کو ’مثبت‘ استعمال کرنے میں کیوں ناکام رہا ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’عقل رکھنے کے باوجود انسان اسے مؤثر طریقے سے استعمال کرنے میں کیوں ناکام رہا ہے؟‘ اس کے کئی عوامل ہیں:
لالچ اور خودغرضی: انسانی عقل نے بہت سے فیصلے لالچ یا مفاد پر مبنی کیے ہیں۔ اس نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ اس میں صرف اپنا مفاد شامل تھا۔ ’انسانیت‘ اس میں شامل نہیں تھی۔
جذبات اور منطق کو متوازن کرنے میں ناکامی: حکمت کےلیے جذباتی ذہانت اور منطقی استدلال کے درمیان توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب فیصلے غیر منظم جذبات، جیسے غصہ یا خوف سے کیے جاتے ہیں، تو حکمت سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔
عقل نے سوچ اور فہم کا راستہ روک دیا: انسانی عقل نے ہر وہ چیز ایجاد کی جو انسانوں کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کےلیے تھی، لیکن اس کے باوجود اب معاملہ یہ ہے کہ عقل نے انسانی فہم کو ماؤف کردیا ہے۔ انسانی عقل نے جو کچھ انسان کو دیا ہے، اس میں سے ’سوچ‘ کو ختم کردیا ہے۔ عقل نے عقل کو اتنا کم زور کردیا ہے کہ اب ہم محتاجی کی جانب گامزن ہیں۔
سوشل میڈیا نے دنیا کے قریب کرکے جھوٹ کو فروغ دیا: انسانی عقل نے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو قریب کردیا، لیکن اسی عقل نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم بھی کردیا ہے۔ جو بھی خبر آتی ہے، فوراً عقل کا استعمال کیے بغیر آگے بڑھا دی جاتی ہے۔ اس خبر پر پوری عمارت کھڑی کردی جاتی ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ سب جھوٹ تھا۔
اے آئی نے عقل کے استعمال کو روک لگادیا: اے آئی کے آنے کے بعد انسانی عقل کے پاس جو تھوڑا بہت ’فہم‘ تھا، وہ بھی اب ختم ہورہا ہے، چھوٹی سی ای میل سے لے کر بڑے بڑے مقالہ جات اے آئی کے ذریعے پوچھے جارہے ہیں۔ اسی طرح کوئی بھی سوال ذہن میں آتا ہے، تحقیق کرنے سے پہلے ہم اپنا مقصد سب سے پہلے اے آْئی کی ’بارگاہ‘ میں رکھتے ہیں۔ پھر جب تشفی ہوجاتی ہے، تو ہم آگے جاتے ہیں۔ جب کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اے آئی انسانی عقل ہی کی ایجاد ہے، لیکن یہ اب انسانی عقل پر غالب آرہا ہے۔
مستقبل کے خدشات: اے آئی کے آنے کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ انسانی عقل کو چیلنج کرنے لگا ہے اور انسان کے مقابلے پر آرہا ہے۔ ابھی یہ انسانی عقل کو کھا رہا ہے، آگے یہ کوئی ہیئت اختیار کرکے انسان کے مقابلے پر آجائے گا۔ اس وقت کیا ہوگا؟ کیا ہم اس کا مقابلہ کرسکیں گے؟ کیوں کہ یہ طے ہے کہ اب یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ بڑھتا چلا جائے گا۔
انسانی عقل کی بنائی اشیا انسانوں پر ہی غالب: انسانی ایجادات انسانی عقل پر غالب آرہی ہیں۔ انسان جتنا سہل پسند ہوتا جارہا ہے، یہ ایجادات اتنی ہی طاقت ور ہوتی جارہی ہیں۔ اس سہل پسندی کی وجہ ایک طرف انسانی عقل ہے تو دوسری طرف ’کم عقل‘ انسان۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقل، انسانوں کے ’فہم‘، ’ادراک‘ اور ’شعور‘ (سوائے چند کے) کو کھا رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ’عقل‘ کا صحیح استعمال کرنے کا اختیار دیا ہے، اب اس کے پاس چند اختیارات ہیں: ایک، وہ عقل کا صحیح استعمال کرے۔ دوم، منفی استعمالات سے دور رہے۔ سوم، ہاتھ پر ہاتھ رکھ بیٹھ جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔