رمضان میں بڑھتی مہنگائی…
کسی بھی چیز کا حل نکالنے کے لیے اس کے اسباب کو جاننا بہت ضروری ہے تا کہ مناسب حل تجویز کیا جا سکے
کسی بھی چیز کا حل نکالنے کے لیے اس کے اسباب کو جاننا بہت ضروری ہے تا کہ مناسب حل تجویز کیا جا سکے یہ بات ایک عام مشاہدے کی ہے کہ ہر دور میں متواتر حکومتوں نے رمضان میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روایتی طریقے سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں انھیں مکمل ناکامی ہوئی۔ جیسا کہ اسباب میں یہ بات ثابت ہوئی کہ قیمتوں کا یہ اچانک اضافہ حادثاتی طور پر ممکن نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے منظم کوششیں اور منصوبہ بندی شامل ہے اس وجہ سے رمضان آنے سے پہلے ہی چیزوں کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر بڑھا دیا جاتا ہے۔
لہٰذا یہ تمام صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ان تمام غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے اور اس کے لیے ایک مربوط نظام بنایا جائے جس میں تمام اسباب کو حل کرنے کے لیے ایک منظم پالیسی روبہ عمل لائی جائے۔ اس سلسلے میں وفاقی، صوبائی اور ضلع حکومتوں کو مل کر ایک پالیسی فریم ورک بنانا ہو گا۔ چونکہ اس وقت ملک میں ضلع حکومتیں موجود ہی نہیں، لہٰذا بیوروکریٹ اور افسر شاہی سے اس ضمن میں کام لیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں عوام کا تعاون بھی از حد ضروری ہے جیسا کہ اسباب بیان کرتے وقت یہ بات نوٹ کی گئی کہ قیمتوں میں اضافے کا ایک سبب عوام کی طرف سے اندھا دھند خریداری بھی ہے جس سے مارکیٹ میں طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور متعین مقدار میں رسد Supply ہونے کی وجہ سے قیمتیں اوپر کی طرف جاتی ہیں۔ ملک میں بڑھتے افراط زر سے تو ویسے سب ہی پریشان ہیں لیکن اس وقت عارضی طور پر رمضان میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔
1۔جن پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں مصنوعی طور پر بہت زیادہ بڑھائی جا رہی ہیں ان کی خریداری عوام کی طرف سے کچھ عرصے کے لیے بالکل بند کی جائے۔ فروخت بند ہونے کی وجہ سے طلب میں کمی واقع ہو گی اور قیمتیں کچھ دن کے بعد ہی نیچے کی طرف آنے لگیں گی۔ وگرنہ ان چیزوں کے خراب ہونے کا خطرہ تاجروں کو یقیناً ہو گا۔ رمضان کے پہلے ہفتے میں ٹماٹر کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن طلب کم ہوتے ہی اگلے ہفتے نہ صرف اس کی قیمتوں میں اضافہ رک گیا بلکہ ان میں کمی دیکھی گئی۔
اس تمام نتیجے کو حاصل کرنے کے لیے عوام کو اجتماعی شعور کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اس شعور کی بیداری میں کنزیومر ایسوسی ایشن مناسب کردار ادا کر سکتی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں اس قسم کی تنظیموں کا کوئی رواج نہیں۔ بہرحال یہ ذمے داری عوام کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کی حکمت عملی خود بنائیں اور ایک جان ہو کر قیمتوں میں ایسا مصنوعی اضافہ روک کر دکھائیں۔
2۔حکومت کی طرف سے رمضان میں پڑوسی ممالک سے سبزیوں اور پھلوں کی درآمد صرف ایک مہینے کے لیے کھولی جائے جس سے مارکیٹ میں رسد کی مصنوعی قلت دور ہو گی اور قیمتیں نیچے آئیں گی کیونکہ مقامی تاجر کو اپنی مصنوعات نہ بکنے کا خوف ہو گا۔
3۔حکومت کی طرف سے سستے بازاروں کے نیٹ ورک کو مزید مضبوط کیا جائے اگرچہ اس نظام کو فی الحال اپنایا جا رہا ہے لیکن یہ شکایت عام ہے کہ ان سستے بازاروں کا رخ عوام نہیں کرتے کیونکہ یہاں پر بکنے والی چیزیں انتہائی کم معیار کی ہوتی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سستے بازاروں کی بہت قریب سے جانچ پڑتال کی جائے اور یہاں پر اشیا کے معیار کا خاص خیال رکھا جائے اس کے ساتھ ساتھ عوام کو یہاں سے خریداری کرنے کے لیے خاص ترغیب دی جائے۔
4۔اگرچہ یوٹیلیٹی اسٹورز میں چیزوں پر حکومت کی طرف سے سبسڈی دی جاتی ہے لیکن یہاں بھی یہ شکایت عام ہے کہ یا تو ضروری اشیائے خور و نوش یہاں موجود نہیں ہوتیں یا پھر ان کا معیار بہت کم ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے ذرا سی توجہ اور یوٹیلیٹی اسٹورز میں ہونے والی کرپشن کو قابو کر کے یہاں سے بھی عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔
5۔ یہ بات بھی عام مشاہدے کی ہے کہ تمام برانڈڈ اور پیکجڈ مصنوعات کی قیمتیں رمضان میں کم کی جاتی ہیں تا کہ زیادہ بیچ کر اپنا منافع کمایا جا سکے لیکن اصل مسئلہ پھلوں اور سبزیوں اور دیگر نان برانڈڈ اشیا کا ہے جن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں اس کے لیے از حد ضروری ہے کہ حکومت مارکیٹ کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلا کر ان قیمتوں کو اپنی جگہ پر فکس کرے جو کہ نہ تو بہت نیچے ہو نہ ہی بہت اوپر ہو۔ عموماً دکاندار حکومت کی فراہم کردہ لسٹوں پر یہ کہہ کر عملدرآمد کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کہ ان قیمتوں پر فروخت کرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ اس لیے ان لسٹوں کو بناتے وقت حقیقت پسندی کا ثبوت دینا بھی ضروری ہے تا کہ نہ تو عوام کو دقت ہو اور اس کے ساتھ ہی تاجر برادری کو بھی جائز منافع حاصل ہو جائے۔
6نرخوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے مجسٹریٹ اور ڈپٹی کمشنروں کو ضروری اختیارات دیے جائیں اس کے ساتھ عوامی نمایندوں اور اراکین اسمبلی کو بھی فعال کیا جائے جس کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنا حصہ ڈالیں۔ ساتھ ہی ساتھ عمل درآمد کراتے وقت مسئلے کی جڑ تک پہنچا جائے۔ صرف دکانداروں اور ریٹیلرز کو پکڑنے اور سزا دینے سے مسئلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر آڑھتی اور ہول سیلرز اس مہنگائی کے ذمے دار ہوتے ہیں اور چونکہ وہ نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں اس لیے ساری سزا صرف ریٹیلرز کو ملتی ہے۔ لیکن گرانفروشی کا مسئلہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔
7۔یہ بات بھی ایک عام شکایت کے طور پر سامنے آتی ہے کہ ضلعی حکومتوں کے افسران اور پولیس تاجروں، ٹھیلے والوں اور ٹرانسپورٹرز سے اس مہینے خوب ''نظرانہ'' وصول کرتے ہیں جس کی وجہ سے چیزوں کے مارکیٹ تک پہنچنے کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور بالآخر یہ بوجھ بھی عوام پر ہی پڑتا ہے۔ اس چیز کو ذرا سی توجہ اور شکایت سیل بنا کر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
8۔ چیزوں کی قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا آپس میں تعاون از حد ضروری ہے ایسا وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں مانیٹرنگ سیل بنا کر کیا جا سکتا ہے جو ان اشیا کی روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں پر نظر رکھے اور لوگوں کی شکایات کا ریکارڈ بھی اپنے پاس رکھے۔ اس سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ حکومت کی مقرر کردہ قیمتوں پر عمل ہو بھی رہا ہے یا نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ شکایات کا ازالہ بھی روزانہ کی بنیاد پر کیا جانا ممکن ہو سکے گا۔ کسی بھی صوبائی وزیر یا وزیر اعلیٰ کے اچانک دورے سے میڈیا میں تشہیر تو ہو سکتی ہے لیکن مطلوبہ نتائج اور دیرپا بہتری نہیں آ سکتی۔
بحیثیت ماہر معاشیات میں نے یہ سارے اقدامات بہت سوچ سمجھ کر تجویز کیے ہیں اگر ہر سال ان تجاویز پر منظم طور سے عمل کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے اوپر خود مسلط کیے جانے والے مہنگائی کے عذاب سے چھٹکارا نہ پا سکیں۔ کاش کہ عوام اور ارباب اختیار دونوں اس پر غور کریں۔
لہٰذا یہ تمام صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ان تمام غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے اور اس کے لیے ایک مربوط نظام بنایا جائے جس میں تمام اسباب کو حل کرنے کے لیے ایک منظم پالیسی روبہ عمل لائی جائے۔ اس سلسلے میں وفاقی، صوبائی اور ضلع حکومتوں کو مل کر ایک پالیسی فریم ورک بنانا ہو گا۔ چونکہ اس وقت ملک میں ضلع حکومتیں موجود ہی نہیں، لہٰذا بیوروکریٹ اور افسر شاہی سے اس ضمن میں کام لیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں عوام کا تعاون بھی از حد ضروری ہے جیسا کہ اسباب بیان کرتے وقت یہ بات نوٹ کی گئی کہ قیمتوں میں اضافے کا ایک سبب عوام کی طرف سے اندھا دھند خریداری بھی ہے جس سے مارکیٹ میں طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور متعین مقدار میں رسد Supply ہونے کی وجہ سے قیمتیں اوپر کی طرف جاتی ہیں۔ ملک میں بڑھتے افراط زر سے تو ویسے سب ہی پریشان ہیں لیکن اس وقت عارضی طور پر رمضان میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔
1۔جن پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں مصنوعی طور پر بہت زیادہ بڑھائی جا رہی ہیں ان کی خریداری عوام کی طرف سے کچھ عرصے کے لیے بالکل بند کی جائے۔ فروخت بند ہونے کی وجہ سے طلب میں کمی واقع ہو گی اور قیمتیں کچھ دن کے بعد ہی نیچے کی طرف آنے لگیں گی۔ وگرنہ ان چیزوں کے خراب ہونے کا خطرہ تاجروں کو یقیناً ہو گا۔ رمضان کے پہلے ہفتے میں ٹماٹر کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن طلب کم ہوتے ہی اگلے ہفتے نہ صرف اس کی قیمتوں میں اضافہ رک گیا بلکہ ان میں کمی دیکھی گئی۔
اس تمام نتیجے کو حاصل کرنے کے لیے عوام کو اجتماعی شعور کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اس شعور کی بیداری میں کنزیومر ایسوسی ایشن مناسب کردار ادا کر سکتی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں اس قسم کی تنظیموں کا کوئی رواج نہیں۔ بہرحال یہ ذمے داری عوام کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کی حکمت عملی خود بنائیں اور ایک جان ہو کر قیمتوں میں ایسا مصنوعی اضافہ روک کر دکھائیں۔
2۔حکومت کی طرف سے رمضان میں پڑوسی ممالک سے سبزیوں اور پھلوں کی درآمد صرف ایک مہینے کے لیے کھولی جائے جس سے مارکیٹ میں رسد کی مصنوعی قلت دور ہو گی اور قیمتیں نیچے آئیں گی کیونکہ مقامی تاجر کو اپنی مصنوعات نہ بکنے کا خوف ہو گا۔
3۔حکومت کی طرف سے سستے بازاروں کے نیٹ ورک کو مزید مضبوط کیا جائے اگرچہ اس نظام کو فی الحال اپنایا جا رہا ہے لیکن یہ شکایت عام ہے کہ ان سستے بازاروں کا رخ عوام نہیں کرتے کیونکہ یہاں پر بکنے والی چیزیں انتہائی کم معیار کی ہوتی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سستے بازاروں کی بہت قریب سے جانچ پڑتال کی جائے اور یہاں پر اشیا کے معیار کا خاص خیال رکھا جائے اس کے ساتھ ساتھ عوام کو یہاں سے خریداری کرنے کے لیے خاص ترغیب دی جائے۔
4۔اگرچہ یوٹیلیٹی اسٹورز میں چیزوں پر حکومت کی طرف سے سبسڈی دی جاتی ہے لیکن یہاں بھی یہ شکایت عام ہے کہ یا تو ضروری اشیائے خور و نوش یہاں موجود نہیں ہوتیں یا پھر ان کا معیار بہت کم ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے ذرا سی توجہ اور یوٹیلیٹی اسٹورز میں ہونے والی کرپشن کو قابو کر کے یہاں سے بھی عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔
5۔ یہ بات بھی عام مشاہدے کی ہے کہ تمام برانڈڈ اور پیکجڈ مصنوعات کی قیمتیں رمضان میں کم کی جاتی ہیں تا کہ زیادہ بیچ کر اپنا منافع کمایا جا سکے لیکن اصل مسئلہ پھلوں اور سبزیوں اور دیگر نان برانڈڈ اشیا کا ہے جن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں اس کے لیے از حد ضروری ہے کہ حکومت مارکیٹ کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلا کر ان قیمتوں کو اپنی جگہ پر فکس کرے جو کہ نہ تو بہت نیچے ہو نہ ہی بہت اوپر ہو۔ عموماً دکاندار حکومت کی فراہم کردہ لسٹوں پر یہ کہہ کر عملدرآمد کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کہ ان قیمتوں پر فروخت کرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ اس لیے ان لسٹوں کو بناتے وقت حقیقت پسندی کا ثبوت دینا بھی ضروری ہے تا کہ نہ تو عوام کو دقت ہو اور اس کے ساتھ ہی تاجر برادری کو بھی جائز منافع حاصل ہو جائے۔
6نرخوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے مجسٹریٹ اور ڈپٹی کمشنروں کو ضروری اختیارات دیے جائیں اس کے ساتھ عوامی نمایندوں اور اراکین اسمبلی کو بھی فعال کیا جائے جس کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنا حصہ ڈالیں۔ ساتھ ہی ساتھ عمل درآمد کراتے وقت مسئلے کی جڑ تک پہنچا جائے۔ صرف دکانداروں اور ریٹیلرز کو پکڑنے اور سزا دینے سے مسئلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر آڑھتی اور ہول سیلرز اس مہنگائی کے ذمے دار ہوتے ہیں اور چونکہ وہ نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں اس لیے ساری سزا صرف ریٹیلرز کو ملتی ہے۔ لیکن گرانفروشی کا مسئلہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔
7۔یہ بات بھی ایک عام شکایت کے طور پر سامنے آتی ہے کہ ضلعی حکومتوں کے افسران اور پولیس تاجروں، ٹھیلے والوں اور ٹرانسپورٹرز سے اس مہینے خوب ''نظرانہ'' وصول کرتے ہیں جس کی وجہ سے چیزوں کے مارکیٹ تک پہنچنے کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور بالآخر یہ بوجھ بھی عوام پر ہی پڑتا ہے۔ اس چیز کو ذرا سی توجہ اور شکایت سیل بنا کر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
8۔ چیزوں کی قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا آپس میں تعاون از حد ضروری ہے ایسا وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں مانیٹرنگ سیل بنا کر کیا جا سکتا ہے جو ان اشیا کی روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں پر نظر رکھے اور لوگوں کی شکایات کا ریکارڈ بھی اپنے پاس رکھے۔ اس سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ حکومت کی مقرر کردہ قیمتوں پر عمل ہو بھی رہا ہے یا نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ شکایات کا ازالہ بھی روزانہ کی بنیاد پر کیا جانا ممکن ہو سکے گا۔ کسی بھی صوبائی وزیر یا وزیر اعلیٰ کے اچانک دورے سے میڈیا میں تشہیر تو ہو سکتی ہے لیکن مطلوبہ نتائج اور دیرپا بہتری نہیں آ سکتی۔
بحیثیت ماہر معاشیات میں نے یہ سارے اقدامات بہت سوچ سمجھ کر تجویز کیے ہیں اگر ہر سال ان تجاویز پر منظم طور سے عمل کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے اوپر خود مسلط کیے جانے والے مہنگائی کے عذاب سے چھٹکارا نہ پا سکیں۔ کاش کہ عوام اور ارباب اختیار دونوں اس پر غور کریں۔