میرا زہر میرا لہو
زندگی کی خوشخبری سنانے والا اگر موت بانٹنے لگ جائے تو ہم جیسے غریب اپنے سروں کو کون سی دیوار
زندگی کی خوشخبری سنانے والا اگر موت بانٹنے لگ جائے تو ہم جیسے غریب اپنے سروں کو کون سی دیوار کے ساتھ ٹکرائیں؟ اپنے ہاتھوں سے تراشے بتُ کو اگر فن کار خود ہی ہتھوڑے برسا کر تباہ و برباد کر دے تو ہم کس کو فن کار اور کسے قاتل کہیں؟ وہ چاند جس کی ٹھنڈی روشنی میں میرے گائوں کے لوگ گیت گاتے ہیں وہ ہی ہمیں جلانے لگ جائے تو میری زبان میں مٹھاس کہاں سے آئے گی؟ میرے لفظوں سے زہر کیسے نکلے گا؟ یہ زہر تو اُن ماہرین کو نکالنا تھا جو پھولوں میں خوشبو لانے کے ماہر ہیں۔ لیکن یہاں مسیحائوں کے روپ میں قاتل بیٹھے ہیں۔
آئو، دو قصے بتاتا ہوں جس سے ہماری زبان کی مٹھاس زہر میں بدل گئی۔ یہ نواب شاہ ہے، جہاں حکمران رہتے ہیں۔ اسی نواب شاہ میں ایک غریبوں کا مسکن غلام رسول شاہ کالونی بھی ہے۔ لفظ کالونی سے آپ یہ مت سمجھیے گا کہ یہاں انگریز آباد ہیں ۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ یہاں پر حکمران کالے انگریز ہیں۔ محنت کشوں کی اس آبادی میں ایک اصغر جمالی بھی ہے۔ اپنے خون کو پسینہ کے ذریعہ بہا کر یہ شخص اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہے۔ بڑی مشکل سے گھر کا گزارا ہوتا ہے۔ 22 جون یعنی ایک مہینہ پہلے شام کو تھکا ہوا گھر پہنچا تو بیوی نے کہا کہ اُس کی طبیعت بہت خراب ہے۔ اس نے سرکاری اسپتال کا رخ کیا۔
اصغر کسی نہ کسی طرح رات گئے اپنی بیوی کو اس عوامی اسپتال میں لے آیا۔ اُس کی بیوی کے مطابق ڈاکٹر نے ڈانٹ کر نکال دیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے صبح آنا۔ پیدل اپنی بیوی کو سہارا دیتے ہوئے چلنے لگا جیب میں اتنے ہی پیسے تھے کہ گھر پہنچ جائے۔ کسی پرائیوٹ کاروباری اسپتال جانے کی ہمت نہیں تھی۔ اب آپ خود ہی بتائو کہ جب عوامی اسپتال سے عوام کو رات کے آخری پہر نکال دیا جائے تو میری زبان میں مٹھاس آ سکتی ہے؟
عوام کی تذلیل کا سلسلہ ابھی بند نہیں ہوا۔ اصغر اور اس کی بیوی نے رات کا آخری پہر بڑی مشکل سے نکالا بیوی بیماری سے پریشان تھی اور اصغر اپنی بیوی کی حالت دیکھ کر۔ اصغر سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اگلے دن صبح صبح اُس نے اپنی بیوی کو ساتھ لیا اور اسی عوامی اسپتال کی ایمرجنسی میں لے آیا۔ اب آپ کو تو معلوم ہے کہ ڈاکٹر بادشاہ ہوتا ہے۔ اب یہ بات انھیں سمجھانی پڑے گی کہ جو نواب شاہ کے حاکم ہے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کو تو آپ نے مشورہ دے دیا لیکن اپنے آبائی علاقے کے ڈاکٹر کو بھی کہہ دیتے کہ وہ بادشاہ نہ بنے۔
خیر اس عوامی اسپتال کے عوامی ڈاکٹر نے اصغر اور اُس کی بیوی کو ایمرجنسی سے نکال دیا اور کہا کہ opd میں جا کر چیک کرائو۔ مجبور شوہر اپنی بیمار بیوی کو لے کر opd چلا گیا۔ مگر وہاں بھی اسے دھتکارا گیا۔ اصغر کی جیب میں ابھی 20 روپے تھے۔ اُس نے 20 روپے کا پیٹرول خریدا۔۔ اور۔۔ اور اسپتال میں تمام ڈاکٹرز کے سامنے خود کو آگ لگا لی ۔۔۔ بس خوش ہو گئے سب ۔۔؟ سارے ڈاکٹر ؟ سارا نظام ۔ اگلے دن 24 جون کو یہ خبر تمام اخبارات میں چھپی۔ لیکن کیا ہوا کیا اصغر اب واپس آ جائے گا؟ کیا اب اس ملک میں کسی اصغر کے ساتھ روز ایسا نہیں ہوتا۔
آپ ہی بتائو، میری زبان میں مٹھاس کہاں سے آئے جب مجھے ہر روز اسی طرح کئی اصغر کے مرنے کی خبریں ملتی ہو؟ کوئی اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ کتنے اصغر اور چاہیے ان حکمرانوں کو جس کے بعد کوئی اصغر اسپتال میں اس طرح خود کو آگ نہ لگائے؟ ۔ خاتون وہاں سب کے سامنے روتی رہی۔ لیکن کوئی مدد کے لیے نہ آیا۔ اُس نے سب سے درخواست کی۔ کوئی تو ان ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی کرے لیکن کون جیتا ہے اُس وقت تک جب انقلاب کے دھویں سے زندگی کو سانس ملے گی۔
مان لیتے ہیں یہ دعوی بھی کہ ہمارے پاس اچھے ڈاکٹرز کی کمی نہیں، مان لیتے ہیں اس بات کو بھی کہ اس وقت دنیا بھر میں اگر ہم افرادی قوت میں کچھ باہر اچھا بھیج رہے ہیں تو وہ ڈاکٹرز ہیں۔ لیکن مجھ جیسے 18 کروڑ کا کیا کروں جو مانتے ہی نہیں۔ کیا کریں اُن ہزاروں بنیادی صحت کے مراکز، دیہی مراکز، تحصیل اسپتالوں، ڈسٹرکٹ اسپتالوں کا جہاں زندہ لاشیں ہاتھوں میں پرچیاں تھامے گھوم رہی ہوتی ہیں۔ جو ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ ایسے میں میں کیا چند خیراتی اسپتال بہت ہیں؟ یہ کس کی ذمے داری ہے؟ یا پھر کچھ لوگ جو ایک اسپتال بنا کر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے 18کروڑ لوگوں کا مسئلہ حل کر دیا۔ نہیں۔ کبھی بھی نہیں ۔۔؟ کیوں ایک موٹر وے کا بجٹ زیادہ اور اسپتال کا کم ہوتا ہے۔
صحت مند ماں، صحت مند معاشرہ بناتی ہے؟ لیکن یہاں ہم اپنا سر کہاں پھوڑیں؟ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق ہمارے حکمرانوں اور بیورکریسی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بنیادی صحت کے مراکز پر کام نہیں کرتی۔ کیونکہ چھوٹے مرض ہی بڑے مرض کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ بڑے اسپتال کی ضرورت عموما اُس وقت پڑتی ہے جب چھوٹے مسئلہ کو حل نہ کیا جائے۔ ڈاکٹرز سے کیے گئے ایک حالیہ انٹریو میں یہ بات سامنے آئی کہ جان بوجھ کر بنیادی صحت کے مراکز اور دیہی مراکز کو تباہ کیا جا رہا ہے تا کہ بڑی بڑی مشینوں پر پیسہ لگا کر پیسہ بنایا جائے۔ آخر کیوں؟
اور پھر ہوتا کیا ہے؟ وہ جو ایک چھوٹے سے قصبے نما شہر نوکوٹ میں ہوا۔ سلیمان کے بیٹے کو معمولی بخار ہوا وہ سرکاری اسپتال پر کئی بار پریشان ہو چکا تھا۔ ایک پرائیوٹ چھوٹے اسپتال گیا۔ ڈاکٹر نے اپنی دکان چلانے کے لیے بچے کو دیکھتے ہی اسپتال میں داخل کر لیا۔ اور اُس ڈاکٹر نے اپنے ایک جاننے والے الٹرا ساونڈ والے کے پاس بھیجا۔ چار دن تک علاج ہوتا رہا اسپتال کا بل بنتا رہا۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مایوس ہو کر وہ ایک اور ڈاکٹر کے پاس گیا جس نے کہا کہ یہ رپورٹ ہی غلط ہے اور جس مرض کا علاج ہو رہا تھا وہ تو ہے ہی نہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ علاج تلی اور جگر کا ہو رہا تھا جب کہ مسئلہ معدے کا تھا۔ بچے کی حالت اتنے دنوں میں بگڑ گئی اور وہ زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہا ہے۔
اس قوم کا مسئلہ سلیمان کی طرح کا ہے ہر آنے والا ڈاکٹر حکمران معدہ کی بجائے جگر کا علاج شروع کر دیتا ہے۔ اور جب وہ جاتا ہے تو آنے والا حکمران یہ کہہ دیتا ہے کہ مسئلہ جگر کا نہیں بلکہ آنتوں کا ہے اُس میں ایک بجٹ منظور ہوتا ہے اور پھر وہ بھی چلا جاتا ہے اگلا آنے والا دونوں کو الزام دیتا ہے اور پھر وہ جبڑوں کا علاج شروع کر دیتا ہے۔ معدہ کا درد وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ اب تم ہی بتائو اس تکلیف میں کیسے میں سکون سے بیٹھوں؟ جب مجھ جیسے 18 کروڑ ہر پل مرتے ہو ۔ کیسے میٹھی میٹھی باتیں کرو ں؟ جب ہر روز میرا لہو ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے زہر میں بدل رہا ہو ۔
آئو، دو قصے بتاتا ہوں جس سے ہماری زبان کی مٹھاس زہر میں بدل گئی۔ یہ نواب شاہ ہے، جہاں حکمران رہتے ہیں۔ اسی نواب شاہ میں ایک غریبوں کا مسکن غلام رسول شاہ کالونی بھی ہے۔ لفظ کالونی سے آپ یہ مت سمجھیے گا کہ یہاں انگریز آباد ہیں ۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ یہاں پر حکمران کالے انگریز ہیں۔ محنت کشوں کی اس آبادی میں ایک اصغر جمالی بھی ہے۔ اپنے خون کو پسینہ کے ذریعہ بہا کر یہ شخص اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہے۔ بڑی مشکل سے گھر کا گزارا ہوتا ہے۔ 22 جون یعنی ایک مہینہ پہلے شام کو تھکا ہوا گھر پہنچا تو بیوی نے کہا کہ اُس کی طبیعت بہت خراب ہے۔ اس نے سرکاری اسپتال کا رخ کیا۔
اصغر کسی نہ کسی طرح رات گئے اپنی بیوی کو اس عوامی اسپتال میں لے آیا۔ اُس کی بیوی کے مطابق ڈاکٹر نے ڈانٹ کر نکال دیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے صبح آنا۔ پیدل اپنی بیوی کو سہارا دیتے ہوئے چلنے لگا جیب میں اتنے ہی پیسے تھے کہ گھر پہنچ جائے۔ کسی پرائیوٹ کاروباری اسپتال جانے کی ہمت نہیں تھی۔ اب آپ خود ہی بتائو کہ جب عوامی اسپتال سے عوام کو رات کے آخری پہر نکال دیا جائے تو میری زبان میں مٹھاس آ سکتی ہے؟
عوام کی تذلیل کا سلسلہ ابھی بند نہیں ہوا۔ اصغر اور اس کی بیوی نے رات کا آخری پہر بڑی مشکل سے نکالا بیوی بیماری سے پریشان تھی اور اصغر اپنی بیوی کی حالت دیکھ کر۔ اصغر سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اگلے دن صبح صبح اُس نے اپنی بیوی کو ساتھ لیا اور اسی عوامی اسپتال کی ایمرجنسی میں لے آیا۔ اب آپ کو تو معلوم ہے کہ ڈاکٹر بادشاہ ہوتا ہے۔ اب یہ بات انھیں سمجھانی پڑے گی کہ جو نواب شاہ کے حاکم ہے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کو تو آپ نے مشورہ دے دیا لیکن اپنے آبائی علاقے کے ڈاکٹر کو بھی کہہ دیتے کہ وہ بادشاہ نہ بنے۔
خیر اس عوامی اسپتال کے عوامی ڈاکٹر نے اصغر اور اُس کی بیوی کو ایمرجنسی سے نکال دیا اور کہا کہ opd میں جا کر چیک کرائو۔ مجبور شوہر اپنی بیمار بیوی کو لے کر opd چلا گیا۔ مگر وہاں بھی اسے دھتکارا گیا۔ اصغر کی جیب میں ابھی 20 روپے تھے۔ اُس نے 20 روپے کا پیٹرول خریدا۔۔ اور۔۔ اور اسپتال میں تمام ڈاکٹرز کے سامنے خود کو آگ لگا لی ۔۔۔ بس خوش ہو گئے سب ۔۔؟ سارے ڈاکٹر ؟ سارا نظام ۔ اگلے دن 24 جون کو یہ خبر تمام اخبارات میں چھپی۔ لیکن کیا ہوا کیا اصغر اب واپس آ جائے گا؟ کیا اب اس ملک میں کسی اصغر کے ساتھ روز ایسا نہیں ہوتا۔
آپ ہی بتائو، میری زبان میں مٹھاس کہاں سے آئے جب مجھے ہر روز اسی طرح کئی اصغر کے مرنے کی خبریں ملتی ہو؟ کوئی اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ کتنے اصغر اور چاہیے ان حکمرانوں کو جس کے بعد کوئی اصغر اسپتال میں اس طرح خود کو آگ نہ لگائے؟ ۔ خاتون وہاں سب کے سامنے روتی رہی۔ لیکن کوئی مدد کے لیے نہ آیا۔ اُس نے سب سے درخواست کی۔ کوئی تو ان ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی کرے لیکن کون جیتا ہے اُس وقت تک جب انقلاب کے دھویں سے زندگی کو سانس ملے گی۔
مان لیتے ہیں یہ دعوی بھی کہ ہمارے پاس اچھے ڈاکٹرز کی کمی نہیں، مان لیتے ہیں اس بات کو بھی کہ اس وقت دنیا بھر میں اگر ہم افرادی قوت میں کچھ باہر اچھا بھیج رہے ہیں تو وہ ڈاکٹرز ہیں۔ لیکن مجھ جیسے 18 کروڑ کا کیا کروں جو مانتے ہی نہیں۔ کیا کریں اُن ہزاروں بنیادی صحت کے مراکز، دیہی مراکز، تحصیل اسپتالوں، ڈسٹرکٹ اسپتالوں کا جہاں زندہ لاشیں ہاتھوں میں پرچیاں تھامے گھوم رہی ہوتی ہیں۔ جو ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ ایسے میں میں کیا چند خیراتی اسپتال بہت ہیں؟ یہ کس کی ذمے داری ہے؟ یا پھر کچھ لوگ جو ایک اسپتال بنا کر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے 18کروڑ لوگوں کا مسئلہ حل کر دیا۔ نہیں۔ کبھی بھی نہیں ۔۔؟ کیوں ایک موٹر وے کا بجٹ زیادہ اور اسپتال کا کم ہوتا ہے۔
صحت مند ماں، صحت مند معاشرہ بناتی ہے؟ لیکن یہاں ہم اپنا سر کہاں پھوڑیں؟ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق ہمارے حکمرانوں اور بیورکریسی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بنیادی صحت کے مراکز پر کام نہیں کرتی۔ کیونکہ چھوٹے مرض ہی بڑے مرض کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ بڑے اسپتال کی ضرورت عموما اُس وقت پڑتی ہے جب چھوٹے مسئلہ کو حل نہ کیا جائے۔ ڈاکٹرز سے کیے گئے ایک حالیہ انٹریو میں یہ بات سامنے آئی کہ جان بوجھ کر بنیادی صحت کے مراکز اور دیہی مراکز کو تباہ کیا جا رہا ہے تا کہ بڑی بڑی مشینوں پر پیسہ لگا کر پیسہ بنایا جائے۔ آخر کیوں؟
اور پھر ہوتا کیا ہے؟ وہ جو ایک چھوٹے سے قصبے نما شہر نوکوٹ میں ہوا۔ سلیمان کے بیٹے کو معمولی بخار ہوا وہ سرکاری اسپتال پر کئی بار پریشان ہو چکا تھا۔ ایک پرائیوٹ چھوٹے اسپتال گیا۔ ڈاکٹر نے اپنی دکان چلانے کے لیے بچے کو دیکھتے ہی اسپتال میں داخل کر لیا۔ اور اُس ڈاکٹر نے اپنے ایک جاننے والے الٹرا ساونڈ والے کے پاس بھیجا۔ چار دن تک علاج ہوتا رہا اسپتال کا بل بنتا رہا۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مایوس ہو کر وہ ایک اور ڈاکٹر کے پاس گیا جس نے کہا کہ یہ رپورٹ ہی غلط ہے اور جس مرض کا علاج ہو رہا تھا وہ تو ہے ہی نہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ علاج تلی اور جگر کا ہو رہا تھا جب کہ مسئلہ معدے کا تھا۔ بچے کی حالت اتنے دنوں میں بگڑ گئی اور وہ زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہا ہے۔
اس قوم کا مسئلہ سلیمان کی طرح کا ہے ہر آنے والا ڈاکٹر حکمران معدہ کی بجائے جگر کا علاج شروع کر دیتا ہے۔ اور جب وہ جاتا ہے تو آنے والا حکمران یہ کہہ دیتا ہے کہ مسئلہ جگر کا نہیں بلکہ آنتوں کا ہے اُس میں ایک بجٹ منظور ہوتا ہے اور پھر وہ بھی چلا جاتا ہے اگلا آنے والا دونوں کو الزام دیتا ہے اور پھر وہ جبڑوں کا علاج شروع کر دیتا ہے۔ معدہ کا درد وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ اب تم ہی بتائو اس تکلیف میں کیسے میں سکون سے بیٹھوں؟ جب مجھ جیسے 18 کروڑ ہر پل مرتے ہو ۔ کیسے میٹھی میٹھی باتیں کرو ں؟ جب ہر روز میرا لہو ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے زہر میں بدل رہا ہو ۔