کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی کیلئے کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت

کے ایم سی میں دو دو محکموں کام کرنے والے ملازمین ہیں اور گھوسٹ ملازمین کو کروڑوں روپے جاری ہوتے ہیں، اراکین کمیٹی

بجٹ میں اخراجات کا تخمینہ 49ارب 60کروڑ روپے لگایا گیا ہے:فوٹو:فائل

کراچی:

سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) میں گھوسٹ ملازمین کی نشان دہی کے لیے چیف سیکریٹری سندھ کو تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نثار احمد کھوڑو کی صدارت میں سندھ اسمبلی کی کمیٹی روم میں ہوا اور اجلاس کے بعد جاری بیان کے مطابق کے ایم سی کے 12 ہزار سے زائد ملازمین کی حاضری کے لیے مینیوئل حاضری رجسٹر کے علاوہ ملازمین کی حاضری کے لیے کوئی جدید مکینزم موجود نہ ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔

پی اے سی نے کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ ہونے کے خدشے کے پیش نظر کے ایم سی کے 12 ہزار سے زائد ملازمین کا ریکارڈ تمام ڈیٹا سمیت طلب کرلیا ہے۔

اجلاس میں کے ایم سی کی 2018 سے 2021 تک آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا اور کے ایم سی افسران سمیت تمام ملازمین کی ڈیٹا، سروس بوک، پرسنل فائلز کی تفصیلات اور 2018 کی کے ایم سی کی اے ڈی پی کی تفصیلات فراہم نہیں کرسکے۔

پی اے سی چیئرمین نثار کھوڑو نے کے ایم سی کے میونسپل کمشنر سے استفسار کیا کیا کہ کیا کے ایم سی کے مجموعی ملازمین کتنے ہیں اور کتنے ملازمین ڈیوٹی پر آتے ہیں اور ملازمین کی حاضری چیک کرنے کے لیے کیام مکینزم موجود ہے۔

میونسپل کمشنر افضل زیدی نے بتایا کہ کے ایم سی کے 12ہزار سے زائد ملازمین ہیں جن کی حاضری چیک کرنے کے لیے صرف حاضری رجسٹر موجود ہے جبکہ بائیومیٹرک سسٹم نصب نہیں ہے اور کے ایم سی کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹس اپنے اپنے شعبے کے ملازمین کی حاضری کی تصدیق کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کے ایم سی میں کوئی گھوسٹ ملازم نہیں ہے۔

چیئرمین پی اے سی نے کہا کے کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے اور کے ایم سی ملازمین کی حاضری صرف رجسٹر کے ذریعے مانیٹر کی جا رہی ہے، جدید دور میں بائیو میٹرک نظام کیوں نہیں ہے۔

کمیٹی کے رکن خرم سومرو نے کہا کہ کے ایم سی کے کئی ملازمین ایسے ہیں جو دو دو محکموں میں کام کر رہے ہیں اور کئی تو ویزا پر ہیں اور ڈیوٹی نہیں کرتے۔

کمیٹی کے ایک اور رکن قاسم سومرو نے کہا کہ ہر ماہ کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین کی کروڑوں روپے تنخواہیں نکالی جا رہی ہیں اور کے ایم سی پر گھوسٹ ملازمین کا الزام ہے۔

کمیٹی رکن خرم سومرو نے کہا کہ کراچی کے قبرستانوں میں بھی کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین گورکن بن کر فی قبر 40 ہزار روپے میں فروخت کر رہے ہیں جس کا ثبوت میرے پاس موجود ہے۔

میونسپل کمشنر افضل زیدی نے پی اے سی کو بتایا کے کے ایم سی میں 300ملازمین ایسے تھے جو ڈبل تنخواہیں لے رہے تھے اور وہ کے ایم سی کے ساتھ ساتھ سندھ پولیس میں بھی کام کر رہے تھے ان کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔

چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے کہا کے کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین اور گھر بیٹھے تنخواہیں لینے کا عمل کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، محکموں میں ویزا سسٹم بند ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین کی موجودگی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، اس لیے کے ایم سی ملازمین کی ڈیٹا سمیت ملازمین کی انٹرنل آڈٹ کرائی جائے۔

پی اے سی نے ہر ماہ کروڑوں روپے گھوسٹ ملازمین پر خرچ ہونے کے خدشے کے پیش نظر کے ایم سی کے تمام 12 ہزار سے زائد ملازمین کا ریکارڈ تمام ڈیٹا سمیت طلب کرلیا۔

سندھ اسمبلی کی پی اے سی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں گھوسٹ ملازمین کی نشان دہی کے لیے چیف سیکریٹری سندھ کو تحقیقاتی کمیٹی قائم کرکے تحقیقات کروانے کی ہدایت کردی۔

Load Next Story