غزل
بریدہ سر تھے مرے خواب جو ٹھکانے لگے
ابھی سے لوگ بہت انگلیاں اٹھانے لگے
مجھے بھلایا ہے تو نے تو دفعتاً لیکن
تجھے بھلانے میں مجھ کو کئی زمانے لگے
یہ سینہ زوری نہیں ہے تو اور کیا ہے میاں
چرا کے شعر مرے لوگ گنگنانے لگے
وہ اپنے آپ میں بد مست و بے خبر ٹھہرا
یہاں یہ حال کہ اب مجھ کو ہول آنے لگے
ستارے آنکھ میں وہ یوں چھپائے رکھتا ہے
ذرا سی بات ہوئی اور جھلملانے لگے
بحال دل سے مرا رابطہ ہوا ہے پھر
اسی بہانے اسی کوچہ آنے جانے لگے
جو مسکرا کے مری سمت تو نے دیکھا ہے
بتا کہ اس میں ترے کون سے خزانے لگے
ابھی تو پہلے ہی زینے پہ پاؤں دھرنا تھا
ابھی سے لوگ مجھے عشق سے ڈرانے لگے
مرا تھا رات کوئی رند بے تحاشہ سے
رشیدؔ دیپ یہاں آج سب جلانے لگے
(رشید حسرت۔ؔ کوئٹہ)
غزل
اک تعلق ہے مرا سلسلہ ٔ میر کے ساتھ
کوئی شکوہ نہیں مجھ کو مری تقدیر کے ساتھ
تو بھی اک روز مرے دل سے اتر جائے گا
نقش رہ جائے گا باقی تری شمشیر کے ساتھ
نیند آئے گی تو آرام سے سو جاؤں گا
میں کسی روز لپٹ کر تری تصویر کے ساتھ
اسی دریا کے کنارے پہ کھڑا ہوں اب تک
تو جہاں چھوڑ گیا تھا مجھے تعمیر کے ساتھ
ایک مجلس تھی جہاں گریہ کیا کرتے تھے
اب تو ہنس کھیل کے چل پڑتے ہیں رہگیر کے ساتھ
آج تک مجھ کو سمجھ میں نہیں آیا مرے دوست
پھول کا کیا ہے تعلق کسی زنجیر کے ساتھ
اک تحیر ہے، اداسی ہے، فسوں ہے، تو ہے
اور اک شام ِ اذیت ہے مزامیر کے ساتھ
(ندیم ملک ۔کنجروڑ، نارووال)
غزل
ہم سے وہ ایک شخص بھلایا نہیں گیا
وعدہ وفا کا جس سے نبھایا نہیں گیا
مجبوریوں نے ہم کو نظر بند کر دیا
حیرت کی بات اُن سے بھی آیا نہیں گیا
وہ تو عزیز ہے مجھے سارے جہان سے
لیکن یہ راز اُس کو بتایا نہیں گیا
تیرے بغیر خالی رہی دل کی سلطنت
پھر کوئی تختِ دل پہ بٹھایا نہیں گیا
سوچا ہے بارہا کہ جلا دوں تمھارا خط
کوشش کے باوجود جلایا نہیں گیا
معصوم حسرتیں کئی دم گھٹ کے مر گئیں
اور اِن کا سوگ ہم سے منایا نہیں گیا
سولی چڑھا دیا گیا بے جرم بس مجھے
لیکن قصور مجھ کو بتایا نہیں گیا
منہ زور آندھیوں نے کی کوشش بہت مگر
جلتا رہا چراغ بجھایا نہیں گیا
اتری نہ ڈار کوئی پرندوں کی گھر مرے
آنگن میں اِک شجر بھی لگایا نہیں گیا
اُس کا کرم ہے پھر بھی سلامت کھڑا ہوں میں
ایسا نہیں ستم جو کہ ڈھایا نہیں گیا
راحلؔ جھکا نہ سر کبھی باطل کے سامنے
کٹ تو گیا مگر یہ جھکایا نہیں گیا
(علی راحل۔بورے والا)
غزل
چڑیوں کی گلستان میں چہکار ہے میں ہوں
پر کیف نظارے ہیں میرا یار ہے میں ہوں
گرتی ہوئی دیوار ہے طوفان کی زد میں
خاموش پڑا سایۂ دیوار ہے میں ہوں
اک شخص نے اعلان کیا اہلِ جہاں کو
اے اہلِ خرد کیا تمہیں درکار ہے میں ہوں
میں آبلۂ پا سے ڈرا ہوں نہ ڈروں گا
سہمی ہوئی اک وادیِ پرخار ہے میں ہوں
جچتے ہی نہیں کیا لکھوں تعریف پہ تیری
لفظوں کا میرے سامنے انبار ہے میں ہوں
دن بھر کی تھکن ہاتھ میں ہے سوچ رہا ہوں
کیا لوں کسے چھوڑوں بھرا بازار ہے میں ہوں
لوگوں کے رویّوں کے تھپیڑوں سے پریشاں
بیٹھا ہوا دنیا سے جو بیزار ہے میں ہوں
ہم تین ہیں اور حسن کی محفل ہے فروزاں
اک چاند ہے اور چہرۂ سرکار ہے میں ہوں
ہے روح کو تسکین بدن ٹوٹ رہا ہے
صدیوں کی تھکن جانے کو تیار ہے میں ہوں
مدّت سے بغاوت کی زباں بول رہا ہوں
اب دار و رسن برسرِ پیکار ہے میں ہوں
انگلی کو پکڑ صبر کی صابرؔ نے بتایا
اک جام ہے اک ضبط ہے مے خوار ہے میں ہوں
(بلال صابر۔ترنڈہ محمد پناہ)
غزل
منتظر تھے تمہارے پھول کھلے
مر رہے ہیں بچارے پھول کھلے
دل کی مٹی بدل کے دیکھا ہے
کھل گئے پر، تمھارے پھول ِکھلے
کون خواہش ہماری کرتا ہے
کس زمیں پر ہمارے پھول کھلے
دیکھتے رہ گئے مسافر کو
پٹڑیوں کے کنارے پھول کھلے
روئیے موسمِ گریزاں کو
بانٹیے ابر پارے پھول کھلے
دیکھنا لڑکیوں کے تیور تم
دیکھنا اتنے سارے پھول کھلے
(سیف علی۔چیچہ وطنی)
غزل
رونقیں ہیں محفل میں،لب پہ پر خموشی ہے
کیا ہماری قسمت میں دربدر خموشی ہے
جان! کون سمجھا ہے، ان اجاڑ رستوں کو
عاشقی کے ماروں کی ہمسفر خموشی ہے
دو ہی تو ٹھکانے ہیںہم فقیر لوگوں کے
ایک گھر اندھیرا ہے، ایک گھر خموشی ہے
وہ اُدھر پریشاں ہے، میں اِدھر پریشاں ہوں
اک اُدھر خموشی ہے، اک اِدھر خموشی ہے
موت، زندگی میں بس فرق یہ ہی ملتا ہے
اِس نگر میں میلے ہیںاُس نگر خموشی ہے
لوٹ آنا تم اربابؔ بزم ختم ہونے پر
ہم اُدھر ملیں گے سن،وہ جدھر خموشی ہے
(ارباب اقبال بریار۔واہنڈو، گوجرانوالہ)
غزل
تابندہ ترے دل میں اگر پیار رہے گا
چہرے پہ تبسم تو مرے یار رہے گا
ہنس ہنس کے ترے ہجر میں ڈالوں گا دھمالیں
صوفی بھی مرے عشق سے بیدار رہے گا
جس کو بھی ترے عشق کی مل جائے گی نسبت
دنیا کی محبت سے وہ بیزار رہے گا
ہو گی نہ طلب اُس کو کبھی جام و سبو کی
جس کو تری آنکھوں سے سروکار رہے گا
ہر ایک حسینا کو ترے بعد بھی ہمدم
انکار تھا، انکار ہے، انکار رہے گا
شاید کہ وہ دن موت سے پہلے مری آئے
جب لب پہ ترے پیار کا اظہار رہے گا
تو لاکھ ستم کر لے مگر پھر بھی مری جاں
دل تری محبت میں گرفتار رہے گا
گر سن لے مرے عشق کے دو چار فسانے
مجنوں بھی مرے در کا رضاکار رہے گا
چاہے مری مٹھی میں سما جائے زمانے
دل حضرتِ ساقی کا ہی مے خوار رہے گا
اک بار وہ گر آئے مرے شہر میں طلحہؔ
ہر تنکا مرے شہر کا سرشار رہے گا
(طلحہ بن زاہد۔ اوکاڑہ)
غزل
کرتے جو تیرے رخ کا نظارہ کبھی کبھی
آرام پاتا دل یہ ہمارا کبھی کبھی
رہتی ہے فائدے پہ ہی کیوں آپ کی نظر
ہوتا ہے زندگی میں خسارہ کبھی کبھی
ہم تو تمہاری سمت بڑھاتے رہے قدم
کچھ تم بھی آگے آؤ خدارا کبھی کبھی
احسان مند ہوں میں تمہارا اسی لیے
تم نے دیا ہے مجھ کو سہارا کبھی کبھی
خوشحال زندگی یونہی رہتی نہیں سدا
فاقے میں ہوگا تیرا گزارا کبھی کبھی
اس کو بھی لوگ کہنے لگے ہیں حریف جاں
مجھ کو جو سمجھے آنکھ کا تارا کبھی کبھی
کچھ بھی نہیں ملا اسے الفت سے آپ کی
نازاںؔ کو بے رخی نے بھی مارا کبھی کبھی
(صدام حسین نازاؔں۔ بہار، انڈیا)
غزل
اتنا کومل کیسے کوئی ہوسکتا ہے
کیا ممکن ہے، گل بھی خار چبھو سکتا ہے
اسکی آنکھیں دیکھ کہ جھیل کو شکوہ ہے یہ
میرے جیسا کیسے کوئی ہو سکتا ہے
دل کے راز نہ کھولے میں نے اس کے آگے
میں جو رویا وہ بھی روئے ہو سکتا ہے
جسکی ایک ہنسی سے سارے گلشن مہکیں
اسکے آگے کیسے کوئی روسکتا ہے
اسکی باتیں اک شیریں سی لوری جیسی
وہ جو چاہے سارا عالم سو سکتا ہے
پیار کے پیڑ اگاتے عمر گئی ہو جس کی
کیسے پھر وہ بیج انا کے بو سکتا ہے
اتنا چوڑا سینہ پایا دیکھ رضاؔ نے
جتنے چاہے اتنے درد سمو سکتا ہے
(عنصر رضا۔ڈیرہ اسماعیل خان)
غزل
حال بہتر کرتے کرتے حال ابتر ہو گیا
زندگی میں چین مجھ کو ایک پل کا نہ ملا
میں ابھی تک محوِ حیرت ہوں کہ میرا ہمنوا
ہنستے ہنستے کیوں اچانک بے تحاشا رو دیا
جس نے اتنے قہر ڈھائے جس نے ڈھائے ہیں ستم
کس طرح وہ چین سے، آرام سے وہ سو گیا
تب سے میں خوش ہوں کہ آزادی ملے گی زیست سے
جب مسیحا نے کہا تھا یہ مرض ہے لادوا
نہ ہی مہنگائی سے چھوٹی جان، نہ ہم خوش ہوئے
حال بدتر ہے ہمارا، معجزہ خالق دکھا
عاجزی سے دست بستہ سر جھکائے ہوں کھڑا
رحم کر رحمان ہے کرتا یہی ہوں التجا
راستے میں صحرا، جنگل اور ساگرہے جناب
جانتا ہوں راستہ سارا مجھے تو مت ڈرا
(رجب علی ساگر۔ڈیرہ اسماعیل خان)
غزل
دکھ ثبات اور بے ثباتی دکھ
میرا دکھ تو ہے کائناتی دکھ
عشق، روزِ ازل سے لاحق روگ
اور وفا میرا جینیاتی دکھ
میں نے جھیلا ہے رد کِیا جانا
مجھ کو حاصل ہے تجرباتی دکھ
ہر طرف ہے صدائے کن کی دھمک
کب تھما ہے یہ شش جِہاتی دکھ!
آپ اِس میں مداخلت نہ کریں
یہ محبّت ہے میرا ذاتی دکھ
کب بھڑک اٹّھے یہ سلگتی آگ
حشر ڈھاتا ہے ممکناتی دکھ
عکس در عکس مختلف خدشات
آئنوں کا تصوّراتی دکھ
(اسیر ہاتفؔ۔ سرگودھا)
غزل
یہ تشنگی ہے پیار کی اور کچھ کمی نہیں
دل میں ہے بات پھر بھی زباں بولتی نہیں
دیتے ہیں درد سب ہی شناسا مجھے مگر
مرہم لگائے زخم پر ایسا کوئی نہیں
ڈھونڈا شریکِ غم جوجہانِ خراب میں
اک عمر کٹ گئی ہے وہ ہستی ملی نہیں
تم نے لگائی آگ سمجھ کر کسی کا گھر
تم خود جلے ہو اس میں کوئی جھونپڑی نہیں
دنیا نے جانے کیوں مجھے سمجھا خراب ہی
دیکھو تو میری ذات بھی اِتنی بری نہیں
باتیں جہان بھر کی سنی تو ترے لئے
ورنہ تو میں نے آج تک اپنی سنی نہیں
اب میں شہاب ؔہاتھ اٹھاؤں دعا کو کیوں
جو بستی تھی دعاؤں میں وہ اب رہی نہیں
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا،دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی