بیرونی تجارت، ملکی معیشت کی مضبوطی

اس کامیابی میں بیلا روس کی حکومت خصوصاً صدر بیلا روس کا کردار قابل توصیف ہے

فوٹو: پی آئی ڈی

بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکاشنکو کی قیادت میں 68 رکنی اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان کا 3روزہ دورہ کر رہا ہے، گزشتہ روز دونوں ملکوں کے درمیان بزنس ٹو بزنس سطح پر 8 مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ بلاشبہ مفاہمتی یاد داشتوں اور معاہدوں پر دستخط سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کی نئی راہوں کو فروغ ملے گا۔ بیلا روس، پاکستان سے ریلوے اور سڑک کے ذریعے روابط بڑھانا چاہتا ہے، اب سرحدوں سے پار تجارت میں ہی ملکی معیشت کی مضبوطی اور دو طرفہ تعلقات کا فروغ مضمر ہے۔

 خوش آیند بات یہ ہے کہ دورے کے تمام تر اہداف اور مقاصد واضح اور متعین تھے اور وفد کے تمام اراکین نے بڑی محنت، مستعدی اور برق رفتاری سے ان اہداف کے حصول کو قابل عمل بنایا ہے۔ اس کامیابی میں بیلا روس کی حکومت خصوصاً صدر بیلا روس کا کردار قابل توصیف ہے۔

 سوویت دور سے ہی بیلا روس کا نام آتے ہی ٹریکٹر کی تصویر ذہن میں ابھر آتی ہے جو پاکستان بھر کی سڑکوں پر نظر آتے تھے، اور اب بھی ہیں۔ پاکستان میں بیلا روس کے ٹریکٹرز پائیداری اور مضبوطی کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور یہاں مقامی مارکیٹ میں ان کی طلب بہت زیادہ ہے۔ پاکستان بیلا روس کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کے ذریعے سرمایہ کاری، معلومات اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کا خواہاں ہے۔

پاکستان میں تمام اقتصادی شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقعے موجود ہیں اور توانائی، انفرا اسٹرکچر، ٹیلی کمیونی کیشن، مینوفیکچرنگ، منرلز، آئی سی ٹی اور زراعت سمیت دیگر شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کاری ترجیح ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اشتراک کی وسیع بنیادیں موجود ہیں اور قریبی تعاون کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری جذبہ خیر سگالی بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔

 پاکستان، بیلاروس بزنس فورم کے دوران دونوں ملکوں میں تجارت کے فروغ کے لیے بزنس ٹو بزنس 8 مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے گئے جن کے تحت بیلاروس ٹائرز، ویٹرنری ادویات فراہم اور فارما انڈسٹری میں تعاون کریگا جب کہ توانائی اور صنعتی تعاون کے لیے ورکنگ گروپس کے قیام پر بھی اتفاق کیا گیا۔ تجارت میں اضافے کے لیے 2025-27 کے لیے روڈ میپ پر اتفاق کیا گیا۔

گو موجودہ تجارتی حجم دونوں ممالک کی اقتصادی صلاحیتوں کی عکاسی نہیں کرتا ہے، تاہم اس میں مزید اضافے کا خواہاں ہے، پاکستان بیلاروس سے ٹیکنالوجی منتقلی اور مشترکہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے توانائی، زراعت، آئی ٹی اور دیگر شعبے کھلے ہیں۔ پاکستان سے گوشت، ڈیری، زرعی مصنوعات اور کاغذی مصنوعات کی برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان معاہدوں سے کاروباری افراد کو نئے مواقع میسر آئیں گے۔

موجودہ تعاون کی صلاحیت ہمیں اپنے ممالک کے درمیان اقتصادی، تجارتی اور انسانی بنیادوں پر تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے اہداف طے کرنے اور حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ بزنس ٹو بزنس فورم تجارت، صنعتی پیداوار، زراعت، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم میں نئے مشترکہ منصوبوں کو فروغ دے گا۔ پاکستان سے ماسکو اور بیلا روس تک براہ راست فلائٹ کے آپریشن شروع کرنے پر کام ہو رہا ہے جب کہ چین، افغانستان، سینٹرل ایشیا اور بیلا روس تک تجارتی کوریڈور بھی پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان دفاع اور دفاعی پیداوار کے شعبے میں دوطرفہ تعاون سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ فریقین نے باہمی فائدہ مند شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ پاکستان بیلا روس کے ساتھ فٹ بال، بستروں کے سامان، کھیلوں اور آؤٹ ڈور گیمز کا سامان، جوتے، پلاسٹک اور دھاتی مصنوعات سمیت ربڑ جیسی اشیا کی برآمدات کے بیش بہا مواقع موجود ہیں۔

بیلا روس نے سوویت یونین سے الگ ہو کر بھی رشین فیڈریشن کے ساتھ اپنے بہترین تعلقات کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ انھیں مزید گہرا اور ہمہ جہت بنایا ہے جس کا دونوں ملکوں کو اپنی تاریخی، لسانی، نسلی، ثقافتی، سیاسی اور جغرافیائی قربت کی وجہ سے بہت فائدہ ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات بڑے اچھے ہیں بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گو مجموعی طور پر پاکستان اور بیلا روس کے تعلقات کی نشوونما سست روی کا شکار رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہاں ہمارے سفارت خانے کی عدم موجودگی بھی تھی۔ جب 2013 میں مسلم لیگ ’ن کی حکومت برسر اقتدار آئی تو پاکستان کے بیلا روس اور اس علاقے کے دوسرے ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئی۔

خاص طور پر یہ بہتری صدر بیلاروس کے مئی 2015میں دورہ پاکستان سے ہوئی۔ اس دورے میں پاکستان اور بیلا روس کے درمیان کوئی دو درجن باہمی اشتراک کے معاہدوں اور مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط ہوئے تھے۔ بہرحال ایک بار پھر ملک پر مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور ہم بیرونی سرمایہ کاری کے لیے شہبازشریف کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔

کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، ایسے ممالک کو اسکلز اور ٹیکنالوجی فراہم کرتی ہے، جو مقامی طور پر نہیں جانتے کہ وہ وسائل کو کیسے استعمال کر کے مصنوعات تیار کریں، جو شاید براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کی صورت میں یہ مصنوعات تیارکرنے کے قابل نہ ہوتے۔

 بیرونی سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔ کوئی بھی چیز کلیپٹو کریسی کی طرح عدم استحکام پیدا نہیں کرتی۔

موجودہ مسائل کا حل یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک اور ترقی یافتہ ممالک سرمایہ اور صنعت و حرفت میں ایک دوسرے سے مربوط ہو جائیں۔ صنعت کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پیداوار میں اضافہ کرتی ہے۔ ہنر مندی میں اضافہ کرتی ہے اور روزگار کے مواقع مہیا کرتی ہے۔ نتیجتاً سرمائے کی قلت اور تجارت میں عدم توازن اور افراط زر جیسے عوامل میں کمی آتی ہے۔ صنعت کے لیے سرمائے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔

صنعت کاری کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اشیاء پیدا کی جائیں جن کی کھپت ہو، چونکہ ہائی ٹیک صنعتیں اگر ہر خطے میں قائم نہیں کی جا سکتیں تو اس لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کی مقامی پیداوار اور دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔ یعنی جو چیز مقامی طور پر بن سکتی ہو وہ باہر سے نہ منگوائی جائے۔ اس طرح ہرملک کے اپنے وسائل صحیح طور پر استعمال ہو سکیں گے اور ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان فرق ختم ہوتا جائیگا۔کچھ عرصہ پہلے تک ممالک ایک دوسرے کی امداد کرتے رہے ہیں لیکن بہرحال اب یہ رجحان ختم ہو گیا ہے۔

مالی امداد لینے والے ممالک امداد کے بجائے تجارت کی بات کرتے ہیں اور کڑی شرائط لگاتے ہیں۔ ہر ملک اپنی سیاسی، معاشی و سماجی آزادی کا خواہش مند ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی معیشت مضبوط ہے کیونکہ وہاں تحفظ ہے۔ وہ ترقی پذیر ممالک میں ڈیوٹی کی شرح میں تبدیلی سے خود فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسری طرف یہی ممالک اپنی اشیاء دوسرے ممالک میں اسمگل کرتے ہیں۔ اسمگلنگ ایک برائی ہے اور اسے ختم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اسمگلنگ ایک ایسی لعنت ہے جو کسی بھی ملک کی معیشت اور اس باشندوں کے لیے زہر قاتل کا کام کرتی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کو چاہیے کہ سرمایہ کاری کی منتقلی کو روکیں، کیونکہ اس سے ترقی پذیر ممالک کی پیش رفت میں دشواری ہوتی ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ مختصر مدت کا سرمایہ دنیا میں کسی بھی ملک کو پھلنے پھولنے نہیں دے گا، لہٰذا ضروری ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے کر لیا جائے کہ کسی ملک میں سرمایہ کم سے کم کتنی مدت کے لیے لگایا جا رہا ہے۔ اس کے مقاصد شروع سے ہی واضح ہونے چاہئیں تاکہ مالیاتی ماہرین اپنی مرضی سے سرمائے کو ادھر ادھر نہ کر سکیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ترقی پذیر ممالک مسلسل تنزلی کا شکار رہیں گے اور دنیا بھر میں معیشت میں ربط ممکن نہیں ہو گا۔ترقی یافتہ ممالک میں ترقی پذیر ممالک سے افرادی قوت کے انخلاء کا مسئلہ بھی گھمبیر ہے۔ اس امر کا سدباب نہایت ضروری ہے۔

مشرق ہو یا مغرب، امریکا ہو یا روس، یورپ ہو یا ایشیاء یا لاطینی امریکا، ان سب کو باہمی ترقی کے لیے راستے نکالنے ہوںگے۔ جب تک ان براعظموں کی معیشت میں منجملہ باہمی ربط نہیں ہو گا اور ان کے مفاد مشترکہ نہیں ہوں گے، اس وقت تک دنیا بھر سے امن اور خوشحالی حاصل نہیں ہوگی۔

Load Next Story