پی ٹی آئی کی پشاور سے اسلام آباد پر یلغار روکنے کے لیے حکومت نے سخت حفاظتی اقدامات کیے ہیں،گزشتہ پانچ روز سے موٹر ویز سمیت دیگر بین الصوبائی شاہراہیں بند ہیں لیکن تحریک انصاف کے احتجاجی قافلے تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔
سب سے پہلے اس تصادم و احتجاج اور سرکاری رکاوٹوں سے ہونے والے نقصان کی بات کریں تو اس کاازالہ کسی حکومت نے نہیں کرنا نہ احتجاجی جماعت نے اس کی ذمے داری لینی ہے بلکہ جن کا نقصان ہوا ہے، انھوں نے اسے خود بھگتنا ہے۔ بالکل صحیح کہا جاتا ہے کہ حکمرانوںکے کان اور آنکھیں نہیں ہوتے، وہ صرف وہی سنتے اور دیکھتے ہیں جو انھیں سنایا اور دکھایا جاتا ہے جب کہ اقتدار کے کھیل کا دوسرا کھلاڑی بھی صرف اپنا ہدف دیکھتا ہے، اسے بھی کسی کے نقصان سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور ہمارے آج کے اقتدار پرست تو اس کے بہت زیادہ عادی بھی ہو چکے ہیں کہ انھوں نے اپنی بصری اور بشری صلاحیتوں کو کہیں بہت دور سلا دیا ہے اور صرف اپنے اپنے مشیروں کی صلاحیتوں پر ہی تکیہ کیے ہوئے ہیں۔
حکومت کے نادان مشیروں نے پہلے توان سے ملک بند کرادیا ہے حالانکہ وہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ احتجاجی قافلوں کے راستوں میں رکاوٹیں، ان کے اہداف میں رخنہ نہیں ڈال سکتیں اور ایسی احتجاجی تحریکوں کو ہم کئی بار بھگت چکے ہیں، اسی طرح پاکستان کے دارلحکومت پر دھاوا بولنے والوں نے بھی عوام کا خیال نہیں کیا کہ ان کی یلغار کتنے لوگوں کے روزگار کو بند کرنے کا سبب بن جائے گی لیکن بقول میر دردؔ بیمار ہوئے جس کے سبب، ؔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
آج کی جدید اور تیز رفتار زندگی میں اب کوئی خبر یا عمل پوشیدہ رکھنا انتہائی مشکل عمل ہے ۔ پاکستانی قوم اور اس کی ساری سیاسی قیادت اس وقت ایک بحران سے گزر رہی ہے ۔ ملک کے اندر شدید ذہنی انتشار کی کیفیت ہے تو باہر سے آئی ایم ایف ہمارے سر پر پہنچ چکا ہے۔ ہمارا کوئی بھی عمل اس کی اجازت مرحمت ہونے کے تابع ہے۔
بات بربادیوں کے مشوروں سے آگے نکل کر بربادیوں کے عمل تک پہنچ گئی ہے اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جوصاحبان اقتدار ہیں اور جو طالبان اقتدار ہیں، ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہیں اور وہ ان بندشوں سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کرا پا رہے ہیںجب حکمران طبقے کے ہاتھ باندھ دیے جائیں تو پھر قوم کے مسائل حل ہونے کے بجائے نئے مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ہم ان مسائل سے بوجہ دانستہ پہلوتی کر رہے ہیں جب کہ جو حزب اختلاف ہے، وہ اپنے مفاد کے سوا کسی کی پروا نہیں کرتے ، پاکستان دیوالیہ ہوجائے، ان کی بلا سے۔
تحریک انصاف کی تازہ یلغار کا معاملہ ہو یا اسمبلیوں سے آئینی ترامیم پاس کرنا ہمارے سیاستدان اپنے اپنے مینڈیٹ کی توہین بھی خود ہی کرتے ہیں۔ جس کا شاخسانہ آج کے ملک کے حالات ہیں جو قوم بھگت رہی ہے جن مسائل کا حل ہمارے منتخب نمایندوں کو پارلیمان میں بیٹھ کر کرنا چاہیے، ان مسائل کا حل سڑکوں پر احتجاجی تحریکیوں سے نکالنے کی مسلسل کوشش جاتی ہے ۔
اس کی قصور وار کوئی ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ تمام پارٹیاں ہیں جو اپنے مفادات کے لیے ملکی مفادات کو پس پشت ڈال کر عوام کی تباہی کا سامان تیار کرتی ہیں ۔ ہمارا ملک تو ہر وقت نازک دور سے ہی گزر رہا ہوتا ہے لیکن جس قدر نازک دور آج کا ہے اس سے پہلے اس ملک اور قوم پر یہ نازک دور شاید نہیں آیا اور اس نازک مرحلے کا حل کسی دھونس دھاندلی، ہٹ دھرمی یا طاقت کے استعمال کے بجائے گفت و شنید سے ہی ممکن ہے اور یہ گفت و شنید تب ہی ممکن ہو پائے گی جب ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا، ایک دوسرے کی بات کو سنا جائے گا کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی سے ہی حالات بدلیں گے لیکن اگر آپ چاہئیں گے کہ بزور طاقت مسائل کا حل تلاش کیا جائے تو جمہوریت میں بزور طاقت مسائل حل نہیں ہوتے۔ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ حکومت میں ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان دونوں جماعتوں کی اپوزیشن اور ملک کی بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف سے معاملات طے نہ پا سکیں، بانی پی ٹی آئی کو بھی ادراک کرنا ہوگا کہ ہٹ دھرمی سے مسائل کا حل نہیں نکلے گا۔ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ طاقت سے مسئلہ حل نہیں ہوگا دلیل اور منطق کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ کا آغاز کریں۔
یہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی ذمے داری ہے کہ وہ مقتدرہ کو بھی قائل کریں کہ اگر ملک کو صحیح ڈگر پرڈالنا ہے سیاسی اور معاشی استحکام لانا ہے ،بیرونی سرمایہ کاری لانی ہے تو لامحالہ سیاسی ڈائیلاگ کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے پاس ترقی کے لیے ذرایع ، انسانی وسائل اور صلاحیتیں موجود ہیں صرف انھیں کام میں لانے کی ضرورت ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو پائے گا کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ ملک کے اسٹیک ہولڈرز اپنی اناؤں سے نکل کر اس ملک اور قوم پر رحم کریں ۔ آئے روز کے یہ احتجاج بگاڑ کو بڑھا رہے ہیں اور ملک کوانتشار ی سیاست میں دھکیل دیا گیا ہے ۔
آج جو بھی سیاسی جماعت بشمول تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ اس کے بغیر ملک نہیں چل سکتا یہ احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات ہے۔ اس ملک کی اکائیوں کی تمام جماعتیں نمایندگی کرتی ہیں لہٰذاسیاسی تمام جماعتوں کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ مل بیٹھیں اور ملک اور قوم کے مفاد میں مسائل کا حل نکالیں کیونکہ افہام و تفہیم ہی بہترین راستہ ہے اور اسی سے مسائل کا حل نکلتا ہے کسی دھونس دھاندلی سے نہیں۔ ملک کے عوام اپنے رہنماؤں سے رحم کی اپیل کے درخواست گزار ہیں۔