اسلام آباد:
چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی اسلام آباد نے کہا ہے کہ احتجاج کی آڑ میں یہاں دہشت گردی نہیں کرنے دیں گے، پالیسی بنارہے ہیں اب باہر کے لوگوں کو بغیر سیکیورٹی کلیئرنس یہاں رہنے نہیں دیں گے۔
یہ بات چیف کمشنر اسلام آباد محمد علی رندھاوا اور آئی جی اسلام آباد علی ناصر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔
چیف کمشنر نے کہا کہ تمام قانون نافذ کرنے اداروں نے قانون کی عمل داری میں اپنا کردار ادا کیا، اسلام آنے اور جانے والے تمام راستے کھلے ہیں اور تمام سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں، کسی کو ریاست کی عمل داری چیلنج کرنے نہیں دے گے۔
کنٹینر ہٹادیے ہیں لیکن اہم مقامات پر پٹرولنگ جاری رہے گی اور سرچنگ و چیکنگ کا عمل جاری رہے گا، اسلام آباد سے باہر کے لوگوں کو سیکیورٹی کلیئرنس کے بغیر یہاں رہنے نہیں دیں گے، مظاہرین نے صحافیوں کو بھی مارا اس لیے میڈیا کو وہاں سے ہٹایا، پمپ اس لیے بند کیے کیوں کہ اطلاعات تھیں کہ کہیں وہ پمپس کو آگ نہ لگادیں۔
آئی جی اسلام آباد علی ناصر نے کہا کہ پرامن احتجاج آپ کا حق ہے مگر جب مظاہرین جب اسلحہ استعمال کریں اور پولیس پر حملے کریں اور املاک کو نقصان پہنچائیں اور یہاں کے شہری گھروں میں محصور ہوجائیں تو یہ احتجاج نہیں دہشت گردی ہے جس کے خلاف کارروائی ہمارا حق ہے۔
احتجاج کے نام پر یا اس کی آڑ میں کسی بھی قسم کی کارروائی برداشت نہیں کی جائے گی، احتجاج کا سب کو حق ہے مگر اس احتجاج میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملے ہوئے انہیں شہید کیا گیا اور زخمی کیا گیا، طرح طرح کی گنیں استعمال ہوئیں، سیدھی فائرنگ ہوئی، یہ ساری دہشت گردی سرکاری سطح پر ایک صوبے کے وسائل کے ذریعے ہورہی ہے۔
انہوں ںے کہا کہ آنسو گیس شیل بنائے گئے، سرکاری طور پر بڑے پنکھے بنائے جارہے ہیں تاکہ دھواں سیکیورٹی اہل کاروں پر رہے، مظاہری نے ماسک پہنے، ہر طرح کا اسلحہ لے کر آئے۔
آئی جی علی ناصر رضوی نے کہا کہ سیون پوائنٹ ٹو سکس رائفل سے لے کر ہر قسم کا اسلحہ مظاہرین نے پولیس پر استعمال کیا، 954 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 610 مظاہرین کو کل گرفتار کیا گیا، مجموعی طور پر 39 ہتھیار مظاہرین سے برآمد ہوئے، 71 افسران اور پولیس اہل کار زخمی ہوئے ان میں سے 52 کل زخمی ہوئے، 27 پولیس اور رینجرز اہل کاروں کو مظاہرین نے فائرنگ کرکے زخمی کیا۔
انہوں ںے کہا کہ حکومت کا مالی نقصان اربوں روپے میں ہے، کیسے ممکن ہے کوئی احتجاج کرنے والا کوئی ایک بھی رکاوٹ عبور کرلے مگر اسلحہ استعمال نہ کرے، مظاہرین نے 164 کیمرے توڑے تاکہ فوٹیجز نہ بن سکیں، ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے سات مقدمات درج کرلئے ہیں ان مقدمات میں جنہوں نے یہ دہشت گردی کروائی اور جنہوں نے دہشت گردی کی سب شامل ہیں۔
آئی جی بتایا کہ 38 ملین روپے کے مظاہرین نے سیف سٹی کیمرے توڑے، کل رات آپریشن میں مظاہرین نے گاڑیاں توڑیں، ہم ان گھروں میں بھی جارہے ہیں جہاں یہ گاڑیاں کھڑی کی گئیں، تین ہزار گاڑیوں کی فوٹیجز موجود ہیں جن سے مظاہرین نکلے اور جن کے پاس اسلحہ تھا، پی ٹی آئی مظاہرین کی آڑ میں حملے کرنے والوں کی دو سو گاڑیاں پکڑی ہیں، اس احتجاج میں غیر ملکی بھی شامل تھے کل کے ایک دن میں انیس افغان شہری گرفتار کیے گئے، غیر ملکیوں کو ملا کر احتجاج دہشت گردی ہے، اسلام آباد میں یہ نہیں ہوگا کہ یہاں رہیں بھی اور دہشت گردی بھی کریں، سرچ آپریشنز جاری رہیں گے، اب بہت ہوگیا ہم واضح بات کررہے ہیں کسی صورت دہشت گردی نہیں کرنے دیں گے۔
اس موقع پر آئی جی نے پی ٹی آئی مظاہرین کی اسلحہ سے لیس فوٹیجز بھی دکھائیں، پی ٹی آئی مظاہرین سے برآمد کلاشنکوف سے لے کر جدید اسلحہ بھی پریس کانفرنس میں میڈیا کو دکھایا گیا۔ آئی جی نے کہا کہ 26 نومبر کو پولیس اور رینجرز نے فائٹ کی ان سے لڑںے والے افغان شہری تھے وہ بہت تربیت یافتہ تھے، کوئی سیاسی جماعت کسی غیر ملکی کو ٹرینڈ کرکے لائے تو وہ احتجاج نہیں یقیناً دہشت گردی ہے۔
چیف کمشنر نے کہا کہ افغانیوں کی احتجاج میں شرکت کے معاملے پر وزارت داخلہ کام کررہی ہے، اسلام آباد میں ہم افغان شہریوں کی دوبارہ سے تصدیق کا عمل شروعُ کررہے ہیں، افغان شہریوں کا ڈیٹا بینک بنارہے ہیں، ہمارے پاس جن افغان شہریوں کی تصاویر آئی ہیں انہیں ہر صورت گرفتار کریں گے۔