فلسطین کے علاقے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی میں جاں بحق افراد کی تعداد 44ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، جب کہ اسرائیل اور لبنان عارضی جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں ۔ دوسری جانب نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یو آو گیلنٹ کو عالمی فوجداری عدالت کے وارنٹ گرفتاری کے بعد مشکلات کا سامنا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی جنگیں خصوصاً غزہ اور لبنان میں جاری جنگیں اس وقت بین الاقوامی طور پر مباحث کا حصہ ہیں۔ غزہ میں رہنے والے فلسطینی چاہتے ہیں کہ امریکی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو مزید جارحیت سے فوری طور پر روکیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جاری بحرانوں کو حل کریں گے، انتخابی مہم کے دوران کیے گئے، ان کے وعدے کی وجہ سے ہی عرب امریکن ووٹرز نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے لیے کئی ممالک کے دروازے بند ہوگئے، دورے کی صورت میں گرفتاری کا امکان ہے۔ امریکا نے وارنٹ گرفتاری کی مخالفت کی ہے اور نو منتخب صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی سینیٹر لنزی گراہم نے دھمکی دی ہے کہ اگر نیتن یاہو کو گرفتار کیا تو برطانیہ کی معیشت تباہ کر دیں گے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نسل کشی کے مرتکب قرار پانے والے اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت مفرور ملزم کی ہوگئی ہے۔ ترکیہ، اسپین، نیدر لینڈ، آئرلینڈ، اٹلی، کینیڈا اور برطانیہ نے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمے نے واضح کیا ہے کہ برطانیہ معاہدہ روم کے تحت عالمی قانون کے تحت اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کا پابند ہے اور اگر اسرائیلی وزیراعظم نے برطانیہ کا دورہ کیا تو قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا۔ آئرلینڈ کے وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم آئے تو انھیں قانون کے مطابق گرفتار کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔ کینیڈا کے وزیراعظم نے بھی کہا ہے کہ عالمی قانون کی پاسداری کریں گے۔ اقوام متحدہ نے بھی رکن ممالک سے عالمی قوانین کی پاسداری کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکا نے سلامتی کونسل میں غزہ کی جنگ بندی قرارداد کو ویٹو کر کے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ امریکا غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا براہ راست ذمے دار ہے۔ غزہ میں اب تک لگ بھگ 70 فیصد فلسطینی بچوں اور عورتوں سمیت 44000 ہزار فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج قتل کرچکی ہے جب کہ 104092 سے زائد زخمی کرچکی ہے۔
پوری غزہ کی پٹی اسرائیلی فوج کی مسلسل بمباری نے ملبے کا ڈھیر بنا دی ہے جب کہ 23 لاکھ کے قریب فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کی غزہ میں جنگ ایک مجرمانہ جارحیت ہے، جس میں بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے، عورتوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ شہری زندگی کو غزہ میں تباہ کردیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ کے تباہ کن انسانی اثرات نے فلسطینی انکلیو میں ترقی کو سات دہائیوں تک روک دیا ہے اور یہ صرف غزہ میں ہی نہیں بلکہ کئی نسلوں تک فلسطینیوں کی ترقی کو خطرے میں ڈالے گا۔
غزہ میں فلسطین کے عسکریت پسند گروپ حماس اور اسرائیل کی فوج میں جاری جنگ کو روکنے کے لیے عالمی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہو سکیں۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنگجوؤں کے حملے میں اسرائیل میں ایک ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے جب کہ 250 کے لگ بھگ افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لایا گیا تھا۔ حماس کے خلاف شروع کی گئی اسرائیلی جنگ میں غزہ کے ایک بڑے علاقے کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں کی 22 لاکھ آبادی اس وقت بدترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
اسرائیلی افواج نے بمباری کے بعد غزہ میں زمینی کارروائی بھی کی اور اس دوران ہزاروں کی تعداد میں بچوں اور خواتین سمیت عام شہری مارے گئے۔ اس دوران متعدد یرغمالی بھی ہلاک ہوئے جب کہ عالمی رہنماؤں نے حماس پر زور دیا کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ شہری آبادی پر حملے بند کرے۔
حماس کی حمایت میں لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ نے اسرائیلی سرحدوں پر حملے کیے، جس کے بعد بیروت پر اسرائیل کے طیاروں نے بمباری کی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اسرائیلی افواج نے شام کے دارالحکومت دمشق پر بھی بمباری کی جس میں شہری ہلاکتیں ہوئیں۔ غزہ جنگ کے دوران ایران اور اسرائیل نے بھی ایک دوسرے پر میزائل داغے ہیں۔
اب ذرا اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں ہونے والی دیگر تباہی کا جائزہ لیتے ہیں، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور فلسطینی حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی تقریباً تمام ہی آبادی بے گھر ہوچکی ہے، آدھے سے زیادہ گھر تباہ ہوگئے یا رہنے کے قابل نہیں رہے، 80 فیصد تجارتی و کاروباری جگہیں، 85فیصد اسکول، 65 فیصد سڑکیں اور 65فیصد زرعی زمین تباہ ہوچکی ہے، غزہ کے 36اسپتال کھنڈر بنا دیے گئے ہیں، صرف 17اسپتال ایسے ہیں جن میں علاج معالجے کی جزوی سہولتیں دستیاب ہیں، ڈبلیو ایچ او کے مطابق اسپتالوں اور صحت عامہ کی سہولت فراہم کرنے والی دیگر جگہوں پر اسرائیل نے 516حملے کیے، ان حملوں میں ایک ہزار کے قریب طبی عملہ ہلاک ہوا ہے، پورے غزہ کے مریضوں اور اسرائیلی حملوں میں زخمی افراد کے لیے اسپتالوں کے بچے کچھے ڈھانچے میں صرف 1500بیڈز دستیاب ہیں، اس میں فیلڈ اسپتالوں میں موجود 650بیڈز بھی شامل ہیں۔
20ہزار 241بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، ان میں شدید قلت والے بچوں کی تعداد 4ہزار 437ہے، غذا نہ ملنے کی وجہ سے مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے قاصر ہیں۔ اسرائیل نے اپنے ہی زیر قبضہ مغربی کنارے کو بھی جنگ کی آگ میں گھسیٹ لیا ہے، فلسطین کے اس حصے پر اسرائیل 1967سے قابض ہے، غزہ پر ہونے والے ہر حملے کے بعد بھی اسرائیل نے یہی کہا کہ حملے میں حماس کے رہنما یا کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا اور عام شہریوں کی ہلاکت کو کولیٹرل ڈیمیج یعنی بدقسمتی سے حملوں کی زد میں آنے والا کہا گیا ہے۔
حالاں کہ ایک نہیں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر رہائشی عمارتوں، نہتے فلسطینیوں کے قافلوں کو نشانہ بنایا اور اسپتالوں پر بمباری کی۔غزہ کو تخت و تاراج کرنے کے بعد اسرائیل نے لبنان کا رخ کرلیا ، حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کو سینئر قیادت سمیت شہید کردیا گیا، شام پر بھی اسرائیل حملہ کرچکا ہے۔ امریکا اور برطانیہ بھی اسرائیلی مدد کو سامنے آچکے ہیں، انھوں نے یمن پر محدود حملہ کیا، لڑاکا طیاروں اور جنگی جہازوں نے دارالحکومت صنعا سمیت کئی علاقوں پر بم برسا دیے۔ کیا ان تمام حملوں کا پس منظر مبینہ دہشت گردوں کی سرکوبی ہے یا پھر فلسطینیوں کا قتل عام ؟
غزہ سمیت کئی ملکوں پر اسرائیلی حملوں نے کچھ اور کیا ہو یا نہ کیا ہو، ایک بات تو ثابت کردی کہ جیسے چنگیز خان، ہلاکو اور ہٹلر کا نام نفرت سے لیا، اب ان میں اسرائیل کا نام بھی شامل ہوگیا ہے، وہ یہودی جو کبھی مظلوم بن کر پوری دنیا سے ہمدردی سمیٹتے تھے، آج نفرت جمع کر رہے ہیں، دوسری طرف غزہ کے لوگ مظلومیت اور صبر و برداشت کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ غزہ کے بے کس عوام نے مظلومیت کا نقاب اوڑھنے والے ظالم کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آشکار کردیا۔ اب ظالم کا ہاتھ روکنا ہے یا مظلوم کا ساتھ دینا ہے۔
گھوڑا بھی حاضر اور میدان بھی۔ اہم سوال یہ ہے کہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکا کی خارجہ پالیسی تبدیل ہونے جا رہی ہے؟ مشرق وسطیٰ میں غیر معمولی تناؤ اور غیر یقینی صورت حال کا دور دورہ ہے، اس لیے خطے کے حکام ان علامات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ نئی ریپلبکن انتظامیہ اپنے اثرورسوخ اور طاقت کو کس طرح استعمال میں لا سکتی ہے۔
منتخب صدر ٹرمپ جنگوں کے خاتمے کے حوالے سے جو کہہ چکے ہیں، نہیں لگتا کہ وہ ایک دن میں جنگ ختم کر سکتے ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازع کے خاتمے کے لیے دو ریاستی حل کو ریپبلکن پارٹی کے اندر بہت کم حمایت حاصل ہے، جس سے یہ امکان بہت کم ہو جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس معاملے کے حوالے سے اسرائیل پر دباؤ ڈالے گی۔ پچھلے 15 برس کے دوران ریپبلکن پارٹی نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بہت کم حمایت ظاہر کی، اس لیے پارٹی کے اندر کوئی ایسا دھڑا نہیں جو اس کے لیے دباؤ ڈال سکے۔
ریپبلکن پارٹی کے اندر ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو اسرائیل کے ایسے سخت گیر سیاست دانوں کی حمایت کرتے ہیں جو فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کر چکے ہیں۔موجودہ سیاسی حالات میں جب سعودی عرب اور دنیا، اسرائیل کے غزہ کے حملے اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکت پر سخت اور ایک جیسا موقف رکھتی ہے اور فلسطینی ریاست کا قیام خطے کے حکام کے لیے ترجیح بن گیا ہے۔
پہلے غزہ میں جنگ بندی اور پھر خطے میں امن کے لیے دو ریاستی نکل پائے گا اور کیا امریکی صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ امن کی بحالی میں کامیاب ہوجائیں گے، اس سوال کے جواب کا انتظار پوری دنیا کو ہے ۔