تحریک انصاف کی فائنل کال ناکام ہو گئی۔ میں یہ بات اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ جب اہداف حاصل نہیں ہو سکے تو فائنل کال ناکام ہو گئی۔ یہ درست ہے کہ فائنل کال کے دوران ابتدائی طور پر تحریک انصاف کو کافی کامیابی حاصل ہوئی ۔
وہ حکومت کی تمام تر مشینری کو شکست دے کر اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوئے جو کوئی چھوٹی کامیابی نہیں تھی۔ اٹک کی رکاوٹوں کو عبور کرنا کوئی چھوٹی کامیابی نہیں تھی۔ لیکن یہ کوئی حتمی کامیابی نہیں تھی۔ تحریک انصاف بڑی تعداد میں اپنے حامیوں کو لے کر اسلام آباد میں داخل ہو گئی بلکہ وہ بلیو ایریا میں داخل ہو گئے۔ یہ بھی کوئی چھوٹی کامیابی نہیں تھی۔ لیکن یہ بھی حتمی کامیابی نہیں تھی۔ سیاست کی یہی مشکل ہے یہاں کامیابی کا شکست میں بدلنا اور شکست کا کامیابی میں بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔ فائنل کال کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب ابتدائی کامیابیاں مل گئی تھیں تو پھر ناکامی سے کیسے بچا جا سکتا تھا۔ کیا تحریک انصاف کو حکومت کی جانب سے سنگجانی میں دھرنے اور جلسہ کی پیشکش قبول کر لینی چاہیے تھی۔ آج اگر دیکھا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ وہ پیشکش قبول کر لینی چاہیے تھی۔
اس میں اس قدر ناکامی کا چانس نہیں تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں جہاں اسلام آباد پہنچنا ایک کامیابی تھی وہاں اسلام آباد پہنچ کر تحریک انصاف سیاسی طور پر ایک بند گلی میں بھی پہنچ گئی تھی۔ وہ سنگجانی میں بیٹھ جاتے تو بھی ہار جاتے۔ وہ سنگجانی میں جلسہ کر کے واپس چلے جاتے تب بھی ہار جاتے۔ وہ آگے بڑھتے تو بھی ہار جاتے۔ اس لیے مجھے اسلام آباد پہنچنے کے بعد کامیابی کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔
اس وقت تو حکومت نے ایک آپریشن کے ذریعے اس فائنل کال کو ناکام کیا ہے۔ فائنل کال کو وفاقی حکومت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ناکام کر دیا ہے۔لوگ منتشر ہو گئے ہیں۔ کریک ڈاؤن کامیاب ہو گیا۔ کریک ڈاؤن کے نتیجے میں مظاہرین بھی منتشر ہو گئے۔قیادت بھی فرار ہو گئی۔ اس طرح حکومت نے فائنل کال کو ناکام کر دیا۔ کیا تحریک انصاف کو اندازہ نہیں تھا کہ کریک ڈاؤن ہوگا۔
کیا تحریک انصاف کے پاس کریک ڈاؤن سے نبٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ کیا تحریک انصاف کا خیال تھا کہ حکومت کبھی کریک ڈاؤن نہیں کرے گی اور انھیں اسی طرح آگے بڑھنے دیا جاتا رہے گا۔ کیا کریک ڈاؤن تحریک انصاف کے لیے سرپرائز تھا۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی فائنل کال میں فائنل راؤنڈ کی کوئی تیاری نہیں تھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح اٹک پر مظاہرین کے جذبے جوان تھے، وہ تازہ دم تھے، اسلام آباد میں ایسا نہیں تھا۔ مظاہرین کئی گھنٹوں کے مسلسل سفر کے بعد تھک چکے تھے۔
اٹک سے لے کر اسلام آباد رکاوٹیں عبور کرتے تھک گئے۔ پھر کے پی میں تو کھانا پینا مل رہا تھا لیکن اسلام آباد میں فوڈ سپلائی جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ ایسی اطلاعات آئی ہیں کہ لوگ رات کو بھوک سے تنگ تھے لیکن تحریک انصاف کے پاس ان کے لیے کھانا نہیں تھا۔ اسلام آباد میں ہوٹل اور ریسٹورنٹ بند کروا دیے گئے تھے۔ اس لیے مظاہرین کو کھانا نہیں مل سکا۔ لوگ تھک گئے اور بھوکے تھے۔ اس کا حکومت نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اسی لیے فائنل کریک ڈاؤن کے خلاف اس طرح مزاحمت نہیں ہو سکی جیسی تیاری تھی۔
فائنل کال کی ناکامی نے پھر ثابت کیا ہے کہ تحریک انصاف نے ماضی میں جتنے بھی دھرنے دیے ان میں سہولت کاری موجود تھے۔ ماضی کے تمام کامیاب احتجاج سہولت کاری کی وجہ سے تھے۔ آج بھی اگر کے پی کی حکومت نہ ہو تو اتنا احتجاج بھی ممکن نہیں۔اس احتجاج میں پنجاب، سندھ، بلوچستان سب خاموش رہے۔ وہاں سے کوئی شریک نہیں ہوا۔ کے پی کی حکومت کی وجہ سے اتنا احتجاج ممکن ہوا۔
آگے سہولت کاری نہیں تھی اس لیے ناکام ہو گئے۔ مجھے لگتا ہے کہ فائنل کال نے تحریک انصاف کو کافی سبق دیا ہے۔ انھیں اندازہ ہوگیا ہے کہ ان کے کامیاب ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ کیا دوبارہ کال دی جائے گی۔ مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ تحریک انصاف کو اس ناکامی سے نکلنے میں وقت لگے گا۔ کے پی کا کارکن بھی ناراض ہو گیا ہے۔ اب شاید لوگ بھی ساتھ نہ آئیں۔