اخباری اطلاعات کے مطابق اٹھارہ ماہ میں حکومت نے پی ٹی آئی کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے 207 ارب روپے خرچ کیے، 80 کروڑ روپے کنٹینروں کے مالکان کوکرایہ ادا کیا گیا اور 370 سیف سٹی کیمروں کو نقصان پہنچا جب کہ سرکاری اہلکاروں کا جانی اور بے بس شہریوں کا نقصان الگ ہے۔
سیاسی پارٹیوں کے حکومت کے خلاف احتجاجوں اور دھرنوں سے عوام کا جو مالی نقصان ہوتا ہے وہ کہیں زیادہ ہے جس کا تخمینہ بھی اربوں روپوں میں ہی ہوگا اور اسی وجہ سے جو ہزاروں افراد بے روزگار ہوتے ہیں ان کی تو کسی کو فکر ہے ہی نہیں نہ انھیں کوئی مالی امداد حکومت کی طرف سے ملتی ہے کہ بے روزگار رہ کر وہاں کھائیں گے کہاں سے اور بے روزگاری مزید بڑھے گی۔
حکومت احتجاج اور دھرنے والوں سے نمٹنے کے لیے جن سرکاری اہلکاروں کا تقررکرتی ہے انھیں بھوکا تو نہیں رکھا جاسکتا، اس لیے انھیں مقررہ وقت اور ڈیوٹی مقامات پر سرکاری طور پر کھانا فراہم کر دیا جاتا ہے مگر عوام کے جو حقیقی متاثرین ہوتے ہیں ان کی فکر کسی کو نہیں ہوتی خواہ وہ بھوکے مریں، یہ حکومت کا نہیں عوام کا اپنا مسئلہ ہے کیونکہ وہ حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ احتجاج کرنے والوں کی وجہ سے پریشان و بے روزگار ہوتے ہیں۔
احتجاج و دھرنے کرانے والی سیاسی پارٹیاں بھی وہاں موجود اپنے کارکنوں کی خوراک، رہائش و دیگر ضروریات کا مکمل خیال رکھتی ہیں اور انھیں احتجاج و دھرنے کے مقام پر تمام ضروری اشیا فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ اٹھ کر نہ جائیں اور صرف رفع حاجت کے لیے انھیں اٹھنا پڑے۔ ایسے مقام پر ریڑھیاں اور پتھارے لگانے والوں کی بھی بہتات ہو جاتی ہے اور ان کا کاروبار چمک اٹھتا ہے۔
سیاسی پارٹیاں اپنے غریب کارکنوں کی مالی مدد بھی کرتی ہیں اور وہاں شرکت کے لیے آنے والوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی کیا جاتا ہے جس پر بڑی کثیر رقم خرچ ہوتی ہے جو پارٹی کے دولت مند اور ہمدرد فراہم کرتے ہیں اور امیر پارٹی رہنما بھی اس مقصد کے لیے فنڈز فراہم کرتے ہیں جو یہ رقم پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بمع سود وصول کر لیتے ہیں۔
احتجاج و دھرنے کامیاب تو نہیں ہوتے اکثر ناکام ہی رہتے ہیں مگر پارٹیوں کا نام ہو جاتا ہے، ان کے رہنماؤں کو میڈیا کی طرف سے کوریج ملتی ہے اور مذکورہ مقامات پر سیاسی گہما گہمی بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان میں اب تک احتجاج و ہڑتالوں سے کوئی بھی حکومت اقتدار سے محروم نہیں ہوئی اور وہ پورے سرکاری وسائل سے احتجاج کرنے والوں سے تشدد، آنسو گیس، گرفتاریوں سے احتجاج ختم کرانے میں کامیاب ہو ہی جاتی ہے۔
جنرل ایوب نے ملک بھر میں احتجاج و ہڑتالوں کے بعد اقتدار احتجاج کرنے والوں کو نہیں، جنرل یحییٰ کے حوالے کیا تھا جنھوں نے ملک دولخت کرایا اور مجبوری میں ہی اقتدار چھوڑا تھا مگر الیکشن میں عوام کا فیصلہ قبول نہیں کیا تھا اور ملک کے دو ٹکڑے کرا دیے تھے۔ وزیراعظم بھٹو نے بھی اپنے خلاف ملک گیر احتجاج، ہڑتالوں، ہلاکتوں اور ملکی زبردست نقصانات کے باوجود ازخود اقتدار نہیں چھوڑا تھا اور جنرل ضیا الحق کو ملک میں مارشل لا لگانا پڑا تھا ۔
حکومت وقت اقتدار کے نشے میں کبھی احتجاج اور ہڑتالوں سے مرعوب نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے ملک میں ہونے والے مالی نقصانات اور سرکاری و عوامی جانی نقصان کی فکر ہوتی ہے اور وہ سرکاری اہلکاروں کے جانی نقصانات کی تلافی قومی خزانے سے مالی امداد دے کر کرتی ہے اور متاثرہ سرکاری املاک کی تعمیر و مرمت سرکاری فنڈز سے آسانی سے کرا لیتی ہے اور عوام کا جو نقصان ہوتا ہے حکومت کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ حکومت نے ملک بند کر کے ہمارا احتجاج کامیاب بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ غلط بھی نہیں کیونکہ حکومت نے اپنے تمام ہی وسائل احتجاج روکنے میں لگا دیے۔ پی ٹی آئی مطمئن ہے کہ اس کا احتجاج کامیاب رہا اور حکومت کے اوسان خطا کردیے۔ عوام میں حکومت کے خلاف نفرت مزید بڑھا دی مگر حکومت ہمیشہ کہتی ہے کہ ہم نے احتجاج کچل دیا۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ حکومت بدنام اور بے نقاب ہوئی ہمارا احتجاج کا مقصد پورا ہوگیا۔ حکومت دباؤ میں رہی جو جلد چلی جائے گی۔
اعداد و شمار کے مطابق 6 ماہ کے دھرنوں اور احتجاج سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ایک ارب بیس کروڑ روپے کے لگ بھگ خرچہ کرنا پڑا۔ اس دوران موٹروے پانچ مقامات سے بند کرنا پڑی۔ میٹرو بس سروس بند رہی۔ احتجاج کے خوف سے سرکاری دفاتر، مارکیٹیں اور دکانیں بند رہیں۔
ٹرانسپورٹ معطل رہی جس سے پریشانی صرف عوام کے حصے میں آئی۔ ایک وقت تھا جب کراچی میں ایم کیو ایم احتجاج کرتی تھی۔ عوام خوف سے اپنا کاروبار مکمل بند رکھتے تھے۔ گلی کوچوں میں بھی چھوٹی دکانیں، ہوٹل، پھل اور سبزیوں کی دکانیں اور میڈیکل اسٹور تک بند ہوتے تھے اور کراچی کے شہری نوٹ ہاتھوں میں پکڑے کھانے پینے کی اشیا ڈھونڈتے پھرتے تھے۔
مسلم لیگ (ن) اور پی پی کی حکومت نے 18 ماہ میں پی ٹی آئی کے احتجاجوں کو روکنے پر دو ارب سترکروڑ خرچ کر دیے جو عوام کے خون پسینے کی کمائی تھی جو ٹیکسوں کی صورت میں عوام کا خون نچوڑ کر وصول کی گئی تھی۔
بانی پی ٹی آئی کے آئے دن کے احتجاج کی ضد اور حکومت کی احتجاج کچلنے کی پالیسی عوام کے تو کسی کام نہیں آئی۔ اتنی بڑی رقم اگر عوام کو ریلیف دینے، مہنگائی کم کرنے پر خرچ کی جاتی تو عوام کو درپیش مشکلات میں کافی حد تک کمی لائی جاسکتی تھی۔ دونوں ہی فریق اگر ملکی معاشی حالات اور عوام کی حالت زار کا خیال کر لیتے تو احتجاج کچلنے کی یہ رقم عوام پر خرچ ہو سکتی تھی۔