افغانستان سے متصل کرم ضلع غزہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جمعرات کو پارا چنار آنے والے قافلے پر حملے میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ متعدد گروہوں کے درمیان جھگڑوں میں مرنے والوں کی تعداد 100سے زائد ہوگئی۔ مسلح گروہ اپنے مخالف گروہوں کے گاؤں پر حملے کرتے رہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ املاک کو بھی نذرِ آتش کیا گیا۔
ضلعی انتظامیہ امن قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور اسلام آباد فتح کرنے میں لگے رہے اور وفاقی وزیر داخلہ ان کے حملے کو ناکام بنانے کی تدابیرکرتے رہے۔ وزیر اعلیٰ کے پاس ابھی وقت نہیں ہے کہ وہ پارا چنار کا دورہ کریں۔ اب بتایا جاتا ہے کہ وقتی طور پر متحارب گروہوں میں جنگ بندی ہوگئی ہے مگر اس علاقے کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی کہتے ہیں کہ اسلام آباد کی مداخلت سے ہی علاقے میں امن ممکن ہے۔
سیکیورٹی حکام کی غفلت یا نامعلوم وجوہات کی بناء پر پارا چنار جانے والے قافلے پر حملہ ہوا تھا۔ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ قافلے میں پشاور سے پارا چنار آنے اور پاراچنار سے جانے والی 100گاڑیاں بھی شامل ہوگئی تھیں مگر پولیس کے صرف 5 اہلکاروں کو اس قافلے کے تحفظ کا فریضہ سونپا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں پارا چنار پریس کلب کے ایک عہدیدار بھی شامل ہیں۔
خیبر پختون خوا کی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ قافلے میں 200 کے قریب گاڑیاں تھیں جن پر حملہ ہوا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ حملے میں 33 ہلاک اور 19شدید زخمی ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق قافلہ پر تین طرف سے حملہ ہوا اور حملہ کا پہلا شکار پولیس اہلکار تھے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس حملے میں جدید بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا۔ تمام دستیاب رپورٹوں کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام حملہ آور اپنے اہداف کی تکمیل کے بعد اطمینان سے اپنی کمین گاہوں میں چلے گئے۔
گزشتہ کئی ماہ سے کرم ضلع میں جو صورتحال ہے اس کی بناء پر اتنے زیادہ افراد کی ہلاکت کے خاصے امکانات تھے، مگر اتنے لوگوں کی ہلاکت خیبر پختون خوا کی حکومت اور وفاقی حکومت کی ناکامی کا واضح اعلان ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا گیا کہ جب سے یہ تنازع شروع ہوا ہے 1500کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
پارا چنار کی اس نازک صورتحال کو سمجھنے کے لیے پارا چنار اور اس کے ضلع کا محل وقوع جاننا ضروری ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم تین طرف سے افغانستان اور ایک طرف سے پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ پارا چنار ضلع کرم کا مرکزی شہر ہے اور اس کی ایک سڑک ضلع پشاور سے منسلک ہے۔ کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل سے قریب ہے۔ ضلع کرم کی سرحد کے ساتھ افغانستان کے خوست، پکتیا، لوگر اور ننگر ہار جیسے صوبے ہیں جو انتہا پسند مذہبی تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
پارا چنار کی جو سڑک پشاور سے ملاتی وہ لوئرکرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے۔ اس علاقے میں پارا چنار کے لوگوں کے مخالف عقیدہ کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے میں کام کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ کچھ سال پہلے اس علاقے میں دو گروہوں میں ایک قطع اراضی کی ملکیت پر اختلاف ہوا تھا اور اس نے بڑھتے بڑھتے فرقہ وارانہ شکل اختیار کرلی۔ گزشتہ اکتوبر میں پارا چنار پشاور شاہراہ کی سڑک پر جانے والی گاڑیوں پر حملوں میں 15سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
مسلح گروہوں نے اس سڑک کو بند کر دیا تھا جس کی بناء پر پارا چنار میں ضروری اشیاء ناپید ہوگئی تھیں اور سرکاری اسپتال میں ادویات اور آکسیجن سیلنڈر کی شدید کمی پیدا ہوگئی تھی۔ پارا چنار کے لوگوں نے اس صورتحال سے تنگ آکر پشاور کی طرف مارچ شروع کیا تھا مگر حکومت کی یقین دہانی پر یہ مارچ ختم ہوا تھا اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کی نگرانی میں قافلوں کی آمدورفت شروع ہوئی تھی مگر اس کے باوجود اس جنونی گروہ نے اتنے سارے لوگوں کو ہلاک کردیا۔ کچھ ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ تنازع کی وجہ بننے والا پہاڑ اپنی زرخیزی کی وجہ سے پورے علاقے میں مشہور ہے۔
گزشتہ صدی کی 70ء کی دہائی تک یہ ایک پرسکون علاقہ تھا۔ سینئر صحافی خالد احمد جن کا گزشتہ دنوں لاہور میں انتقال ہوا، انھوں نے پاکستان میں فرقہ وارانہ صورتحال پر ایک کتاب "Sectarian War"میں لکھا تھا کہ جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افغان پروجیکٹ کا حصہ بنی تو حکمت عملی بنانے والے ماہرین نے حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ افغان مجاہدین پارا چنارکے راستے قبائلی علاقوں میں آسکتے ہیں مگر ان مجاہدین کی قبائلی علاقوں میں آمدورفت سے پارا چنار کی آبادی بھی ڈسٹرب ہونے کے خدشات تھے۔
بقول خالد احمد یہی وجہ تھی کہ پارا چنار میں پہلا فرقہ وارانہ فساد ہوا۔ پھر اس وقت سے اس علاقے میں جو تفرقہ پیدا ہوا تو برسرِ اقتدار حکومتوں نے اس پر توجہ نہ دی، ایران میں انقلاب کے بعد اس میں شدت آگئی۔ پارا چنار سے تعلق رکھنے والے کئی علماء ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہوئے۔ اس دوران برسر اقتدار حکومتوں نے اس علاقے میں پائیدار امن کے لیے بنیادی نوعیت کے اقدامات نہیں کیے۔ چند سال قبل زمین پاڑہ چمکنی، قبائل اور بائیش قبائل کے درمیان زمین کا تنازع ہوا۔ ان دونوں قبائل میں مخالف فرقوں کی اکثریت ہے۔
چند ماہ قبل ایک فرقے کے مسلح افراد نے متنازع زمینوں پر خیمے نصب کیے تھے جس کے بعد دوسری جانب سے بھی خیمے نصب کر کے مورچہ بندی کی گئی، پھر مسلح تصادم روزمرہ کا حصہ بن گیا۔ مقامی بااثر افراد نے دونوں قبائل میں جنگ بندی کی کوشش کی مگر یہ کوشش زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوئی، پھر خیبر پختون خوا کی حکومت نے علاقے کے منتخب اراکین کے ذریعے جرگہ بلایا۔ جرگے میں کچھ فیصلے بھی ہوئے مگر یہ تمام کوشش مصنوعی ثابت ہوئیں۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ زمین کے تنازع کے حل کے لیے لینڈ کمیشن قائم ہوا تھا جس کی رپورٹ آنا ابھی باقی ہے۔
خیبر پختون خوا کی حکومت کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں صورتحال کو خراب کرنے کی براہ راست ذمے داری تحریک انصاف کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ تحریک انصاف گزشتہ دو برسوں سے حالتِ جنگ میں ہے۔
تحریک انصاف کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ تحریک انصاف کے بانی کی طالبان سے عقیدت ہے، یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی تمام مزاحمتی تحریکوں میں طالبان اور طالبان کے نظریے سے ہمدردی رکھنے والوں کی اکثریت حصہ لیتی ہے اور یہ لوگ پارا چنار کے حالات کو بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں مگر تحریک انصاف کی حکومت ان عناصر کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے لیے تیار نہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پارا چنار کے ان حملوں میں افغانستان سے آنے والے جنگجو گروہ بھی شامل ہیں۔
پارا چنار میں برسوں سے حالات خراب ہیں مگر صوبائی حکومت اس صورتحال کو سنجیدہ کیوں نہیں لیتی؟ اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں طالبان جنگجوؤں کو قبائلی علاقہ میں آباد کیا گیا جو اس قتلِ عام میں ملوث ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ گورنر، وزیر اعلیٰ اور انسپکٹر جنرل پولیس کا آبائی علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان اب نو گو ایریا بن گیا ہے۔
خیبر پختون خوا میں امن و امان کی صورتحال کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روزانہ سیکیورٹی فورسزکے اہلکاروں کی ہلاکتوں کی خبریں آتی ہیں۔ ان علاقوں میں کام کرنے والے صحافی مسلسل یہ بات لکھ رہے ہیں کہ پارا چنار سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک پورے علاقے میں شام کو طالبان کا راج ہوتا ہے۔ پولیس اہلکار تھانوں میں چھپ جاتے ہیں۔ طالبان ان علاقوں میں عدالتیں لگاتے اور سزائیں دیتے ہیں۔
خیبر پختون خوا میں 2013 سے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے مگر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس حکومت کو امن و امان کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ گنڈا پور اسلام آباد کو فتح کرنے اور پی آئی اے کو خریدنے کے خواب دیکھتے ہیں مگر امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ اسی طرح وفاقی حکومت بھی اس پورے علاقے میں امن و امان کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر 10 سے 15دن بعد معصوم لوگ مارے جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ابھی تو 44کے قریب افراد قتل ہوئے ہیں مگر یہ آخری سانحہ نہیں ہے، اگر حالات کو بہتر نہیں بنایا گیا تو مستقبل میں اس سے زیادہ برا سانحہ ظہور پذیر ہوسکتا ہے۔