ہم گزشتہ کالم میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے یکے بعد دیگرے دعوؤں کی زمیں بوسی پر بات کرچکے ہیں مگر بشریٰ بی بی کی ننگے پاؤں والی وڈیو سے تو لگتا ہے کہ عمران خان کی پوری سیاست زمیں بوس ہوگئی ہے۔کیونکہ پی ٹی آئی کا کوئی راہنما اس کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں اور ٹاک شوز میں ان کی بے بسی پر ترس آتا ہے مگر بقول فیصل چوہدری، عمران خان نے اس بیان پر بھی خراج تحسین پیش کیا اور کہا ہے کہ بی بی کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ اب بندہ ان سے پوچھے کہ ارے بھائی یہ کوئی اخباری بیان تھا کہ سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ یہ تو کیمرے کے سامنے ریکارڈ ہوا، تصحیح ہوئی اور پھر اپ لوڈ ہوا۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ سیاق وسباق سے کس نے ہٹایا اور توڑ مروڑ کر کس نے پیش کیا؟
جہاں تک ننگے پاؤں جانے کی بات ہے، تو ہر مسلمان اور صاحب ایمان کی خواہش ہوگی کہ وہ شافع محشر ، نبی رحمت حضرت محمدؐ کے شہر مبارک میں ننگے پاؤں نہیں بلکہ پلکوں کے بل چلے اور ہمارے اکابرین صرف ننگے پیر نہیں بہت احتیاط اور ادب سے چلتے تھے اور آج بھی چلتے ہیں مگر تشہیر سے گریز کرتے رہے کیونکہ عشق میں دکھاوے کی گنجائش نہیں اور جس عشق میں دکھاوا یا کیمرے کا انتظار ہو وہ ڈرامہ تو ہوسکتا ہے، عشق نہیں۔
خیبرپختونخوا کے مشہور ومعروف عاشق رسولؐ حاجی محمد امین صاحب جب پہلی بار مدینہ منورہ گئے تو انھوں نے فی البدیہہ پشتو میں کچھ اشعار پڑھے۔
زڑگیہ سترگے لگہ وا د قدم لارہ نہ دہ
حضور پہ یخے قدمونہ دومرہ خوارہ نہ دہ
اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہا کہ آنکھیں اور پلکیں لگا کر چلو۔ یہ قدم رکھنے والا راستہ نہیں کیونکہ اس زمین نے حضور ﷺکے قدموں کو بوسے دیے ہیں۔اس لیے بانی پی ٹی آئی نے بحیثیت مسلمان عقیدت میں ایسا کیا ہوگا۔ مگر ایک ایسے موقع پر جب بانی پی ٹی آئی نے پوری قوم کو صرف اور صرف اپنی رہائی کے لیے فائنل کال دی ہے، بشری بی بی کا یہ کہنا کہ عمران خان کو مدینہ منورہ میں ننگے پاؤں چلنے کی سزا دی گئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ یہ پیغام دینا چاہتی تھیں کہ 24 نومبر کے احتجاج میں نکلنا درحقیقت عشق مصطفی ؐکا تقاضا ہے۔ عشق مصطفیؐ دلوں کو مسرور کرنے والا ایسا جذبہ ہے جو ہر مسلمان کو جان فدا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رکھتا ہے۔ مگر کیا اپنے "مرید شوہر" کی رہائی کے لیے احتجاج کو عشق رسول ﷺسے جوڑنا عشق رسول اللہؐ ہے؟
میرے مرشد و مربی ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ سچے عاشق رسولؐ تھے ان کے سامنے جب بھی کسی نے روضہ رسولؐ پر حاضری کی بات کی تو انھوں نے بہتی آنکھوں کے ساتھ روضہ مبارک پر جانے والے کو سلام ودرود کی التجا اور درخواست کی۔ تواتر کے ساتھ ان کو دیدار مصطفی ؐ کا شرف حاصل ہوتا رہا اور ان کے متعلقین، شاگردوں اور مریدین ان کے بارے میں رسول مقبول ﷺ کے دیدار میں بشارتوں کا ذکر کرتے تھے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے مگر انھوں نے کبھی اس کی تشہیر نہیں ہونے دی اور بہتی آنکھوں کے ساتھ خواب سننے کے بعد خواب دیکھنے والے کو منع کرتے تھے کہ بس اس کو اپنے سینے میں رکھ لیں، کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ عشق رسول اللہ نام ہے ظاہر کو نبی اکرم ﷺ کی شکل وصورت کے مطابق اور باطن کو ان کی حیات طیبہ اور اسوہ حسنہ کے نور اور ہدایات کے ذریعے منور کرنے کی سعی اور کوشش کا۔ ظاہر کا پتہ تو مخلوق کو لگ جاتا ہے مگر باطن کا پتا صرف خالق اللہ وحدہ لاشریک کو ہوتا ہے مگر وہ جب چاہے باطن کو چہرے کے نور کے ذریعے اپنے مقربین کے چہروں پر ظاہر کردیتے ہیں۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ قول وفعل میں تضاد ہو یا بندہ گفتار کا غازی اور کردار سنت نبوی سے متصادم ہو تو عشق مصطفی ؐکا دعوٰی خودبخود باطل ہوجاتا ہے۔
ایسے کرداروں کے لیے اقبال نے کیا خوب کہا تھا
اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
اب آتے ہیں بشریٰ بی بی کے دعوے اور ان کی قیادت میں جاری احتجاج کے دوران لیڈران وکارکنان کے رویے کی طرف۔ اس احتجاج کی وجہ سے نبی رحمت ﷺ کے امتیوں کو جس اذیت ناک اور تکلیف دہ حالات کا سامنا رہا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی مسلمان پرتشدد واقعات میں جان سے گئے ، مریض ایمبولینسز میں پڑے مرتے رہیں۔ نبی رحمتؐ نے تو کفار ومشرکین کے ساتھ جنگ کی حالت میں درختوں اور فصلوں کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا مگر عشق رسولؐ کی دعویدار بشریٰ بی بی کی قیادت میں قوم یوتھ گرین بیلٹ پر لگے درختوں کو آگ لگاتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ۔ درختوں کو آگ لگانا انسانیت دشمنی ہے اور خلاف سنت و شریعت ہے مگر فراڈ بلین ٹری سونامی اور سرسبز پاکستان کے دعویدار خان اور ان کے ساتھی جب سے ایوان اقتدار سے نکلے ہیں ان کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ درختوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ ان کو یہ کون سمجھائے کہ آپ پودے لگائیں گے تو کئی سال بعد درخت بنیں گے۔ اگر ہرے بھرے درختوں کو آگ لگانا ہے تو پھر دو اور تین انچ کے پودوں پر قوم کے اربوں روپے خرچ کرنے اور اس پر اپنی سیاست چمکانے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسری طرف پورا ملک اسموگ کی لپیٹ میں ہے، فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے پر جرمانے ہورہے ہیں اور یہ تبدیلی سرکار ’’تباہی سرکار‘‘ بن کر اسموگ کے خلاف واحد حفاظتی ڈھال (درختوں) کو آگ لگا کر اسے اسموگ کو روکنے کے بجائے اسموگ بڑھانے کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ کہ یہ سب کچھ بشریٰ بی بی کی سربراہی میں بانی پی ٹی آئی کی پارٹی کررہی ہے۔ قول وفعل کے اس تضاد کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ مذہبی ٹچ اور اس کی تشہیر صرف دکھاوا اور ڈرامہ ہے۔ عشق مصطفیؐ جیسے مقدس جذبے کے ساتھ اس کو جوڑنا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لانے کے دعویدار اگر چند ہزار جذباتی کارکنوں کے ساتھ سڑک پر ہیں تو یہ واضح ہوگیا کہ پاکستانی قوم بشری بی بی کے مذہبی ’’ٹچ‘‘ کے جھانسے میں نہیں آئی البتہ اس مذہبی ’’ٹچ‘‘ کو اہل رائے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ پاکستان اور سعودی عرب کے بردارانہ اور مثالی تعلقات پر خودکش حملہ تصور کر رہے ہیں۔ عمران خان خود نے فرمایا کہ سعودی عرب سے ان کے مثالی تعلقات ہیں۔
جس آسانی کے ساتھ تحریک انصاف کے لوگ ڈی چوک پہنچ گئے اس سے تو لگتا ہے کہ کہانی سکرپیٹیڈ اور غیر سیاسی بشری بی بی کی سیاست کی لانچنگ تھی مگر خان تو موروثیت کے خلاف ہے پھر بشری بی بی کو کس نے لانچ کیا؟
بی بی کی لانچنگ شاندار اور بے مثال ہے کیونکہ انھوں نے احتجاجی تحریک میں جان ڈال کر گنڈا پور سمیت تحریک انصاف کی پوری قیادت کو اپنے پیچھے لگایا۔ آج تک کسی کا سیاسی قد اس قابل نہیں کہ وہ بانی پی ٹی آئی کی جگہ لے سکے لیکن لگتا ہے کہ بی بی کا سیاسی قد بڑھایا جا رہاہے اوربہت جلد وہ خان کے برابری پر ہو گی۔کیا بی بی کا اچانک میدان میں کارکنان کو چھوڑ کر گنڈا پوری حکمت عملی کے تحت بھاگنا بھی اسکرپٹییڈ تھا؟یہ بہت جلد واضح ہو جائے گا۔ کیونکہ یہ گتھی ابھی الجھی ہوئی ہے کہ بشریٰ بی بی، خان کے ساتھ ہیں یاکسی اور کے ساتھ؟۔
دوسری طرف خیبر پختونخوا لہولہان ہے مگر گنڈا پور پختون قوم کو بے یارو مددگار چھوڑ کر وزیر اعلیٰ سے "وزیر لشکرکشی" بن کر ایک بار پھر اسلام آباد فتح کرنے نکلے اور نہتے کارکنان کو سڑک پر چھوڑ اور بشریٰ بی بی کو لے کر رات کی تاریکی میں پرانے روٹ پر چلتے ہوئے پشاور پہنچنے۔ اللہ رب العزت تمام پاکستانیوں خصوصا پختونوں کو شر پسندوں کے شر سے اپنی ستاری کے چادر میں لپیٹ کر رکھے۔ آمین