عقد مؤاخات
اﷲ کے آخری رسول نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی قلبی قوت دور دور سے لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ رہی تھی، انہی میں یثرب (مدینہ منورہ) کے کچھ لوگ (جن کی کل تعداد 75 سے زاید نہ تھی) بیعت عقبہ کے موقع پر مسلمان ہوئے، مکہ میں اہل اسلام پر مشرکین کے مظالم دیکھے تو ان کے دل بھر آئے، چناں چہ انہوں نے آپ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کو اپنے ہاں مدینہ آنے کی دعوت دی۔
خدا کا کرنا ایسا ہُوا کہ کچھ عرصے بعد ہجرت کا خدائی حکم نازل ہُوا، آپ ﷺ اپنے جاں نثار صحابہ کرامؓ کے ہم راہ عازم مدینہ ہوئے۔ عشق بلاخیز کے اس قافلۂ سخت جاں میں وہ بھی تھے جو نادار و غربت کے مارے ہوئے تھے اور وہ بھی تھے جو مکہ میں صاحب ثروت، بڑے کاروباری اور جائیدادوں کے مالک تھے، مگر اب ان کے مال و متاع، باغات، جائیداد اور سامان تجارت پر مشرکین مکہ نے قبضہ جما لیا تھا، یہ لٹے پٹے لوگ اپنے جسم پر ایک لباس کے علاوہ کسی چیز کے مالک نہ تھے۔
مدینہ منورہ، سرزمین عرب کا وہ خطہ تھا جہاں کے لوگ کاروبار کم اور کاشت کاری زیادہ کرتے تھے۔ جو کاروبار تھا اس پر یہود نے پنجے گاڑے ہوئے تھے، مدینہ کی کاروباری منڈیوں پر انہی کی اجارہ داری اور ساہُو کاری کا تسلط تھا۔ یہاں دو بڑے قبیلے اوس اور خزرج آباد تھے جن سے انصار مدینہ کے زراعتی تعلقات تھے لیکن ان دو قبیلوں کی باہمی لڑائی جو تقریباً 120 سال تک لگی رہی اس میں ان کی کئی نسلیں مر کھپ گئیں۔ اس لیے ان کا اقتصادی ڈھانچا بے روح ڈھانچے کی شکل اختیار کر چکا تھا۔
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں سب سے پہلے مسجد تعمیر کی گئی تاکہ مسلمانوں کو عبادات کی ادائی میں مشکلات پیش نہ آئے، اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مسائل میں سب سے اہم مسئلہ مسلمانوں کے لیے عبادات کی ادائی کا تھا۔ اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ مہاجرین مکہ کی آباد کاری کا تھا۔ اس کی ممکنہ صورتوں میں ایک یہ بھی تھی کہ علاحدہ طور پر مہاجرین کی بستی تعمیر کی جاتی۔ لیکن پیغمبر انقلاب ﷺ کی پیغمبرانہ فراست اور مردم شناس نگاہ نے اسے یک سر مسترد کر دیا۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی تھیں مثلاً علاحدہ آبادی سے مہاجرین و انصار کے درمیان باہمی یگانگت، ایثار و اخلاص، مساوات اور الفت پیدا نہ ہوتی۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تعلیم و تربیت، باہمی احتساب، افادہ و استفادہ اور دکھ سکھ میں شرکت کے لحاظ سے جو مساوی سطح کی ضرورت تھی علاحدہ آبادی اس میں خلیج بن جاتی۔ تیسری اور سب سے بڑی وجہ انصار کا مثالی تعاون اور ان کے قلبی جذبات مشاہدہ بن کر سامنے نہ آسکتے۔ اس لیے مہاجرین کی الگ سے آباد کاری نہ کی گئی۔
عرب میں ایک طریقہ عقد موالات کا رائج تھا۔ یعنی غیر قبیلہ کا کوئی آدمی کسی اور قبیلہ میں پہنچتا اور معاہدہ کر کے اس قبیلہ میں داخل ہوجاتا اور اس کے بعد اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوتا۔ معاہدات صلح و جنگ میں شریک رہتا اور مرنے کے بعد اس کا ترکہ بھی اسی قبیلہ میں تقسیم کیا جاتا۔ اس عقد موالات میں حق و انصاف کے بہ جائے خواہ قبیلہ والے غلط، ناانصافی بل کہ ظلم بھی کر رہے ہوں بہ ہر حال اسی قبیلہ کی طرف داری اور حمایت ضروری ہوتی تھی۔ اس لیے اسلام نے اسے ناقص قرار دے کر حرام بتلایا اور یہ تعلیم دی کہ ہمیشہ حق و انصاف کا ساتھ دو، اگرچہ وہ تمہارے والدین اور عزیز و اقارب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
پیغمبر اسلام ﷺ نے زمانۂ جاہلیت کے اس عقد موالات کو ترک فرما کر عقد مواخات قائم فرمایا اور فطری طور پر ہم مزاجی کا خیال فرماتے ہوئے ایک مہاجر کو ایک انصاری کا نام بہ نام بھائی قرار دیا۔
عقد مؤاخات کے قیام کے بعد انصارِ مدینہ دربار رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان کجھوروں کے باغات تقسیم فرمائیے۔‘‘ (بخاری) انصار مدینہ یہ چاہتے تھے کہ مہاجرین کا حصہ زمین اور باغات ان کے قبضے میں دے دیا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی اور اختیار کے ساتھ اس میں جو کچھ تصرف کرنا چاہیں تو کر سکیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے ایثار و اخلاص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا لیکن اپنی نگاہ بصیرت و فراست کے پیش نظر اسے منظور نہیں فرمایا۔ کیوں کہ اس سے مہاجرین کا معاشی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تھا، جائیداد کی تقسیم سے مہاجرین ’’صاحبِ جائیداد‘‘ تو ضرور بن جاتے لیکن تاجر پیشہ ہونے اور زراعت سے ناواقف ہونے کی وجہ سے معاشی طور پر مضبوط نہ ہو سکتے تھے، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’باغات کے بہ جائے پیداوار کا حصہ مہاجرین کو دیا جائے۔‘‘
انصار مدینہ کہا: ’’جو حکم ہو تعمیل کریں گے۔‘‘
چشم فلک نے انقلابات زمانہ تو کئی دیکھے لیکن پیغمبر انقلاب ﷺ جیسا انقلاب نہیں دیکھا کہ بغیر جبر و اکراہ زمین دار خود کاشت کاری کر کے پردیسی و اجنبی لوگوں کو پیداوار کا مقرر حصہ دیتے رہے۔
انصار مدینہ اگرچہ یہی چاہتے تھے کہ زمینیں بھی مہاجرین کو دے دی جائیں لیکن آپ ﷺ نے اسے قبول نہ فرمایا بل کہ مہاجرین کو عارضی ملکیت دی، جب حالات سازگار ہوئے اور مہاجرین خود صاحب جائیداد ہوگئے تو انصار کو زمینیں واپس کر دی گئیں۔ انصار مدینہ کی مثالی قربانی اور جذبۂ اخوت کی مثال نہیں ملتی، چناں چہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے ان کے انصاری بھائی حضرت سعدؓ نے کہا کہ میں انصار میں سب سے زیاد ہ مال دار ہوں۔ میں ایک بھائی ہونے کے ناتے اپنا آدھا مال تمہیں پیش کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ میری دو بیویاں ہیں۔ تم انہیں دیکھ لو اور جو تمہیں اچھی لگے میں اسے طلاق دے دوں گا اور عدت کے بعد تم اس سے نکاح کرلینا۔ عبدالرحمن بن عوفؓ نے جو اب میں کہا کہ خدا تمہارے مال میں برکت عطا فرمائے۔ مجھے کوئی بازار بتا دو کہ میں وہاں جاکر تجارت کر سکوں۔ چناں چہ انہیں بنو قینقاع کا بازار بتا دیا گیا۔
اسی طرح ایک صحابیؓ، حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کی کہ بھوک اور پیاس نے ستایا ہُوا ہے کھانے پینے کو کچھ نہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے تمام گھروں سے معلوم کرایا، وہاں سے کچھ نہ ملا تو آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے سے فرمایا: ’’کوئی ہے جو ان کی ایک رات کی مہمانی قبول کرے۔‘‘ حضرت ابُوطلحہ انصاریؓ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ میں مہمانی کروں گا۔ ان کو گھر لے گئے اور بیوی سے فرمایا کہ یہ حضور ﷺ کے مہمان ہیں ان کی مہمان نوازی میں کمی نہ ہونے پائے اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا خدا کی قسم بچوں کے لیے کچھ تھوڑا سا رکھا ہے اور کچھ بھی گھر میں نہیں۔ ابُوطلحہ انصاریؓ نے فرمایا کہ بچوں کو بہلا کر سلا دینا اور جب وہ سو جائیں تو کھانا لے کر مہمان کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اور تُو چراغ درست کرنے کے بہانے سے اٹھ کر اس کو بجھا دینا۔ چناں چہ بیوی نے ایسا ہی کیا اور دونوں میاں بیوی اور بچوں نے فاقہ سے رات گزاری۔ ان کے اس جذبۂ ایثار پر قدرت مسکرائی اور قرآن کریم کی یہ آیت نازل فرمائی، مفہوم:
’’اور ترجیح دیتے ہیں اپنے آپ پر اگرچہ خود فاقہ سے ہوں۔‘‘
4 ہجری میں قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں نے آپ ﷺ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا، وہ کام یاب نہ ہوئے۔ 1 ہجری میں ان سے جو معاہدہ تھا انہوں نے خود اس کی خلاف ورزی کرکے توڑ دیا اس لیے ان کا علاقہ بغیر جنگ کے اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آیا چوں کہ یہ بغیر جنگ کے اہل اسلام کے قبضہ میں آیا تھا اس لیے مجاہدین اسلام میں تقسیم نہ ہوا بل کہ اسے خاص رسول اﷲ ﷺ کا حق قرار دیا گیا۔ آپ ﷺ کے سامنے صحابہ کرامؓ کی مشکلات تھیں، آپ ﷺ نے انصار کو جمع فرما کر ان کی رائے معلوم کرنا چاہی کہ یہ زمین انصار و مہاجرین دونوں میں تقسیم کی جائے یا صرف مہاجرین کو دے دی جائے تاکہ وہ انصار کی زمینیں واپس کریں اور ان کے مکانات خالی کر دیں؟ اوس و خزرج کے دونوں سردار سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا: آپؐ یہ سب کچھ مہاجرین میں تقسیم فرما دیں ہم اپنے مکانات و باغات اور زمینیں واپس نہیں لیتے بل کہ ہمیں خوشی ہوگی کہ ہماری کچھ اور زمینوں کا حصہ مہاجرین کو عنایت فرمایا جائے یہ سن کر آپ ﷺ نے انصار کو یوں دعا دی:
’’اے اﷲ! انصار اور ان کی اولادوں پر اپنی خاص رحمت نازل فرما۔‘‘ چناں چہ آپ ﷺ نے اس زمین کا ایک حصہ مہاجرین میں تقسیم فرمایا اور انصار میں سے دو ضرورت مند انصاری حضرت ابُو دجانہؓ اور سہل بن حنیفؓ کو بھی دیا، باقی اپنے پاس رکھا اور اس پر کاشت ہوتی تھی جس کی پیداوار سے ازواج مطہراتؓ کا نان و نفقہ ادا فرماتے۔ کچھ عرصہ بعد بحرین کا علاقہ بھی اسلامی سلطنت کا حصہ بنا، آپ ﷺ نے اس موقع پر بھی انصار کو کچھ دینے کا ارادہ فرمایا لیکن انہوں نے بہ صد ادب یہ عرض کی کہ ہمیں دینے کے بہ جائے مہاجرین کو عنایت فرمائیں۔
یہ تھا وہ بے لوث ایثار جس نے اخلاص کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں مواخات کا درس ملتا ہے جو باہمی یگانگت، ایثار و اخلاص، ہم دردی و اخوت، الفت و محبت اور مساوات سے معاشرتی و اقتصادی تعلقات کو مربوط اور مضبوط کرنے کا سبب بنتے ہیں۔