خود احتسابی: کام یابی اور اصلاحِ نفس

’’بے شک! اﷲ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔‘‘


’’ تمہارے رب نے کہا مجھے پکا رو میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا۔‘‘ (سورۃ غافر)۔ فوٹو: فائل

خود احتسابی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو اپنی ذات کا جائزہ لینے اور اپنی زندگی کے اعمال کا محاسبہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں خود احتسابی کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے، کیوں کہ یہ عمل انسان کو اپنی غلطیوں سے آگاہ کرتا ہے اور توبہ کے ذریعے اصلاح کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں، خود احتسابی ایک لازمی جزو ہے جو ہر مسلمان کی زندگی کا حصہ ہونا چاہیے تاکہ وہ دنیا و آخرت میں کام یابی حاصل کر سکے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے بارہا انسان کو اپنی زندگی کا جائزہ لینے اور اپنے اعمال پر غور کرنے کی ترغیب دی ہے۔

سورۃ الحشر میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور اﷲ سے ڈرو۔ بے شک! اﷲ تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے۔‘‘

یہ آیت واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہر انسان کو اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی آخرت کے لیے کیا تیار کر رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہاں انسان کو تنبیہ کی ہے کہ وہ غفلت کا شکار نہ ہو اور ہمیشہ اپنے اعمال پر غور و فکر کرتا رہے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی اور احادیث مبارکہ بھی خود احتسابی کے اصول کو واضح کرتی ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

(آخرت کے معاملے میں) ’’گھڑی بھر غور و فکر کرنا ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘ (کنز العمال)

 لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے اُخروی معاملات کے بارے میں غور و فکر کرتا رہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

’’اپنے اعمال کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اور اپنے اعمال کو تول لو قبل اس کے کہ وہ تمہارے خلاف تولے جائیں۔‘‘ یہ حدیث اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ ایک مسلمان کو ہر وقت اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے تاکہ قیامت کے دن اس کا حساب آسان ہو جائے۔ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، اور ہمیں ہر لمحے اپنے اعمال اور نیتوں کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہم اپنی آخرت کو بہتر بنا سکیں۔

خود احتسابی کا عمل صرف ظاہری اعمال تک محدود نہیں بل کہ اس میں انسان کے اندرونی خیالات، نیّت اور اخلاقیات بھی شامل ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے، مفہوم: ’’اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا۔ پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔‘‘ (سورۃ الشمس) اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے انسان کے نفس کی تخلیق اور اس کے اندر پیدا ہونے والی بدی اور نیکی کی صلاحیت کو بیان کیا ہے۔ انسان کو ہر لمحے اپنے نفس کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ نیکی کی راہ پر گام زن ہے یا بدی کی طرف جھک رہا ہے۔

اسی طرح خود احتسابی کا ایک اہم پہلو توبہ ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں، اﷲ تعالیٰ نے انسان کو بار بار توبہ کرنے کی تلقین کی ہے تاکہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اصلاح کی طرف قدم بڑھائے۔ قرآن میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم:

’’بے شک! اﷲ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ) یہ آیت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے توبہ کرتے ہیں اور خود کو پاک صاف رکھتے ہیں۔ توبہ کا عمل دراصل خود احتسابی کا ہی نتیجہ ہے، کیوں کہ جب انسان اپنے گناہوں کا جائزہ لیتا ہے تو وہ اﷲ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی توبہ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے، مفہوم:

’’ہر ابن آدم خطا کار ہے، اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ)

یہ حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ ہر انسان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، لیکن ان غلطیوں پر شرمندہ اور نادم ہوکر اﷲ کی طرف رجوع کرنا اور توبہ کرنا انسان کی عظمت کا ثبوت ہے۔

خود احتسابی کا عمل انسان کو غرور اور تکبر سے بھی بچاتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’تو تم خود اپنی جانوں کی پاکیزگی بیان نہ کرو، وہ خوب جانتا ہے اسے جو پرہیزگار ہُوا۔‘‘ (سورۃ النجم) یہ آیت انسان کو اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ وہ اپنے اعمال پر نازاں نہ ہو بل کہ ہمیشہ اﷲ سے ڈرتا رہے اور اپنے نفس کا جائزہ لیتا رہے۔

خود احتسابی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو بہتر اخلاقی شخصیت بننے میں مدد دیتی ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا اخلاقیات کی بہتری کی تلقین کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘ (سنن الکبریٰ للبیہقی) یہ حدیث ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایک مسلمان کی شخصیت کا سب سے اہم حصہ اس کے اخلاق ہیں، اور خود احتسابی ہی وہ ذریعہ ہے جس سے انسان اپنے اخلاق کو بہتر بنا سکتا ہے۔

خود احتسابی کا ایک اور اہم پہلو معاشرتی اصلاح بھی ہے۔ جب ہر فرد اپنے اعمال کا جائزہ لے گا اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرے گا، تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑے گا۔ قرآن میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’بے شک! اﷲ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔‘‘ (سورۃ الرعد) اس آیت کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ معاشرتی تبدیلی کا آغاز ہر فرد سے ہوتا ہے۔ جب ہر فرد اپنی زندگی کا محاسبہ کرے گا اور اپنی اصلاح کرے گا، تبھی معاشرہ مجموعی طور پر بہتر ہو سکتا ہے۔

خود احتسابی کے عمل سے انسان کے اندر عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک کم زور اور خطاکار مخلوق ہے اور صرف اﷲ کی رحمت اور بخشش پر منحصر ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم:

’’آپؐ فرما دیجیے: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک! اﷲ سب گناہ بخش دیتا ہے، بے شک! وہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (سورۃ الزمر) یہ آیت انسان کو خود احتسابی کے بعد توبہ کرنے اور اﷲ کی رحمت کی امید رکھنے کا درس دیتی ہے۔

خود احتسابی کا یہ عمل ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینے، اپنے گناہوں سے بچنے اور نیکی کی راہ پر استقامت اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ ایک مسلسل اور مستقل عمل ہے جسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ ہم ہر لمحے اپنے افعال کو بہتر بنا سکیں اور اﷲ کے قریب ہو سکیں۔ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف اور ان کی اصلاح کا عزم ہمیں نہ صرف دنیا میں کام یابی سے ہم کنار کرتا ہے بل کہ آخرت میں سرخ رُوئی اور اﷲ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں