پلاسٹک کی آلودگی اور ویسٹ مینجمنٹ
سیؤل، جنوبی کوریا میں مذاکرات کا پانچواں دور جس کا مقصد پلاسٹک کی آلودگی پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی معاہدے کو حاصل کرنا تھا، سست پیش رفت کا شکار نظر آرہا ہے، مندوبین نے اس بات پر شکوک کا اظہارکیا ہے کہ آیا کیا یکم دسمبر کی ڈیڈ لائن تک معاہدہ طے پاسکتا ہے؟
جنوبی کوریا اس ہفتے ایک قانونی طور پر پابند بین الاقوامی معاہدے کو حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی بین الحکومتی مذاکراتی کمیٹی (INC-5) کے پانچویں اور آخری اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ جنوبی کوریا میں جاری بات چیت میں شریک ممالک کے لیے پلاسٹک کی آلودگی کے عالمی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک معاہدے پر آنے کا ایک نادر موقع ہے۔
درحقیقت پلاسٹک کی آلودگی پورے زمینی نظام کو بدل رہی ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کو بڑھا رہی ہے۔ ان تبدیلیوں میں حیاتیاتی تنوع میں کمی، سمندری تیزابیت، میٹھے پانی اور زمین پر اثر انداز ہونا سرفہرست ہے۔ پلاسٹک کو صرف فضلہ کے مسئلے کے طور پر نہیں سمجھا جانا چاہیے بلکہ یہ مصنوعات کے طور پر جو ماحولیاتی نظام اور انسانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے۔
پلاسٹک کی آلودگی نہ صرف آبی ماحولیاتی نظام اور اس کی انواع کی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ یہ انسانی صحت اور ان سمندری ماحول پر انحصارکرنے والوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے متعدد خطرات بھی پائے گئے ہیں جن کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پلاسٹک کی مختلف مصنوعات یا ایپلی کیشنزگرمی یا سردی کے سامنے آنے پر کھانے یا مشروبات میںکیمیکلز کو شامل کرتی ہیں، جس سے انسان، جانور اور ماحول متاثر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، پلاسٹک دیگر زہریلے مادوں، بیکٹیریا اور وائرسوں کے لیے ایک ویکٹر بن سکتا ہے۔
دنیا بھر میں پلاسٹک کا استعمال 1950 کے وسط میں شروع ہوا تھا اور اس نے زندگی کو تبدیل کردیا کیوں کہ یہ ہلکا، پائیدار سستا اور آسان تھا اور چیزیں لانے لے جانے، خاص طور پر فوڈ سیفٹی، فوڈ پریزرویشن اور ہیلتھ کے کئی سینٹرز میں اس سے بہت فائدہ ہوا، لیکن پھر اس کی بے تحاشہ پروڈکشن اور اس کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے اس کا جوکچرا بنا اسے تلف کرنے کے بندوبست پر اس پیمانے پرکام نہیں کیا گیا جتنے بڑے پیمانے پر وہ پیدا ہوا۔ کیوں کہ یہ ہمیشہ رہنے والی چیز ہے جسے یہاں دنیا میں رہنا ہے اورکوئی اور ایسا سیارہ نہیں ہے جہاں ہم اسے بھیج سکیں۔
پلاسٹک اس وقت اتنا زیادہ ہماری زندگیوں میں داخل ہو چکا ہے اور ہم اس کے اتنے زیادہ عادی ہو چکے ہیں کہ اسے ختم کرنا بہت مشکل ہے، اگر اسے دبا دیا جائے تو بھی تلف ہونے میں بیس سے 500 سال لگ سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کا اندازہ ہے کہ 2040 تک سمندری ماحولیاتی نظام میں شامل ہونے والے پلاسٹک کے کوڑے کی سالانہ مقدار 23 سے 37 ملین ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔
موجودہ رجحانات کو دیکھا جائے تو 2060تک دنیا میں پلاسٹک کا کچرا تقریباً تین گنا ہوجائے گا، چونکہ تمام تیارکردہ پلاسٹک کا 36 فیصد پیکیجنگ میں استعمال ہوتا ہے، اس لیے پیکیجنگ کا بہتر انتخاب اس سے نمٹنے میں حقیقی اثر ڈال سکتا ہے۔ 2022 میں انڈیا میں پلاسٹک کی کچھ اشیا پر مکمل پابندی لگانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے بعد سے وہاں پلاسٹک کے فضلے کا حجم بڑھ گیا ہے، جس کی وجہ جزوی طور پر قابل عمل متبادل کی کمی تھی۔
پلاسٹک کے بحران کی شدت اور عجلت کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایسے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن کو صارفین کے رویے اور رجحانات کو دیکھتے ہوئے آسانی سے بڑھایا جا سکے۔ دنیا بھر میں ہر منٹ میں 10 لاکھ پلاسٹک کی بوتلیں خریدی جاتی ہیں جن کی اکثریت کوڑے کرکٹ میں جمع ہو جاتی ہے۔ ان کو یا تو کارٹن یا دوبارہ قابل استعمال پیکیجنگ سے تبدیل کرنے سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔ خاص طور پرکارٹن کے ذریعے ہم زیادہ آسانی سے ایک ایسی دنیا بنا سکتے ہیں جہاں ہماری دکانوں اور گھروں میں پلاسٹک کی بوتلیں نایاب ہو جائیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان میں 55 ارب شاپنگ بیگز روزانہ استعمال ہو رہے ہیں۔ جس میں سالانہ 15 فیصد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او سمیت کچھ ممالک کی تنظیموں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دنیا کا ہر بالغ شخص سالانہ 50 ہزار پلاسٹک ذرات نگل رہا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پلاسٹک بیگز بنانے والی رجسٹرڈ فیکٹریوں کی تعداد 18ہزار سے زیادہ ہے۔ لاکھوں افراد کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔ چھوٹے بڑے شاپنگ بیگز کی یومیہ پیداوار 500 کلوگرام ہے۔ اس کے علاوہ سیوریج کا نظام پلاسٹک بیگز جمع ہونے سے چوک ہوجاتا ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ اب روزمرہ زندگی سے پلاسٹک بیگزکو ختم کرنا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پابندی کے باوجود ابھی تک اسے ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈزکی ایک ریسرچ سے ظاہر ہوا کہ پاکستان دنیا بھر میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے آٹھ ملکوں میں شامل ہے اور اس کا سب سے بڑا صنعتی شہرکراچی پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے چار شہروں میں شامل ہے۔
کراچی میں روزانہ بارہ ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، جس میں سے لگ بھگ بیس فیصد پلاسٹک کا کچرا ہوتا ہے۔ جو خالی پلاٹوں سے لے کر سڑک کے کناروں، ندی نالوں اورکوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں ہر جگہ بکھرا ہوتا ہے۔ اس سب کچرے کو کوئی ایک ادارہ اکٹھا یا تلف کرنے کا ذمے دار نہیں ہوتا اور ان میں سے ہر ایک اپنے طریقے سے انھیں اکٹھا اور تلف کرتا ہے اور اسی لیے ان کے درمیان ربط کی کمی سے اس مسئلے کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
دریائے سندھ پلاسٹک کچرے کا دوسرا سب سے بڑا آلودہ دریا ہے۔ ورلڈ بینک کی 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ سے بحیرہ عرب میں چالیس فیصد کچرا شامل ہوتا ہے، جس کا تین چوتھائی حصہ گراسری، کچرے کے بیگز، جوس کے ڈبوں، سینیٹری نیپکنز، ڈائیپرز، فیس ماسک، بینڈیج، سرنجز اورکئی تہوں کی پیکیجنگ میں استعمال ہونے والا باریک پلاسٹک ہوتا ہے، ان کو پھینکنا آسان ہے لیکن اکٹھا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف، پاکستان کی ایک ریسرچ کے مطابق سال بھر میں ملک بھر کے کل کچرے کا 65 فیصد آخرکار ساحلوں تک پہنچ جاتا ہے اور ملک بھر میں پلاسٹک کے 55 ارب سنگل یوز تھیلے یا شاپرز استعمال ہوتے ہیں جن کی تعداد میں لگ بھگ 15 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق ایک بار استعمال کے بعد پھینک دیے جانے والے پلاسٹک کے تھیلوں یا شاپرزکا بڑھتا ہوا استعمال اور اس کے نتیجے میں پلاسٹک کے کچرے کا شہرکے ڈرینیج سسٹم میں شامل ہونا ہے۔ پاکستان میں ہر سال تین اعشاریہ نو ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے، پاکستان میں پلاسٹک کے ماحولیات اور صحت پر سنگین اثرات ہو رہے ہیں۔ ملک میں ہر سال لگ بھگ تین اعشاریہ نو ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے 70 فیصد کو مس مینیج کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں یہ کچرا لینڈ فلز میں، ڈمپس اور ندی نالوں میں جمع ہو جاتا ہے اور آخرکار سمندر میں جا گرتا ہے یا اس کے ساحلوں پر بکھرا نظر آتا ہے۔
پاکستان ایک اہم موڑ پرکھڑا ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پلاسٹک کے استعمال کے چیلنج سے نبرد آزما ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر جامع پالیسی فریم ورک کے فقدان کے باوجود اسلام آباد، لاہور اور ہنزہ جیسے اہم شہروں میں پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی کے لیے ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر (SRO) کا اجرا ایک اہم پیش رفت ہے۔ تاہم، خصوصی کمپینز اور جرمانوں کے ذریعے اس کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی ماضی کی کوششوں کے باوجود پلاسٹک کا استعمال جاری ہے، یہاں تک کہ خوراک اور فضلہ کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کی فوری ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی پائیداری کی کوششوں کو کامیاب بنایا جا سکے۔
دنیا کو پلاسٹک کی آلودگی کی ’’ اونچی زہریلی لہر‘‘ کو روکنا ہوگا جو انسانی حقوق کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔ ملکوں کو عالمی سطح پر ری سائیکلنگ انفرا اسٹرکچر اور ویسٹ مینیجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانا چاہیے، اس کے لیے تعاون کو بڑھانا چاہیے، پلاسٹک کی پروڈکشن اور اس کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے مل کر پالیسیاں بنانی چاہئیں اور معاہدے کرنے چاہئیں۔