پی ٹی آئی احتجاج کے دوران صدر بیلا روس کا دورہ

دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی موجودگی میں کئی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔2

gfhlb169@gmail.com

ایس سی او SCOکانفرنس کے اسلام آباد میں کامیاب انعقاد کے بعد چند ہی دنوں کے اندر بیلا روس کے صدر جناب الیگزانڈر لوکا شنکو کے دورۂ پاکستان کا اعلان ہو گیا۔بانی پی ٹی آئی کی بہن محترمہ علیمہ خان نے ایک چھوٹی سی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ جناب عمران خان نے اپنی رہائی اور مطالبات کو منوانے کے لیے جس دن بیلاروس کا وفد پاکستان پہنچ رہا ہے،یعنی 24نومبر 2024کو احتجاج کی فائنل کال دینے اور اسلام آباد کے مشہور ڈی چوک میں دھرنا دینے کا حکم دیا ہے۔

اس اعلان کے ساتھ ہی پشاور کے علاوہ خیبر پختون خواہ کے دوسرے شہروں میں اسلام آباد پر چڑھائی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ساتھ ہی حکومتِ پاکستان نے بیلا روس کے صدر کو پاکستان میں خوش آمدید کہنے اور ان کے دورے کو ایک اچھی Opportunityمیں تبدیل کرنے کی تیاری شروع کر دی۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بہت نقصان اُٹھایا۔بیرونی ممالک سے سربراہان و و فود کی آمد اور سرمایہ کاری کم سے کم تر ہوتی گئی۔

خدا خدا کر کے پچھلے کچھ عرصے میں یہ منفی ٹرینڈ ختم ہونا شروع ہوا۔SCOکانفرنس کے پاکستان میں کامیاب انعقاد اور اسی موقع پر چین کے وزیرِ اعظم کے دورہ سے یہ امید ابھری کہ اب پاکستان اقوامِ عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو گا۔بیلاروس کے صدر کا دورۂ پاکستان ایسی ہی ایک بہت مثبت پیش رفت ہے۔

بیلا روس مشرقی یورپ کا ایک اہم ملک ہے۔ یہ ملک سوویت یونین کا ایک حصہ تھا۔1990میں سوویت یونین بکھر گیا اور اس کی کوکھ سے کئی ممالک نے جنم لیا جن میں بیلاروس بھی شامل ہے۔اس کا دارالحکومت منسکMINSK اور اس کا کل رقبہ 202910کلو میٹر ہے۔اس کی آبادی کا تخمینہ 92 لاکھ افراد ہے۔بیلاروس میں صدرِ مملکت ریاست اور حکومت دونوں کا سربراہ ہوتا ہے۔

صدر کا یہ منصب 1994میں پیدا کیا گیا جب بیلاروس کا آئین منظور ہوا۔اس سے پہلے سپریم کونسل کا چیئرمین ہی سربراہ ہوتا تھا ،صدر کا انتخاب 5سال کے لیے ہوتا ہے اور کوئی بھی دو مرتبہ سے زیادہ صدر نہیں بن سکتا لیکن جناب الیگزانڈر لوکا شنکو پچھلے 30 سال سے مسلسل صدر چلے آ رہے ہیں،َ وہ بہت آہنی ہاتھوں سے حکومت کر رہے ہیں اسی لیے یورپ میں ان کو یورپ کا آخری ڈکٹیٹر کہا جاتا ہے۔

24اکتوبر کو ادھر پی ٹی آئی کا احتجاجی قافلہ وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں پشاور سے روانہ ہوا،ادھر شاید ایک دو گھنٹوں کے فرق سے بیلا روس کا 68 رکنی وفد اسلام آباد پہنچ گیا۔یہ ایک بہت اعلیٰ سطح کا وفد تھا جس میں خارجہ امور کے وزیر،توانائی، صنعت،مواصلات،قدرتی وسائل، اور ہنگامی حالات کے وزرا پاکستان پہنچے۔ وفد میں بڑی بڑی کاروباری شخصیات اور ملٹری انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے اہلکارتھے۔

بیلا روس کے وزراء نے پاکستان میں اپنے ہم منصب وزراء سے ملاقات اور مذاکرات کیے۔بیلا روس کے وزیرِ خارجہ نے اسلام آباد میں پاکستان کے دفترِ خارجہ کا دورہ کیا جس میں اسحاق ڈار اور دفترِ خارجہ کے افسران سے مذاکرات کر کے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے طریقوں کا جائزہ لیا ۔دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی موجودگی میں کئی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔25نومبر کی شام جب پی ٹی آئی مظاہرین اسلام آباد پہنچ رہے تھے بیلاروس کے صدر جناب الیگزانڈر لوکا شنکو اسلام آباد پہنچے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا۔ منگل کی دوپہر جناب لوکا شنکو اور شہباز شریف کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے درمیان15مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔دونوں ملکوں میں جامع تعاون کے روڈ میپ2025-27 پر وفاقی وزیر تجارت جام کمال صاحب اور بیلاروس کے وزیرِ توانائی الیکسی نے دستخط کیے ،اسی طرح الیکٹرانک کامرس تعاون، سائنس و ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں تعاون کے علاوہ متعدد شعبوں میں تعاون کو بھی آگے بڑھایا گیا۔

اس موقع پر صدر لوکا شنکو اور شہباز شریف نے آفیشل اسٹیٹمنٹ دیتے ہوئے باہمی تعاون اور تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اظہارکیا۔صدر لوکا شنکو نے آفیشل اسٹیٹمنٹ کے بعد پاکستان میں جاری کشیدگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جو انتشار سے بچتے ہوئے باہم مربوط اور متحد ہوں۔بیلا روس کے صدر اور ان کے اعلیٰ سطح کے وفد کا دورہ اس حوالے سے قابلِ ستائش ہے کہ انھوں نے اسلام آباد میں جاری انتہائی کشیدہ صورتحال میں اپنے دورے کو جاری رکھا۔وہ ان برے حالات میں دورے کو ملتوی بھی کر سکتے تھے۔

اسلام آباد کے ریڈ زون میں جس وقت انتہائی اہم سفارتی سرگرمیاں جاری تھیں اور دونوں ممالک کے وفود کے درمیاں اعلامیہ فائنل کیا جا رہا تھا،پی ٹی آئی مظاہرین بلیو ایریا میں داخل ہو گئے۔سارا دن مظاہرین اور پولیس و رینجرز کے دستوں کے درمیاں جھڑپیں جاری رہیں۔اس سے پہلے ایک پولیس اہلکار اور تین رینجرز اہلکار مظاہرین کے ہاتھوں شہادت پا چکے تھے۔احتجاجی مظاہرین بھی مسلح تھے۔

مظاہرین نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔بلیو ایریا میں درختوں اور تنصیبات کو آگ لگا دی گئی۔بشریٰ بی بی اپنے کنٹینر پر کھڑی ورکروں کو آگے ڈی چوک جانے کا کہہ رہی تھی۔وہ لوگوں کے جذبات کو ابھارتے ہوئے اس وقت تک خود ثابت قدم رہنے کی یقین دہانی کرا رہی تھی جب تک بانی پی ٹی آئی کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔ منگل کی رات پولیس اور رینجرز نے آپریشن شروع کیا تو مظاہرین بھاگ کھڑے ہوئے۔ بشریٰ بی بی جو اس وقت قیادت سنبھالے ہوئے تھی وہ بھی اپنے کنٹینر کو چھوڑ کر علی امین گنڈاپور کے ساتھ رفو چکر ہو گئی۔بشریٰ بی بی نے شاید زندگی میں پہلی بار اپنے ارد گرد ہجوم دیکھا تھا،تو جذباتی ہو گئی اور صحیح فیصلے نہ کر سکی۔

اگر وہ اور علی امین گنڈاپور اسلام آباد میں پریڈ گراؤنڈ،پشاور موڑ یا کسی دوسری جگہ دھرنا دے دیتے اور مذاکرات کرتے تو حکومتی کمزوری سے فائدہ اٹھا کراپنے مقاصد میں سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کر لیتے۔بلیو ایریا میں داخل ہو کر اور مار دھاڑ کر کے انھوںنے حکومت کو موقع فراہم کیا کہ وہ آہنی ہاتھوں سے نبٹے۔علی امین گنڈاپور بھی وقار نہیں دکھا سکے۔وہ ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ ہیں ۔ان کو احتجاج کرتے ہوئے بھی احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔اس سارے قضیئے میں ایک بات آشکار ہو گئی کہ بشریٰ بی بی بین الاقوامی امور کی سمجھ بوجھ سے بالکل نا بلد ہے۔

حکومتِ پاکستان ہر احتجاج کے موقع پر شہروں کو بند کر دیتی ہے۔جگہ جگہ کنٹینرز کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے لیکن2014سے اب تک یہ رکاوٹیں مظاہرین کو روک نہیں سکیں،البتہ عام آدمی کی مشکلات میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔مریض اسپتال نہیں پہنچ سکتے،طلباء اسکول نہیں جا سکتے،ملازم حضرات دفتر نہیں پہنچ پاتے اور تجارت و کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے۔ہر دفعہ یہ رکاوٹیں ریت کی دیوار ثابت ہوئی ہیں۔مظاہرین ہر دفعہ ڈی چوک تک پہنچ جاتے ہیں۔کنٹینرز کا ایک بڑا کرایہ بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔

اگر حکومت مظاہرین کو اسلام آباد پہنچنے سے نہیں روک سکتی تو عوام کو تو مشکلات میں نہ ڈالے۔پی ٹی آئی کو بھی روز روز کی کال دینے سے اجتناب کرنا چاہیے خاص کر اس وقت جب کوئی معزز سربراہِ مملکت پاکستان دورے پر ہو۔پی ٹی آئی کے اس ناکام احتجاج سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی دور ہو گئی ہے۔

شاید اب مئی2025کے بعد ہی یہ ممکن ہو لیکن یہ ضرور ہے کہ جناب بانی پی ٹی آئی کا بیانیہ مقبول ہے اور پی ٹی آئی ورکر انتہائی پرجوش ہے۔حکومت کے پاس بیانیہ ہے ہی نہیں۔پاکستان اور عوام نقصان اٹھا رہے ہیں۔کاش جو کچھ ہوا،یہ سب نہ ہوا ہوتا اور سیاسی رہنما ء مل بیٹھ کر مسائل حل کر لیتے اور پاکستان کے عوام کو خوشحالی کی نوید سناتے۔

Load Next Story