کیا سیاسی استحکام آگیا؟
تحریک انصاف کی فائنل کال کی ناکامی کے بعد ایک سوال سب پوچھ رہے ہیں کہ کیا اب ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا۔ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ تحریک انصاف کی مسلسل احتجاجی سیاست 2014سے شروع ہے اور تب سے ہی پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
اس دوران تحریک انصاف اپوزیشن سے حکومت میں بھی آگئی۔ بانی تحریک انصاف وزیر اعظم بھی بن گئے لیکن تحریک انصاف نے جان بوجھ کر ملک میں سیاسی عدم استحکام قائم رکھا۔ انھوں نے بطور اپوزیشن حکومت کو کام نہیں کرنے دیا اور جب وہ خود حکومت میں آگئے تو کام کرنے کی بجائے اپوزیشن سے بے وجہ لڑائی جاری رکھی۔ جس کی وجہ سے عدم استحکام جاری رہا۔ انھیں اپوزیشن مفاہمت کے پیغام بھیجتی رہی لیکن وہ لڑنے کے اعلانات کرتے رہے۔
اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 2013 سے جب تحریک انصاف کو پاکستان کی سیاست میں ایک انٹری ملی ہے‘ تحریک انصاف نے کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کا شکار ہی رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کا بھی بہت نقصان ہوا ہے۔
جب بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم بن گئے تو اپوزیشن کو جان سے مارنے کی خواہش انھیں لے ڈوبی۔ ایک اپوزیشن جس کو انھوں نے اسٹبلشمنٹ کی مدد سے شکست دے دی تھی وہ اس کو زندہ رہنے کا حق بھی دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ گالم گلوچ کی سیاست اور ہر وقت محاذ آرائی ہی پی ٹی آئی کی وزارت عظمیٰ کا اہم موضوع رہا۔ انھوں نے خود ایک لمحہ سکون سے گزارا اور نہ ہی اپنے مخالفین کو سکون کرنے دیا۔ اپوزیشن کو ختم کرنے کی خواہش نے ان کو جکڑ رکھا تھا۔ وہ ملک میں اکیلے سیاست کرنے کے خواہاں تھے۔ اس لیے سب سے لڑ رہے تھے۔ وہ اکیلے تھے اور سب دوسری طرف تھے۔
ان کی سیاسی تنہائی ان کی سب سے بڑی دشمن بن گئی ۔ اور یہی سیاسی تنہائی آج بھی ان کی دشمن ہے۔ نہ وہ کسی کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں اور نہ کوئی ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہے۔ وہ کل بھی اکیلے تھے، آج بھی اکیلے ہیں۔ کل بھی تنہائی ان کی شکست کی وجہ تھی، آج بھی تنہائی ان کی شکست کی وجہ ہے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ 26نومبر کی ناکامی کے بعد کیا ملک میں سیاسی استحکام آگیا۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کو ختم کرنے کے لیے جس بڑی ناکامی کی ضرورت تھی وہ تحریک انصاف کو مل گئی ہے۔ آج کیا صورتحال ہے۔
آج تحریک انصاف کا اپنا کارکن اپنے لیڈروں کو کوس رہا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے کارکن کو جس گالم گلوچ کی ٹریننگ دی تھی آج تحریک انصاف کی قیادت خود اس کا شکار ہے۔ کل تک وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کہتے تھے کہ یہ عوام میں نہیں نکل سکتے تھے‘ آج تحریک انصاف کی قیادت بھی اپنے لوگوں میں نہیں نکل سکتی۔ ان کے اپنے لوگ ان کے مخالف ہو گئے ہیں۔ اس لیے کیا اب ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا۔
تحریک انصاف کو اپنے اندر کے معاملات کو ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا؟ انھیں اپنے کارکن کو قائل کرنے میں وقت لگے گا؟ انھیںکارکن کو منانے میں وقت لگے گا۔ ان کے کارکن کا جو نقصان ہو گیا ہے وہ ابھی اس کا ذمے دار اپنی قیادت کو ہی سمجھ رہے ہیں۔
اس لیے قیادت اور کارکن کے درمیان اس فاصلے کو بھرنے میں وقت لگے گا۔ اس لیے ایک رائے یہ ہے کہ اب تحریک انصاف میں ملک میں جلد دوبارہ کوئی احتجاجی کال دینے کی طاقت نہیں ہے اس لیے استحکام آگیا ہے۔ جب سڑکوں پر احتجاج نہیں ہوگا تو استحکام رہے گا۔ حکومت کو کام کرنے کا موقع ملے گا، احتجاج حکومت کو کام بھی نہیں کرنے دیتا۔
سب یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف اگلی کال کب دے گی۔ اگلا دھرنا کب ہوگا۔ دوبارہ ڈی چوک کی کال کب ہوگی۔ یہ درست ہے کہ گنڈا پور نے اعلان کیا ہے کہ ان کا دھرنا جاری ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دھرنا ختم ہو گیا ہے۔ گنڈا پور اور بشریٰ بی بی دونوں گھر جا چکے ہیں۔
لوگ گھر جا چکے ہیں۔ باقی گرفتار ہو گئے ہیں۔ اس لیے دوبارہ کال دینا ممکن نہیں۔ اب کارکنان میں دوبارہ اسلام آباد جانے کی ہمت ہی نہیں ہے۔ اس لیے اب جلد ہی دوبارہ کال ممکن نہیں۔ لیکن جواب میں یہ دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ نو مئی کے بعد بھی ایسا ہی ماحول تھا۔ نو مئی کے بعد بھی تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ تحریک انصاف نے دوبارہ احتجاجی سیاست کی طاقت پکڑ لی ہے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نو مئی کے بعد تحریک انصاف اس قدر کمزور ہو گئی ہے کہ اب پنجاب میں کسی بھی قسم کا احتجاج کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ فائنل کال میں بھی تحریک انصاف کے لوگ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ پنجاب سے کسی نے شمولیت نہیں کی، پنجاب سے کوئی نہیں آیا۔
پنجاب میں تحریک انصاف کی قیادت اب کسی بھی قسم کے احتجاج کی طاقت ہی نہیں رکھتی۔ نو مئی نے پارٹی کی احتجاجی طاقت ختم کر دی ہے۔ کیا فائنل کال کی ناکامی کے بعد کے پی میں بھی احتجاجی سیاست کا پنجاب کی طرز پر خاتمہ ہو گیا ہے؟ کیا اب کے پی میں پنجاب جیسے حالات ہو گئے ہیں؟ پنجاب میںکارکنان بھی لیڈر شپ سے ناراض ہیں اور اسے لیڈر شپ پر اعتماد نہیں۔ کیا اب کے پی میں بھی اسے لیڈر شپ پر اعتماد نہیں اور وہ ان کی کال پر نہیں آئے گا۔
آج کل تحریک انصاف کے اندر ایک بات اور بہت چل رہی ہے کہ کے پی کا تو کوئی مینڈیٹ چوری نہیں ہوا۔ کے پی میں تو تحریک انصاف دو تہائی کی اکثریت سے جیتی ہے۔ جب کے پی کا کوئی مینڈیٹ چوری ہی نہیں ہوا تو کے پی کے لوگ احتجاج کس بات پر کر رہے ہیں۔
پنجاب کے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے۔ اس لیے پنجاب کے لوگ احتجاج کیوں کریں۔ کے پی کے لوگ خوامخواہ پنجاب کے لیے سڑکوں پر کیوں ہیں۔ جب پنجاب کے لوگ سڑکوں پر نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ کے پی کے لوگ کیوں احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کی تو حکومت ہے۔ پنجاب میں سکون ہے۔
بہر حال یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اب ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا۔ دھرنوں کی سیاست کا فی الحال خاتمہ ہوگیا ہے۔ اب فوری کوئی نئی کال نہیں ہو گی۔ سیاسی ہیجان ختم ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کو سڑکوں سے واپس پارلیمان کی جانب آنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
اب پارلیمانی سیاست ہو گی۔ تحریک انصاف سڑکوں کی بجائے پارلیمان میں احتجاج کرسکتی ہے۔ لیکن سڑکوں پر امن ہوگیا ہے۔ اگر ایک سال تک سڑکوں پر امن رہتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے بہتر ہے۔ پاکستان بھی اب مزید ایسے احتجاج کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے سیاسی استحکام کی امید کی جا رہی ہے۔