ناکام یلغار
’’ بیلارُوس کے صدر کی کیا حیثیت ہے پاکستان کے لیے ؟خود بیلارُوسی صدر کی کیا اہمیت ہے؟ وہ تو خود ڈکٹیٹر ہے ۔ اگر وہ پاکستان آ ہی گیا ہے تو کیا ہے ؟۔‘‘ یہ الفاظ جناب فواد چوہدری کے ہیں ۔ پی ٹی آئی کی سابق مرکزی حکومت کے ایک سابق مرکزی وزیر۔ 24نومبر 2024کو مشرقی یورپ کے انتہائی اہم ملک، بیلارُوس ، کے صدر، جناب الیگزینڈر لوکا شینکو، تین روزہ سرکاری دَورے پر پاکستان آئے تھے ۔
اُن کے ساتھ68رکنی انتہائی اہم وفد بھی تھا ۔ اس وفد میں کئی مرکزی وزرا ، عسکری عمائدین اور سرمایہ کار بھی شامل تھے ۔ اور اُسی تاریخ کو محترمہ بشریٰ بی بی اور جناب علی امین گنڈا پور کی قیادت میں پی ٹی آئی وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد، پر یلغار کررہی تھی ۔
ہر طرف پشیمانی اور پریشانی کے آثار اور مظاہر تھے ۔ زیادہ پریشانی یہ تھی کہ بیلارُوس کے صدر صاحب اور اُن کے ساتھ آیا محترم وفد اسلام آباد کی دگرگوں صورتحال کے بارے میں کیا سوچیں اور خیال کریں گے ؟ اِسی پس منظر میں فواد چوہدری صاحب سے ایک نجی ٹی وی کے اینکر نے سوال پوچھا تھا ۔ جواب جو دیا گیا ، اُس کا ذکر اوپر کر دیا گیا ہے ۔
فواد چوہدری کے جواب سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی سینئر لیڈرشپ وطنِ عزیز میں آنے والی غیر ملکی اہم شخصیات اور اہم سرمایہ کاروں کے بارے میں کس زاویئے سے سوچتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیلارُوس کے صدر عام مفہوم میں ڈکٹیٹر ہیں ، گزشتہ تین عشروں سے بیلارُوس کی صدارت پر جمے ہُوئے ہیں ، پاکستان آنے سے پہلے اُنھوں نے کئی سیاسی قیدی بھی رہا کیے لیکن پاکستان کے لیے اہم ترین بات تو یہ ہے کہ بیلارُوس کے صدر پاکستان کے لیے نہائت اچھے خیالات و جذبات رکھتے ہیں ۔
وہ کھلے دل سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی نیت سے پاکستان تشریف لائے تھے۔ ہمیں توپاکستان کے مفادات زیادہ عزیز ہونے چاہئیں۔ ہمیں اُن کے سیاسی نظریات سے کیا لینا دینا؟ اور اگر وہ ڈکٹیٹر اور غیر جمہوری شخص ہیں بھی تو کیا پاکستان رُوس اور چین ایسے اہم ترین ممالک اور اُن کے صدور سے تمام تعلقات منقطع کرلے ؟ کیا پاکستان کے لیے کمونسٹ اور غیر جمہوری چین کی کوئی اہمیت نہیں ہے ؟ اور کیا رُوس اور چین کے صدور کے لیے بھی فواد چوہدری صاحب کے وہی خیالات و احساسات ہیں جو وہ بیلارُوس کے صدر بارے بیان کر چکے ہیں؟
کوئی حد ہوتی ہے! کیا پی ٹی آئی کی تقدیر اور قسمت میں قدرت و فطرت نے یہ رقم کر دیا ہے کہ جب بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی غیر ملکی صدر یا وزیر اعظم قدم رکھے یا جب بھی وطنِ عزیز میں کوئی اہم ترین سیاسی و سرمایہ کاری کی کانفرنس کا انعقاد ہو، پی ٹی آئی بطورِ جماعت اور پی ٹی آئی کے جملہ وابستگان، مع قیادت، عین اُسی وقت اور انھی ایام میں پورے ملک میں اُدھم مچانا شروع کر دیں؟اِس ضمن اور فہرست میں کئی واقعات و سانحات پی ٹی آئی کی احتجاجی تاریخ میں لکھے جا چکے ہیں : خواہ چینی صدر ژی جن پنگ کا دَورۂ پاکستان ہو، بعد ازاں چینی وزیر اعظم لی کیانگ کا وزٹ ہو،پھر شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم عالمی اجلاس ہو یا اَب بیلارُوس کے صدر، الیگزینڈر لوکا شینکو، کا تازہ ترین دَورہ ۔ ہر بار موقع کی بین الاقوامی نزاکت کے پیشِ نظر پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی و گروہی مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے ملک میں اور خاص طور پر اسلام آباد میں دھماچوکڑی مچائی اور ملک کا مذاق بنایا ۔ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی نے احتجاج نما اِن دھماچوکڑیوں سے شائد یہ راز پالیا ہے کہ وہ یوں حکام اور اسٹیبلشمنٹ کو بآسانی ایکسپلائیٹ کر سکتے ہیں ۔ اِس طرزِ احتجاج سے پی ٹی آئی نے یقیناً کچھ مفادات بھی حاصل کیے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنے حصے میں کئی بدنامیاں بھی سمیٹ لی ہیں ۔
24نومبر کی یلغار تو سرخ لکیر کو عبور کرنے کے مترادف قرار دی گئی ہے ۔ اِس یلغار کے سامنے بند باندھنے اور اِسے روکنے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ پورا پنجاب ہی کنٹینروں میں محصور کر دیا گیا۔ خاص طور پر اسلام آباد کے مکینوں کی زندگیاں تو اجیرن بنا دی گئیں۔ یہ تماشہ اب اسلام آباد میں روز لگنے لگا ہے ۔
کبھی کوئی شدت پسند مذہبی جماعت اپنے مطالبات منوانے کے لیے اسلام آباد پرچڑھ دوڑتی ہے اور کبھی کوئی سیاسی جماعت۔ پی ٹی آئی تو اِس بار نئے انداز واطوار کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہُوئی ۔ دعوے اور اعلان یہ تھے کہ اپنے قائد اور بانی کو چھڑا کر لے جائیں گے ۔
اِس یلغار کے پس منظر میں تین چار بڑے بڑے مطالبات بھی حکمرانوں کے سامنے رکھے گئے۔ ہر مطالبہ اگر ناقابلِ قبول نہیں تھا تو کم از کم مشکل ضرور خیال کیا گیا۔ اِس تازہ ترین یلغار کی بڑی انفرادیت یہ تھی کہ سابق خاتونِ اوّل، بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی نے اِس یلغار میں شامل ’’لشکریوں‘‘ کی کمان سنبھال رکھی تھی ۔
محترمہ بشریٰ بی بی کا سیاست میں دَر آنا پاکستانی سیاست کا پہلا ، انوکھا اور منفرد واقعہ نہیں ہے ۔ قائد اعظم ؒ کی قیادت و سیادت میں کئی مسلمان خواتین نے تحریکِ پاکستان میں ولولہ انگیز کردار ادا کیا ۔ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے ایک ملٹری ڈکٹیٹر کے بالمقابل بڑی جرأت و استقامت کے ساتھ سیاست میں قابلِ فخر حصہ لیا ۔ سابق خاتونِ اوّل، محترمہ نصرت بھٹو، نے بھی ایک دوسرے ملٹری ڈکٹیٹر کے خلاف پاکستانی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا ۔
دوسری خاتونِ اوّل، محترمہ کلثوم نواز شریف،نے بھی پاکستان کے تیسرے ملٹری ڈکٹیٹر کے خلاف شاندار اسلوب میں سیاسی کردار ادا کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو تو ڈکٹیٹروں کے خلاف دیوانہ وار سیاست کرتیں کرتیں شہید ہو گئیں۔ بیگم نصرت بھٹو اور بیگم کلثوم نواز اس لیے میدانِ سیاست میں اُتری تھیں کہ آمروں نے اُن کے سابق وزیر اعظم شوہروں کو جیلوں میں قید کررکھا تھا ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ محترمہ بشریٰ بی بی کو بھی ، پسِ پردہ رہتے ہُوئے ، اب اس لیے میدانِ سیاست کے خار زار میں کودنا پڑا ہے کہ اُن کا شوہر پچھلے ڈیڑھ سال سے پسِ دیوارِ زنداں پڑا ہے۔
بشریٰ بی بی صاحبہ کا سیاست میں کودنا اس لیے زیادہ کھٹکتا محسوس ہورہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے ہمیشہ اپنی پارٹی کی قیادت کو موروثیت سے دُور رکھنے کی تبلیغ و تلقین کی ہے۔ حالات نے مگر اُن کے اقوال کو غلط ثابت کر دیا ہے۔پی ٹی آئی کی ’’وارث‘‘ بن کر محترمہ بشریٰ بی بی اب محض ایک گھریلو خاتون نہیں رہیں۔ اب وہ ہماری متحرک سیاست کا ایک نمایاں نام بن چکی ہیں۔
سیاست میں اپنی اینٹری ڈالتے ہی مگر اُن سے بعض ایسے معاملات ’’سرزَد‘‘ ہُوئے جنھوں نے اُن کی نَو مولود سیاست و قیادت پر سائے ڈال دیے ہیں ۔ ملفوف انداز میں موصوفہ کا پاکستان کے ایک قریبی اور محسن مسلمان ملک بارے بیان نے دونوں ممالک کے تعلقات کو سخت زَک پہنچائی ہے ۔ یہ دھچکا اس قدر شدید تھا کہ وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، کو معاملات سنبھالنے اور ڈیمیج کنٹرول کے لیے میدان میں آنا پڑا ۔اور اب پی ٹی آئی کے اسلام آباد پر اندھی یلغار کے موقع پر اچانک بشریٰ بی بی کا علی امین گنڈا پور کو پیچھے دھکیل کر کمان سنبھالنا سب کو حیران اور ششدر کر گیا ہے ۔
پشاور تا اسلام آباد اُن کے خطابات نے احتجاجیوں کے دلوں کو خوب گرمایا ۔ پی ٹی آئی کی پیدا کردہ قیامت خیز ’’گہما گہمی‘‘ میں اندازہ تھا کہ سابق خاتونِ اوّل اپنا مقصد و ہدف یقیناً حاصل کرلیں گی ۔ محترمہ بشریٰ بی بی کو مگر اپنی یلغار کے مقابل جب سرکاری یلغار کا سامنا کرنا پڑا تو وہ دل اور میدان چھوڑ گئیں ۔ شائد اِسے ہی کہتے ہیں: سر منڈاتے ہی اولے پڑے!