معاشی بہتری کی نوید
اسٹیٹ بینک کے مطابق سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر میں گزشتہ ہفتے کے دوران 13 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب کے ایس ای 100 انڈیکس نے تاریخی سنگ میل عبور کرتے ہوئے ایک لاکھ پوائنٹس کی سطح عبور کر لی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ معاشی ٹیم کی سرمایہ کاری کے فروغ کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔
بلاشبہ پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہو رہی ہے، خسارے میں کمی آرہی ہے، قرضوں کی ادائیگی بروقت ہورہی ہے، مثبت اشاریے حکومت کی موثر پالیسیوں کے ثمرات ہیں، ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔ معیشت کو جانچنے کے کئی اشاریے اِس حوالے سے مثبت پیغام دے رہے ہیں، سب سے اہم اشاریہ اسٹاک مارکیٹ انڈکس ہے، جو ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبورکر چکا ہے، یہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ظاہرکرتا ہے۔ انڈیکس کا مثبت رجحان آنے والے دِنوں میں مثبت معاشی سرگرمیوں کا عکاس ہے۔
ہماری اسٹاک مارکیٹ خطے کی بہترین کارکردگی دکھانے والی مارکیٹوں کی فہرست میں اولین پوزیشن پر ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کی بہترین کارکردگی میں لوکل سرمایہ دار ہی نہیں، بلکہ کارپوریٹ سیکٹر اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی شامل ہے۔ پی ایس ایکس میں تیزی کے حوالے سے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بازار حصص میں تیزی اور بلندی کے ریکارڈز ملک کی معاشی بہتری کی نوید ہے۔ پاکستان کی معاشی اور اقتصادی پالیسیاں درست سمت میں جا رہی ہیں، جس کے نتائج معیشت میں نمایاں بہتری کے حامل ہوں گے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ اسٹیٹ بینک سے جاری اعداد و شمار کے مطابق زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں گزشتہ ہفتے کے دوران 13 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کے اضافے سے سرکاری ذخائر 11 ارب 41 کروڑ 85 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں۔ مرکزی بینک کے مطابق کمرشل بینکوں کے پاس 4 ارب 65 کروڑ 77 لاکھ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں، 22 نومبر کو زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مالیت 16 ارب 7 کروڑ 62 لاکھ ڈالرریکارڈ کی گئی۔
آئی ایم ایف کے ساتھ تین سالہ پیکیج کے اجراء سے پاکستانی معیشت کی آؤٹ لک میں جو بہتری آئی ہے وہ معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی صورت میں ڈھل رہی ہے۔ دوسری طرف ہماری مالیاتی اور زری پالیسیوں نے بھی معیشت کو بیک آن ٹریک لانے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ شرح سود بائیس فیصد کی بلند ترین سطح سے گھٹ کر پندرہ فیصد تک آگئی ہے۔ ماہرین کے مطابق جاری مالی سال کے آخر تک شرح سود مزید کمی لائی جائے گی۔ شرح سود میں کمی ایک انتہائی مثبت اشاریہ ہے، جو معیشت کے مضبوط ہونے کا عکاس ہے، شرح سود میں کمی سرمایہ کاری کے رجحانات کے فروغ کا باعث بنے گی۔
شرح سود میں کمی اور مسلسل کمی ایک مثبت عمل ہے جو آنے والے وقتوں میں معاشی تیز روی اور کھلے پن کو ظاہر کرے گا۔ اِس سے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے اور رسد میں بہتری کے باعث اشیاء کی قیمتوں میں کمی بھی دیکھنے میں آئے گی۔
ویسے عمومی سطح پر مہنگائی میں کمی آ رہی ہے، اشیاء کی قیمتیں تسلسل کے ساتھ کمی کے رجحان کو ظاہر کر رہی ہیں، پیداواری عمل میں تیزی آنے کے بعد اور رسد میں بڑھوتی ہو گی جس سے قیمتوں میں مزید کمی ہوگی۔ پیداواری عمل کے بڑھنے سے برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا، زرمبادلہ کی یافت میں بہتری سے توازن تجارت اور ادائیگیوں کے میزان میں مثبت رجحانات غالب آئیں گے، معاشی استحکام پیدا ہو گا۔
اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق قومی معیشت کا 40 فیصد حصہ غیر رسمی کاروباری سرگرمیوں پر مشتمل ہے جب کہ ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق غیر رسمی معیشت کا حجم تقریبا 457 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ معیشت کے اتنے بڑے غیر دستاویزی حصے کو باضابطہ بنانے کے لیے اقدامات پر عمل درآمد نہ صرف معاشی سرگرمیوں کی شفافیت میں اضافہ کرے گا بلکہ اس سے ٹیکس میں جی ڈی پی کے تناسب سے نمایاں اضافہ بھی یقینی ہے۔
معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو ٹیکس قوانین کو آسان بنانے اور کاروباری اداروں کے خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے سازگار ٹیکس کا نظام متعارف کرانا ضروری ہے، اس حوالے سے موثر اقدامات سے نہ صرف آئی ایم ایف جیسے عالمی قرض دہندگان پر انحصار کم ہو گا بلکہ بنیادی ڈھانچے اور سماجی شعبے کے ترقیاتی منصوبوں کے آغاز میں بھی سہولت ہو گی۔
برآمدات کو متنوع بنانا، بالخصوص ٹیکنالوجی برآمدات میں اضافہ معیشت کو نمایاں طور پر مضبوط کر سکتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت سماجی تحفظ کے مضبوط نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے عدم مساوات اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور خوراک کی حفاظت کے لیے ایک جامع فلاحی نظام کو نافذ کرنے سے غریب ترین افراد کا معیارِ زندگی بہتر ہو سکتا ہے۔ غیر مشروط نقد رقم کی منتقلی اور یونیورسل ہیلتھ کیئر جیسے پروگرام نہ صرف لوگوں کو غربت سے نکال سکتے ہیں بلکہ جرائم کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوں گے اور طویل مدت میں پیداواری صلاحیت میں اضافہ کریں گے۔
تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت معاشی آزادی کے لیے ازحد اہم ہے۔ پاکستان کو تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت بالخصوص ٹیک اور جدید زراعت میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینی چاہیے۔ ان مواقع کی فراہمی سے حکومت نوجوانوں کو زیادہ آمدنی والی صنعتوں میں حصہ لینے، برین ڈرین کو کم کرنے اور اپنے شہریوں کو مجموعی آمدن میں اضافے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس سے غربت میں کمی آئے گی اور قرضوں پر انحصار کم ہو گا جس سے معاشی ترقی کی رفتار بڑھے گی۔
بار بار بیرونی امداد پر انحصار سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنی دائمی ساختی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا۔ معاشی اصلاحات جو بیان تو کی گئی ہیں لیکن ابھی تک نافذ نہیں کی گئیں، ان میں منصفانہ اور وسیع بنیاد پر ٹیکس کا ڈھانچہ بنانا، غیر ضروری حکومتی افعال کو کم کرنا، صوبوں کی مالی خود مختاری کو فروغ دینا، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کرنا اور ایک مضبوط توانائی کے شعبے کی ترقی شامل ہیں۔
یہ اقدامات بلند نظر آ سکتے ہیں، لیکن یہ اقتصادی خود انحصاری کے لیے ضروری ہیں، اگر پاکستان روایتی طور پر غیر محصل شعبوں جیسے رئیل اسٹیٹ اور زراعت کو ٹیکس کے دائرے میں نہیں لاتا، تو اس کا مالیاتی خسارہ صرف بڑھتا جائے گا۔ اگر خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری نہیں کی جاتی، تو عوامی شعبہ ان وسائل پر بوجھ بنا رہے گا جنھیں صحت، غذائیت، تعلیم، اور انفرا اسٹرکچر جیسے اہم شعبوں میں منتقل کیا جانا چاہیے، اگر معیشت کو مؤثر اور ڈی ریگولیٹڈ نہ کیا جائے، تو نجی سرمایہ کاری اور پیداواریت کے لیے رکاوٹیں بدستور موجود رہیں گی، جس سے پاکستان مصنوعی طور پر بڑھتی ہوئی، غیر پائیدار ترقی کے چکر میں قید ہو جائے گا۔
کچھ باتیں ایسی ہیں جو کتابی ہیں نظری ہیں عملی طور پر ان کا نفاذ ممکن نہیں ہے،کیونکہ ہمارے ہاں زمینی حقائق ایسا کچھ کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں یہاں پاکستان میں ہر شعبے میں ہر سطح پر مافیاز کا راج ہے، یہ مافیاز اس قدر طاقتور ہیں کہ ان کی طاقت حکومت سے بھی زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی ایگریکلچرل کی بہتری کے بارے میں کچھ کیا جاتا ہے تو اس کے فائدہ زرعی شعبے کا مافیا لے جاتا ہے۔ کسان کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے فوائد یہی مافیا لے جاتا ہے، کسان کی حالت پہلے جیسے ہی رہتی ہے۔
ہماری قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ23فیصد ہے، یعنی ہم اگر 100روپے کماتے ہیں تو اس میں 23 روپے زرعی شعبے سے حاصل ہوتے ہیں اس طرح یہ سب سے بڑا شعبہ قرار پاتا ہے ہماری کام کرنے والی آبادی کا غالب حصہ، شعبہ زراعت سے منسلک ہے، لیکن اس شعبے کے عاملین کی حالت انتہائی مخدوش ہے، بڑی بڑی زمینوں پر قابض زمیندار، جاگیردار سانپ بنے بیٹھے ہیں۔
بیان کردہ معاشی بہتری کے اشاریے درست و حقیقی ہیں ان سے کلی معیشت میں بہتری آنے لگی ہے، لیکن اس بہتری و بڑھوتی کے مثبت اثرات عوامی معیشت پر محسوس نہیں ہو رہے۔ ڈالر کی قیمت میں استحکام، شرح سود میں کمی اور سی پی آئی میں کمی درست ہے، لیکن عام آدمی ابھی تک بجلی، گیس اور توانائی کے ذرایع کی بھاری بھر کم قیمت تلے دبا ہوا ہے، اس کی معیشت ان اشیاء کی قیمتیں ادا کرنے میں ہلکان ہو رہی ہے۔
بین الاقوامی قرض دہندگان کے ساتھ مضبوط اور مستحکم شراکت داری کی ضرورت بے شک ہے، لیکن یہ شراکتیں پائیدار ترقی کی بنیاد پر ہونی چاہئیں، نہ کہ انحصار کی موجودہ صورتحال کی استوار کی جانی چاہیے۔ اگر پاکستان کو اپنے بیرونی امداد پر انحصار سے نجات حاصل کرنی ہے، تو اسے آسان ترقی کے خواب کو ترک کرنا ہوگا اور ایسی معیشت کی تعمیر کے لیے پرعزم ہونا ہوگا جو لچک، ذمے داری اور اصلاحات پر مبنی ہو۔