ملک کے ناکارہ نظام تباہی میں ڈگریوں کے ذریعے جو تباہی پھیلائی گئی اس کے ذمے دار سیاستدان بھی ہیں جن کی اکثریت اپنے علاقوں میں تعلیم کے حصول کے خلاف ہیں اور وہ صرف اپنے خاندان کی اعلیٰ تعلیم پر یقین رکھتے ہیں اور انھیں صرف اپنی اولاد اور خاندان کی تعلیم سے ہی دلچسپی ہے جنھیں وہ ملک کے بڑے شہروں کے مشہور و معروف مہنگے تعلیمی اداروں میں یا ملک سے باہر اعلیٰ تعلیم دلانے پر یقین رکھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کے حلقے میں کوئی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ان کے مقابلے میں آئے۔
ہمارے ملک کی اکثریت دیہی آبادی پر مشتمل ہے جہاں حصول علم کے ذرایع ہیں ہی نہیں یا آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہیں۔ دیہی علاقوں میں پرائمری زیادہ اور مڈل و میٹرک کی تعلیم دینے والے سرکاری اسکول کم ہیں اس لیے وہاں بھی پرائیویٹ اسکول قائم ہو رہے ہیں جن کا مقصد علاقے کے دیہی بچوں کو تعلیم دینا کم اورکمائی کرنے پر توجہ زیادہ ہے اور ان کی ترجیح کمائی ہے۔
ملک میں بعض نامور فلاحی اداروں نے اپنے طور پر دیہی علاقوں میں ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں، جن کا مقصد دولت کمانا نہیں بلکہ حقیقی طور پر تعلیم دلانا ہے جہاں وہ مفت تعلیم دیتے ہیں اور وہ حصول تعلیم کے لیے ایسے علاقوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں سرکاری تعلیمی اداروں کا وجود نہیں ہوتا یا غربت کے باعث وہاں کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلانا ہی نہیں چاہتے کیونکہ وہ جس غربت میں وقت گزار رہے ہوتے ہیں، ان کے مالی وسائل اتنے محدود ہوتے ہیں کہ تعلیم کے اخراجات برداشت کرسکیں، اس لیے وہ جان بوجھ کر اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔
دیہی علاقے تو دورکی بات اب تو شہروں میں رہنے والے غریب مزدور اپنی محدود آمدنی میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی استطاعت نہیں رکھتے کیونکہ اب سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا حصول ممکن نہیں رہا کیونکہ تعلیمی کتب اورکاپیاں بہت مہنگی ہوچکی ہیں اور سرکاری طور پر طلبا کو سرکاری پرائمری اسکولوں میں مفت کتب دینے کی جو سرکاری پالیسی ہے، اس میں بچوں کو یہ مفت کتابیں بہ مشکل ہی میسر آتی ہیں اور ردی میں زیادہ فروخت ہوتی ہیں جس کی خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ ان سرکاری اسکولوں کے رشوت دے کر ملازمتیں حاصل کرنے والے اساتذہ بچوں کو تعلیم دینے پرکم اور غیر حاضری اسکول آ کر گپ شپ اور نہ پڑھانے پر یقین رکھتے ہیں۔
ملک کے سرکاری اسکولوں کی حکومتی پالیسی کے مطابق سب سے آرام دہ سرکاری ملازمت سرکاری اسکولوں کی ہے جہاں پہلے بچوں کو پڑھانے کے لیے اساتذہ نہیں ملتے تھے۔ اب سرکاری اسکولوں میں رشوت دے کر ملازمت حاصل کی جاتی ہے جہاں کام کم آرام زیادہ ہے اور چھٹیوں کا تو کوئی حساب نہیں۔ ہفتے میں صرف چار دن بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے، گرمیوں میں دو تین ماہ اور سردیوں کی چھٹیاں الگ ملتی ہیں جب کہ سرکاری چھٹیاں الگ ہیں اور اساتذہ کا موڈ نہ ہو تو وہ اسکول آنا گوارا نہیں کرتے۔ سیٹنگ کے تحت ان کی حاضری لگ ہی جاتی ہے اور سب سے بڑی سہولت ہے کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو تنخواہ بھی وقت پر پابندی سے مل جاتی ہے اور نجی اسکولوں کو اتنی زیادہ تنخواہ ملتی ہے نہ وقت پر اس لیے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے مزے ہی مزے ہیں۔ ہر سال ان کی تنخواہ بڑھتی ہے اور ریٹائرمنٹ پر انھیں بڑی پنشن اور مراعات ملتی ہیں جس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں ملازمت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
حکومتیں بھی سرکاری تعلیم پر توجہ نہیں دیتیں، ان کا تعلیمی بجٹ کم ہوتا ہے۔ دیہاتوں میں سرکاری اسکول اکثر بند رہتے ہیں جہاں گھوسٹ اساتذہ کی بھرمار ہے۔ شہر میں رہنے والے ڈاکٹروں کی طرح سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اکثر غیر حاضر رہتے ہیں اور ان کی ترجیح شہر کے اسکول ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دیہاتوں کے اسکول وڈیروں کے استعمال میں زیادہ رہتے ہیں۔
ساؤتھ افریقہ کی یونیورسٹی کے گیٹ پر جو جملے تحریر ہیں وہ ہمارے ملک کے تعلیمی نظام کی مکمل عکاسی کرتے ہیں کیونکہ ملک کے تعلیمی ادارے، اسپتال، کلینکس اور ڈاکٹروں کے باعث صرف اندھی کمائی کا ذریعہ ہیں اور ملک کے ان تعلیمی اداروں کے قابل نہیں بلکہ نااہل لوگ ڈگریاں لے کر نکل رہے ہیں اور ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور جب تک یہ ناکارہ نظام تعلیم رہے گا ملک میں ڈاکٹروں کے ہاتھوں مریض مر رہے ہیں۔ مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں انسانیت تباہ ہو رہی ہے، لاتعداد مذہبی جماعتیں اپنے کارکنوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور مساجد و مدارس مسلکوں میں تقسیم ہیں اور حکومت کوشش کے باوجود مدارس پر کنٹرول نہیں کر سکی ہے۔
ملکی معیشت، معیشت دانوں کے ہاتھوں تباہ کی گئی اور مختلف تجربات کے ذریعے دولت ضایع کی جا چکی ہے اور بعض عناصر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ملکی معیشت کو سنبھلنے نہیں دے رہے۔
ملک میں انصاف کا جو حال ہے اور انصاف کا قتل ہو رہا ہے۔ ملک میں ایک عام تاثر ہے کہ اپنے حق میں مقدمات کے فیصلے کے لیے وکیلوں کے بجائے جج ہائر کر لیے جائیں۔ حصول انصاف کا نظام مجروح ہے، حکومت نے بھی عدلیہ پرکنٹرول اور من پسند ججزکی تعیناتی کے لیے فیصلے کیے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی کے گیٹ پر درج آخری بات یہ کہی گئی ہے کہ کسی بھی ملک میں نظام تعلیم کی تباہی قوم کی تباہی ہوتی ہے اور قوم کی موجودہ تباہ حالی اب سب کے سامنے ہے۔
سیاست تبدیل ہو چکی سیاسی اصول ختم کر دیے گئے، سیاسی مفاد پرستی اور شخصیت پرستی انتہا پر پہنچ چکی جس سے قوم نہ صرف تقسیم بلکہ سیاست میں جارحیت اور نفرت عروج پر پہنچا دی گئی ہے۔ عوام کا اکثریتی فیصلہ نہ مانے جانے سے ملک پہلے ہی دولخت ہو چکا اور اب ذاتی مفادات کے لیے ملک کی سلامتی بھی داؤ پر لگائی جا رہی ہے۔