نسل پرست اسرائیلی ریاست نے نسلی و مذہبی اقلیتوں کا ناطقہ بند کرنے اور ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے اور کیا کیا غیر قانونی حربے قانون کی آڑ میں اختیار کیے ہیں۔گزشتہ دو مضامین کی طرح اس سلسلے کے آخری مضمون میں اس کی اور مثالیں ملاحظہ فرما لیجے۔
غیرملکی فنڈنگ کی شفافیت کے قانون مجریہ دو ہزار گیارہ کے تحت این جی اوز پر لازم ٹھہرا کہ وہ غیر ملکی مالی امداد کی تفصیلات اور مقاصد اپنی ویب سائٹس پر مشتہر کریں تاکہ چور دروازے سے دھشت گردی کی ممکنہ مالی مدد پر ریاست نظر رکھ سکے۔
مگر چالاکی یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق غیر ملکی نجی اداروں اور افراد پر نہیں ہوتا تاکہ مقبوضہ علاقوں میں قائم یہودی بستیوں کے لیے امریکی و یورپی یہودیوں سے ملنے والی مالی مدد متاثر نہ ہو۔اس کے علاوہ ورلڈ زائیونسٹ آرگنائزیشن ، جیوش ایجنسی فار اسرائیل ،جیوش نیشنل فنڈ اور امریکن ایوانجلیکل فرقے کی یونائیٹڈ اسرائیل اپیل پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہے۔
اس قانون کا بنیادی ہدف اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین میں سرگرم انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں جن کا دارومدار نجی امداد کے بجائے زیادہ تر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں ، ریاستی اداروں ، اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کے ذیلی اداروں پر ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد بہت سے بیرونی اداروں نے اپنی امداد روک لی یا کمی کر دی۔
ایک اور قانون کے تحت اسرائیل کے اقتصادی ، ثقافتی ، سفارتی ، تعلیمی بائیکاٹ کی اپیل یا مطالبے کی سزا بھاری جرمانے اور سرکاری امداد کی معطلی کی صورت میں بھگتنا ہو گی۔ اس قانون کا مقصد حکومت مخالف شہریوں کو اسرائیل کے بائیکاٹ کی بین الاقوامی تحریک بی ڈی ایس کی حمائیت سے روکنا ہے۔
ایڈمیشن کمیٹی قانون مجریہ دو ہزار گیارہ کے تحت چار سو سے زائد مکانوں پر مشتمل آبادی اپنی ایڈمیشن کمیٹی بنا سکتی ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ کمیونٹی میں اگر کوئی نیا کنبہ بسنا چاہے تو کیا اس سے مقامی سماجی ہم آہنگی تو متاثر نہ ہو گی۔اس قانون کا مقصد عرب اسرائیلیوں کو یہودی آبادیوں میں بسنے سے روکنا اور مخصوص علاقوں تک محدود رکھنا ہے ۔ اس کے برعکس مقبوضہ غربِ اردن کے فلسطینی اکثریتی شہر ہیبرون ( الخلیل ) کے بیچوں بیچ دو سو یہودی گھرانے اسرائیلی فوج کے پہرے میں کئی برس سے دھڑلے سے رہتے ہوئے اکثریتی شہریوں کی روزمرہ زندگی اجیرن کر رہے ہیں۔ اپارتھائیڈ کی اس سے بہتر مثال نہیں ملے گی۔
تحویلِ اراضی کے قانون مجریہ انیس سو گیارہ کے تحت وزارتِ خزانہ کو سرکاری مقاصد کے لیے کوئی بھی زمین پچیس برس کے لیے قبضے میں لینے کا اختیار اس شرط پر دیا گیا کہ مذکورہ اراضی جس مقصد کے لیے حاصل کی گئی ہے اگر وہ معینہ عرصے میں پورا نہیں ہوتا تو زمین اصل مالکان کو لوٹا دی جائے گی۔مگر اس قانون کی آڑ میں مقبوضہ علاقوں میں ہزاروں ایکڑ زمین جیوش نیشنل فنڈ کے حوالے کر کے یہودی آبادکار رہائشی اسکیموں کا اعلان کر دیا جاتا ہے تاکہ زمین کے عرب مالکان واپسی کا دعوی دائر کر بھی دیں تو ’’ نئے زمینی حقائق ‘‘ کی روشنی میں عدالت یہ دعوی باآسانی مسترد کر دے۔
اسی طرح جنوبی اسرائیل کے صحراِ نجف میں صدیوں سے بسے لگ بھگ ایک لاکھ بے زمین بدو قبائلی معاشی خودکفالت کے لیے زمین کی الاٹمنٹ کے قانوناً ترجیحی حقدار ہیں۔ مگر صحراِ نجف کی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے مقامی بدوؤں کے فطری حق کو نظرانداز کرتے ہوئے بندوبستِ اراضی کے قانون مجریہ دو ہزار دس کے تحت بیس ہزار ایکڑ زمین ساٹھ یہودی آباد کاروں کو کمیونٹی ویلفئیر کے نام پر الاٹ کر دی۔
دو ہزار بارہ میں ایک اور عجیب و غریب قانون انکم ٹیکس میں ترمیم کی شکل میں نافذ کیا گیا۔اس کے تحت مقبوضہ علاقوں کی یہودی آبادکار بستیوں میں تعلیمی و فلاحی اداروں کی آمدنی ٹیکس سیمستثنیٰ قرار پائی۔اس قانون کا اطلاق مقبوضہ فلسطینی بستیوں پر نہیں ہوتا۔
دو ہزار بارہ کے ایک قانون کے تحت کسی دشمن علاقے ( بشمول غزہ و غربِ اردن ) میں دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائی کے دوران کسی غیر اسرائیلی شہری کے جان و مال کے نقصان کے ازالے کی حکومت یا فوج ذمے دار نہیں ہے۔
یہ قانون ستمبر دو ہزار پانچ کی سابقہ تاریخ سے لاگو کیا گیا جب اسرائیل نے غزہ سے فوجی انخلا کیا اور یہاں بسے تقریباً نو ہزار یہودی آبادکاروں کو مغربی کنارے پر بسا دیا۔اس کے بعد سے غزہ پر وقفے وقفے سے فوج کشی جاری ہے۔اس قانون کے تحت غزہ میں اسرائیلی فوجی ایکشن کے دوران مرنے یا زخمی ہونے والے سویلینز یا ان کی املاک کے نقصان کی بھرپائی کی ذمے داری سے فوج اور اسرائیلی حکومت مستثنیٰ ہے۔
دو ہزار پندرہ کے ایک قانون کے تحت ریاستی املاک کو نقصان پہنچانے والے بچوں کو نہ صرف عدالت کا سامنا ہو گا بلکہ ان کے والدین کو نقصان کی قیمت کے برابر جرمانہ بھی بھرنا ہو گا۔جب کہ نیشنل انشورنس ایکٹ کے تحت اسرائیل یا مشرقی یروشلم کی حدود میں کوئی بچہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں عدالتی سزا پاتا ہے تو اس کی دیکھ بھال کا سرکاری الاؤنس بھی منسوخ ہو جائے گا۔
اسرائیلی فوجداری قانون کے تحت پتھراؤ سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی زیادہ سے زیادہ سزا بیس برس ہے۔اس قانون میں مزید ترمیم یہ کی گئی ہے کہ ایسے کسی بھی مقدمے میں عدالت کو کم ازکم تین برس کی سزا لازماً سنانا ہو گی۔
دو ہزار اٹھارہ میں کاؤنٹر ٹیررازم قانون میں ترمیم کی گئی کہ کوئی بھی فلسطینی جو دھشت گردی کے شبہے میں پولیس کے ہاتھوں مارا جائے۔اس کی لاش پولیس دس روز یا تب تک قبضے میں رکھ سکتی ہے جب تک اہلِ خانہ تحریری حلف نامہ نہ دیں جس میں تفصیل ہو کہ تدفین کب اور کہاں ہو گی اور کتنے لوگ شریک ہوں گے۔ اس بارے میں پولیس احکامات کو مدِ نظر رکھنا ہو گا اور بطور ضمانت ایک مخصوص رقم بھی جمع کرانا ہو گی جو شرائط پر مکمل عمل نہ ہونے کی صورت میں ضبط ہو سکتی ہے۔
دو ہزار تئیس میں پولیس کو اختیار دیا گیا کہ وہ غیرقانونی ہتھیاروں یا سرگرمیوں کے شبہے میں کسی بھی عمارت یا گھر کی کسی بھی وقت بلاوارنٹ تلاشی لے سکتی ہے اور کوئی بھی مشکوک شے ضبط کر سکتی ہے۔
شہریت کی منسوخی کے ترمیمی قانون مجریہ دو ہزار تئیس کے مطابق اگر کسی اسرائیلی شہری ( عرب ) کو دہشت گردی یا اعانت یا حمائیت کے جرم میں سزا سنائی جاتی ہے اور دورانِ قید اسے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے وظیفہ ملتا ہے تو ایسے فعل کو ریاستِ اسرائیل سے عدم وفاداری تصور کرتے ہوئے مجرم کی سزا مکمل ہونے کے بعد اس کی اسرائیلی شہریت منسوخ کر کے ملک بدر یا فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ انتظام علاقے (مغربی کنارے یا غزہ) میں بھیجا جا سکتا ہے۔
ان قوانین کے مطالعے کے بعد بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسرائیل ایک نارمل جمہوری ریاست ہے تو اس کی مرضی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)