تازہ ترین اقتصادی آؤٹ لک جاری کر دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2024 میں ترسیلات زر میں سالانہ 24 فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ جولائی تا اکتوبر 2024 ترسیلات زر کی مالیت 11 ارب 84 کروڑ 80 لاکھ ڈالر رہی، یعنی تقریباً 12 ارب ڈالر۔ یہاں سے بطور بیرونی ترسیلات زر پاکستان میں آمد ہوئی۔
ادھر حکام نے یہ بھی آگاہ کیا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری میں 18.4 فی صد کمی ہوئی اور اکتوبر میں براہ راست سرمایہ کاری 13 کروڑ32 لاکھ ڈالر رہی۔ ان 4 ماہ میں ایک بات یہ ہوگئی کہ فاریکس ریزرو 16 ارب ڈالر سے بڑھ گئے۔
پاکستان میں گزشتہ کئی عشروں سے عموماً یہ ہوتا چلا آ رہا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پائی جاتی رہی کبھی 4 ماہ میں یہ ذخائر 6 یا 7 ارب ڈالر ہوتے اور کبھی 9 یا 10 ارب ڈالر۔ اس مرتبہ 4 ماہ کے دوران مجموعی کارکردگی اچھی رہی کہ 16 ارب ڈالرز تھی یعنی اس کا مقصد یہ ہے کہ دیگر امور بھی اگر بدستور اسی طرح جاری رہے تو روپیہ کمزور نہیں ہوگا۔ غیر معمولی اور اشیائے تعیش اور ملکی متبادل موجود ہونے کے باوجود غیر ضروری طور پر فوڈ گروپ و دیگر کی درآمدات اور دیگر باتوں کو شامل کرنے سے درآمدی مالیت بڑھ جانے سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہونے لگتی ہے، جس کا دباؤ لامحالہ ڈالر پر مرتب ہوتا ہے اور اس کی طلب بڑھتی ہے جس کے باعث ڈالر ریٹ بڑھ جایا کرتا تھا۔
اس مرتبہ حکومت کے پاس کوئی ایسی معاشی پالیسی شاید ہوکہ انتہائی ضروری درآمدات میں کمی اور برآمدات میں غیر معمولی اضافہ عمل میں لایا جاسکے۔ جس کی بدولت روپیہ اپنی قدر کھونے سے محروم رہے، یعنی روپے کی قدر بڑھے، مضبوط رہے، کم نہ ہو، کمزور نہ پڑے۔
وزارت خزانہ ماہانہ معاشی آؤٹ لک جاری کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس وقت اس نے سب کچھ اچھا اچھا بتا دیا ہے کہا جا رہا ہے کہ 4 ماہ میں اخراجات میں 1.8 فی صد اضافہ ہوا ہے اور یوں 4 ماہ میں کل 45 ارب اضافی اخراجات ہوئے۔ اس مہنگائی کے عالم میں بالکل ہی زیادہ نہیں ہے، اسے آپ ماہانہ 11 ارب روپے کے اضافے سے تعبیرکریں۔
اب آپ ہی دیکھیے کہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ مہنگائی کی شرح جولائی تا اکتوبر 8.7 فی صد رہی، اگر ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی کو دیکھتے ہیں دوسری طرف حکومتی اخراجات جس کے بارے میں اوپر بتایا گیا کہ 4 ماہ میں محض 1.8 فی صد اضافہ ہوا ہے تو معلوم دیتا ہے کہ اخراجات میں حقیقی معنوں میں دراصل کمی ہوئی ہے۔ کتنے ہی اخراجات ایسے ہوں گے جن کے نہ کرنے کا عہد کیا گیا ہوگا۔
کتنے ہی اخراجات سے ہاتھ روک لیا گیا ہوگا۔ لہٰذا حکومتی اخراجات کا یہ رجحان بتا رہا ہے کہ فضول خرچی بالکل نہیں ہو رہی، بالکل جائز ضروری اخراجات ہو رہے ہیں۔ ہاں البتہ ماہرین حساب کتاب کی تنقید سے بچنے کے لیے آیندہ 7 مہینے اخراجات میں اتنی کمی لائی جائے اتنا زیادہ کنٹرول کر لیا جائے کہ یہ 1.8 فی صد کا اضافہ الٹ کر 8.1 فی صد کی کمی ہو جائے۔ تنقید کرنے والے اسی پر اکتفا کر لیں گے۔
جہاں تک مہنگائی کی شرح 8.7 فی صد کی بات کی گئی ہے حکام امید لیے ہوئے ہیں کہ نومبر میں شرح کم ہو سکتی ہے اور دسمبر میں یہ شرح 6.5 فی صد تک آ سکتی ہے۔ یہ بہت ہی اچھی اور خوش آیند توقعات ہیں لیکن اس کے لیے کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ توقع ہے کہ بجلی کے نرخ کم ہوں گے، بجلی کی طرح گیس پر بھی عوام اور صنعتی اداروں کے لیے نرخ میں کمی کی جائے۔
اس کے علاوہ پانی کے بل بھی اب بھاری بھرکم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس میں کمی کے علاوہ ہر گھر میں پانی کے بھاری بھرکم بل وصول ہو رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پورے پاکستان میں ایسا نہ ہوا لیکن اس سلسلے میں دیگر علاقوں کی طرح کراچی کے صنعت کار زیادہ مشکلات کا شکار ہیں، کیونکہ پانی خرید کر استعمال کرنا پڑتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق اگرچہ بڑی صنعتوں کی مجموعی پیداوار میں محض 0.8 فی صد کمی ہوئی ہے۔ حکومت اس جانب غور کرے ۔ آخر بڑی صنعتوں کی ریڑھ کی ہڈی پاکستان اسٹیل مل، بستر مرگ پر موجود ہے یقین جانیے کہ اگر اسے آکسیجن مل جائے اور وہ اپنے پیروں پرکھڑی ہو جائے تو بڑی صنعتوں کو بڑی ڈھارس مل جائے گی۔ اس سلسلے میں شنید یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے روس سے بات چیت کی خواہش ظاہر کی ہے۔
یہ وہ پودا ہے جوکہ روس نے ہی لگایا تھا اور تناور درخت بنا کر پاکستانی حکومت کے حوالے کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ ہی آگے بڑھیں اور روس یا بیلاروس سے یا پھر چین سے جو کوئی بھی اس کی بحالی کے لیے رضامند ہو اس پر فوری عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
اسی طرح پی آئی اے کو فروخت کرنے سے زیادہ اسے قومی ایئرلائن کے طور پر برقرار رکھنے میں زیادہ بہتری زیادہ آسانی اور اس کی سخت ضرورت بھی ہے۔ حکومت اپنی سوچ کو بدلے اور ہر دو اداروں کی بحالی کے کام کا آغاز کرے۔ آخر ایک وقت تھا جب ہزاروں افراد کے روزگار کا ذریعہ اسٹیل مل تھا اور پی آئی اے کا تو پوری دنیا میں ایک نام تھا۔
بہرحال بڑی صنعتوں کی ترقی کے لیے لازم ہے کہ اسٹیل کی صنعت کو دوام حاصل ہو اور بڑی صنعتوں کے بہت سے مسائل ہیں۔ ان مسائل کے حل کو اگر ترجیح دے دی گئی تو ایسی صورت میں بڑی صنعتیں گراوٹ سے نکل کر بڑھوتری کی جانب گامزن ہوں گی جس سے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔