شامی صدر بشار الاسد کے مخالفین نے حلب شہر پر قبضہ کرلیا جبکہ شدید لڑائی میں 240 سے زائد افراد مارے گئے۔
عرب میڈیا کے مطابق شامی صدر بشار الاسد کے مخالف جنگجو حلب کے مرکز تک پہنچ گئے ہیں، فوجی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ حکام نے ہفتے کے روز حلب کے ہوائی اڈے کے ساتھ ساتھ شہر کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو بند کردیا۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شامی اور روسی جنگی طیاروں نے جمعہ کو ادلب کے ارد گرد حزب اختلاف کے انکلیو پر شدید فضائی حملے کیے جب کہ ترک حمایت یافتہ باغیوں حیات تحریر الشام نے حلب شہر پر اچانک حملہ کیا۔
حیات تحریر الشام کے جنگجو تقریباً ایک دہائی بعد پہلی بار شہر میں واپس آئے ہیں جہاں سے 2016 میں بشار الاسد اور اس کے اتحادیوں روس، ایران اور علاقائی شیعہ ملیشیا نے انہیں بے دخل کردیا تھا، جنگجوؤں نے بدھ کو اپنی دراندازی کا آغاز کیا اور جمعہ کی رات تک جارحانہ کارروائیوں کیں۔
العربیہ کا ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت نے شامی فوج کو شہر سے "محفوظ انخلاء" کے احکامات دیے ہیں۔
شام کے سرکاری ٹی وی نے باغیوں کے شہر میں پہنچنے کی تردید کی اور کہا ہے کہ روس شامی فوج کو فضائی مدد فراہم کر رہا ہے۔ شامی فوج اس حملے کے خلاف لڑ رہی ہے اور باغیوں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کے مطابق جمعہ کو حلب میں یونیورسٹی ہاسٹل پر باغیوں کی گولہ باری سے دو طالب علموں سمیت چار شہری مارے گئے۔
دوسری جانب کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ ماسکو باغیوں کے حملے کو شام کی خود مختاری کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔
شام کے بحران کے لیے اقوام متحدہ کے ڈپٹی ریجنل ہیومینٹیرین کوآرڈینیٹر ڈیوڈ کارڈن کا کہنا ہے کہ "ہم شمال مغربی شام میں پیدا ہونے والی صورت حال سے بہت پریشان ہیں۔"