لاشوں پر سیاست کرنے کا چلن شاید پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں یکساں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے جاں بحق ہونے والے رہنماؤں اور کارکنوں کے واقعات کو ہر پلیٹ فارم پر نمایاں کرنے کی تگ و دو میں رہتی ہیں، جس میں بسا اوقات مبالغہ آرائی تک شامل ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں ہونے والے ناکام احتجاج اور اس میں ہونے والی مبینہ اموات سے متعلق بھی اس وقت نہ ختم ہونے والی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے سیکڑوں ہلاکتوں کا الزام لگایا جارہا ہے جبکہ حکومتی موقف یکسر مختلف ہے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے اپنی صحافتی زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کرتا ہوں۔
زندگی نام ہی سیکھنے کا ہے اور پیدائش سے لے کر لحد تک انسان سیکھتا ہی رہتا ہے، اس گزرتی زندگی میں غلطیاں ہونا ایک فطری اور قدرتی عمل ہے۔ صحافت کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کی وجہ سے اس دور میں کئی غلطیاں کیں لیکن ایک غلطی جس پر مجھے کافی شرمندگی اٹھانی پڑی وہ ایم کیو ایم کے سینیٹر اور سینئر رہنما رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملہ شامل ہے۔
18 اگست 2015 روزمرہ ڈیوٹی کے تحت آفس پہنچا اور کام میں مصروف ہوگیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد واٹس ایپ پر ایک پیغام آیا جس میں ایم کیو ایم کے سینیٹر اور سینئر رہنما رشید گوڈیل کے زخمی ہونے کی اطلاع تھی۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی جیسے دوڑیں لگ گئیں۔ رپورٹرز، کیمرہ مین اور ڈی ایس این جی اسٹاف فوری طور پر الرٹ ہوگئے اور جائے وقوع بہادرآباد پہنچ گئے۔ میں نے بذریعہ ٹیلی فون رپورٹرز و دیگر ذرائع سے معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں۔
تقریباً کچھ ہی گھنٹوں بعد موصولہ اطلاعات کے بعد رشید گوڈیل اور ان کے ڈرائیور کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوگئی اور پھر دیگر نجی چینلز کے اسائنمنٹ ایڈیٹرز اور رپورٹرز کی مشاورت کے بعد چینل پر بریکنگ ڈبے چلانا شروع کردیے۔
تقریباً سب ہی چینلز نے جاں بحق کے ڈبے اور ٹکرز چلائے۔ لیکن کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے نجی اسپتال کے باہر میڈیا ٹاک کرتے ہوئے بتایا کہ رشید گوڈیل کے ڈرائیور جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ رشید گوڈیل کو بچانے کےلیے ڈاکٹرز کوششوں میں مصروف ہیں۔ بس پھر کیا تھا فوراً جاں بحق کے بریکنگ ڈبے اور ٹکرز کو شدید تشویشناک حالت میں تبدیل کیا اور بیورو چیف، کنٹرولر نیوز اور ڈائریکٹر نیوز کے غصے بھرے میسیج کا انتظار کرنے لگ گئے۔
واقعے کے ٹھنڈا ہونے کے بعد بیورو چیف، کنٹرولر نیوز نے اسکائپ پر میٹنگ کال کی اور مارننگ شفٹ میں موجود واقعے کی کوریج کرنے والی پوری نیوز ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا اور ایک نصیحت بھی کی کہ جب تک خبر کنفرم نہ ہوجائے جب تک خبر کو آگے نہ بڑھانا۔ اور ایک صحافتی تاریخی جملہ بھی کہا کہ ’’شدید زخمی کو مارنا آسان ہے لیکن مرے ہوئے کو زندہ کرنا مشکل ہے‘‘ لہٰذا جب تک جاں بحق کی خبر کنفرم نہ ہوجائے جب تک زخمی ہی تصور کریں ورنہ وہی سب کچھ ہوگا جو آج ہوا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن جب تک کوئی خبر کنفرم نہیں ہوتی تب تک نہ اس پر تبصرہ کرتا ہوں اور نہ اس حوالے سے کسی سے گفتگو کرتا ہوں۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ تقریباً دس سال پہلے کا واقعہ اس وقت کیوں یاد آیا؟ تو اس کا کنکشن حالیہ ڈی چوک والے واقعے سے ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دھرنا دینے کی کوشش کی گئی تھی اور تقریباً 72 گھنٹے بعد حکومت کی جانب سے دھرنے کے مظاہرین کو منتشر کردیا گیا۔
احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کارکنوں کی ہلاکتوں کے مختلف فگرز دینے شروع کردیے۔ سب سے ہیوی فگر سابقہ پیپلز پارٹی وکلا تنظیم کے صدر پاکستان پیپلز لائرز فورم اور موجودہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈی چوک پر 278 کارکنان کو گولیوں سے بھون دیا گیا ہے۔
اب اگر لطیف کھوسہ کی بات کو سچ مان بھی لیتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آج کے جدید دور میں جہاں ہر شخص کے پاس موبائل موجود ہیں، جو ذرا ذرا سے واقعے میں موبائل نکال کر ویڈیوز بنالیتے ہیں، تو ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ کسی نے بھی ویڈیو نہیں بنائی ہو؟
ڈی چوک پر اسٹریم میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ بھی موجود تھے جو لمحہ لمحہ کی نیوز شیئر کررہے تھے۔ واقعے کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ڈی چوک پہنچ جاتے ہیں اور تمام آپریشن سے متعلق میڈیا کو آگاہ کرتے ہیں۔ اتنی دیر میں 278 لاشوں کو اتنی آسانی سے اور لوگوں کے علم میں لائے بغیر ٹھکانے لگانا ممکن ہے؟
چلیے ایک بار لطیف کھوسہ کی بات کو سچ مان بھی لیتے ہیں تو وہ 278 افراد جو اس واقعے میں جاں بحق ہوئے، اتنے دن گزرنے کے بعد بھی سامنے کیوں نہیں آرہے؟ ان کی لاشوں کی تدفین کی ایک تصویر یا ویڈیو تو ہونی چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کا کوئی رہنما تو اپنے ان جانباز اور پارٹی وژن پر قربان ہونے والوں کے جنازے میں تو شریک ہوتا لیکن اتنے دن گزرنے کے باوجود ایسا کوئی منظر دیکھنے کو نہیں ملا۔
لطیف کھوسہ ایک سینئر سیاستدان ہیں اور ان کا سیاسی قد کاٹھ پاکستان تحریک انصاف کے بیشتر رہنماؤں سے کافی اونچا ہے اور ان کا ایسا بیان ان کی ماضی اور حال کی سیاسی زندگی پر گہرا اثر چھوڑ گیا ہے۔
میں نے آج سے دس سال قبل ایک زندہ شخص کو مردہ قرار دے دیا تھا جس پر مجھے آج بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے لیکن لطیف کھوسہ نے دس نہیں، بارہ نہیں، سو نہیں بلکہ 278 افراد کو مردہ قرار دے دیا، کیا انہیں کوئی شرمندگی محسوس ہورہی ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔