اسلام آباد:
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے، چاہے اس کے لیے حکومت اور اپوزیشن بات چیت کرے یا پھر لاٹھی کا استعمال کرنا ہو، دہشت گردی کے خاتمے کیلیے نئے نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہے۔
سکھر میں پیپلزپارٹی کے 57ویں یوم تاسیس کے حوالے سے منعقدہ جلسے میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پی پی کے یوم تاسیس پر بیک وقت پاکستان کے 150 علاقوں سے مخاطب ہوں، تمام اضلاع، چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی براہ راست خطاب کررہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک ثبوت ہے کہ تین نسلوں کی جدوجہد کے بعد آج بھی پیپلزپارٹی ملک کے کونے کونے میں موجود ہے، پیپلزپارٹی کی طویل جدوجہد ملک کے عوام، جمہوریت اور معاشی ترقی کیلیے ہے اور ہماری جدوجہد سب کے سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا سیاسی سفر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو سے شروع ہوا، جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد رکھی اور سرزمین بے آئین کو متفقہ آئین دیا، عوام ذوالفقار علی بھٹو کی جدوجہد اور منشور کو آج بھی پاکستان کے تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔
’ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو سب سے پہلی معاشی پالیسی دلوائی، روٹی کپڑا مکان کا نعرہ اور تاریخی اصلاحات کر کے امیروں کے بجائے عوام، کسان اور مزدوروں کو فائدہ پہنچایا‘۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو نے جمہوریت، آئین، عوام دوست انقلاب کی بنیاد کے ساتھ پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں کا تحفہ دیا، دنیا بھر میں آج بھی کوئی پاکستان کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا مگر افسوس کے ساتھ عوام کے منتخب وزیراعظم کو عدالتی قتل کے ذریعے شہید کیا گیا اور پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے گئے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ عوام کے ساتھ اور کارکنان کی جدوجہد کی وجہ سے پیپلزپارٹی بے نظیر بھٹو کی صورت میں زندہ رہی اور پھر ایک نہتی لڑکی نے دو آمروں کا مقابلہ کیا، انہوں نے دنیا کی پہلی مسلم خاتون اور نوجوان وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر بے نظیر بھٹو کو شہید نہ کیا جاتا تو وہ تیسری بار بھی وزیر اعظم ہوتیں۔ وہ عوام، مزدور، کسان کی نمائندگی کرتی تھیں اور وہ ہمیشہ اپنے دور میں عوامی فائدے کی پالیسیز لاتی تھیں۔
’بے نظیر نے جس بہادری کے ساتھ پی پی کی قیادت کی وہ تاریخ کے سامنے ہے، ملکی اور خطے کی تاریخ میں جتنے بھی سیاست دان رہے اُن کی تاریخ اپنی جگہ مگر بے نظیر کے مقابلے میں کوئی نہیں آسکتا‘۔
بلاول نے کہا کہ 18 اکتوبر کو جب بے نظیر پر دہشت گردی کا حملہ ہوا تو اُس وقت وہ عوام کو چھوڑ کر بھاگ سکتی تھیں مگر انہوں نے حملے کے باوجود اپنی انتخابی مہم جاری رکھی اور عوام کے درمیان رہتے ہوئے آمر و دہشت گردوں کو للکارا اور پھر راولپنڈی میں وہ شہید ہوگئیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کچھ لوگوں کی سوچ تھی کہ بے نظیر کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی ختم ہوجائے گی مگر پھر صدر زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی متحد ہوئی اور پھر ہم نے وہ کامیابیاں حاصل کیں جو ماضی میں نہیں کرسکے تھے، اٹھارہویں ترمیم منظور کروا کے ہم نے بے نظیر کی دیرینہ خواہش پوری کی اور وعدہ پورا کیا، صوبوں کو حقوق دیے، این ایف سی ایوارڈ قائم کیا، یہ سارے خواب زرداری کی صدارت کے دوران ہوئے۔
’زرداری نے پاکستان کو سی پیک جیسا تحفہ دیا، انہوں نے سرحد کو پختونخوا کا پروگرام دلوایا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کر کے روٹی کپڑے اور مکان کے وعدے کو پورا کیا جس سے غربت کا مقابلہ کیا جارہا ہے جبکہ وسیلہ روزگار سے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا‘۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’آج بھی پاکستان کو آگے بڑھانے کا یہی طریقہ ہے، پہلے دور حکومت میں ہم نے جو انقلابی اصلاحات کیں تو وہ کچھ قوتوں کو پسند نہیں آئیں، جس کے بعد ہمارے خلاف نیب متحرک ہوا، میڈیا ٹرائل کیا گیا، پی پی کو محدود رکھ اور ایک اور جماعت پی ٹی آئی کو جنم دیا‘۔
انہوں نے کہا کہ ان پراکسی جماعتوں کو دہشت گردوں نے اجازت دی جبکہ ہمارے امیدوار مہم چلا نہیں پاتے تھے، ہمیں ہر الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت ہوتی ہے مگر ہم محب وطن پاکستانی ہیں اور ملک کا سوچتے ہیں، تو جمہوری اور ملکی مفاد کو قبول کر کے آگے بڑھے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تمام منصوبے ناکام کردیے ہیں، صدر زرداری کے ویژن اور سیاست کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کی سوچ کو بری طرح سے شکست ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں سب سے زیادہ اور اہم ذمہ داری پیپلزپارٹی پر ہے کہ نہ صرف ہماری صوبائی حکومتی جو بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں ہیں وہ اپنی مدت مکمل کریں۔
بلاول نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی اہم ذمہ داری ہے، الیکشن میں عوام نے ن لیگ سمیت باقی کسی سیاسی جماعت کو اکثریت نہیں دی، پھر پی پی کو فیصلے کی ذمہ داری ملی تو ہم نے سی ای سی کا دو روزہ اجلاس کر کے فیصلہ کیا کہ ملک کو معاشی اور دیگر مسائل سے نکالنے کیلیے اتحادی حکومت قائم کی جائے اور اپوزیشن جماعتیں حکومت سازی میں بھی سنجیدہ نہیں اور کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہے تھے اُن کی بس ایک ہی خواہش اپنے قائد کو جیل سے نکالنا تھی۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ نے حکومت سازی کیلیے متحرک کردار ادا کیا، پھر ملک کو مہنگائی اور معاشی بحران سے نکالنے کیلیے ہم نے نواز لیگ کا ساتھ دیا اور اپنا ووٹ دلوایا، اس کے باوجود حکومت کا حصہ نہیں بنے تاکہ انہیں کھلا میدان ملے۔
بلاول نے کہا کہ ہمارے اعتراض اور مسائل اپنی جگہ مگر ہم نے ہر بار عوامی اور قومی مفاد کے پیش ںظر فیصلے کیے ہیں، آج بھی ہم یہی کردار ادا کررہے ہیں کیونکہ ہم ملک میں سیاسی استحکام، معاشی ترقی، غربت میں کمی، دہشت گردی کا خاتمہ، امن و امان اور روزگار چاہتے ہیں۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ ملک کے مسائل کا حل اور مقابلہ کرنے کی ہمت سیاسی جماعتوں کے پاس ہے، اس وقت ملک کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے کیونکہ جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا تب تک معاشی استحکام، امن و امان بہتر نہیں ہوگا اور معیشت کو فائدہ ہوتا ہے مگر کسی نہ کسی وجہ سے سیاسی استحکام متاثر ہوتا ہے جس کا نقصان عوام، ملک اور جمہوریت کو ہورہا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میری تمام سیاسی جماعتوں اور کارکنان سے درخواست ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی جدوجہد کریں کیونکہ باقی مسائل کا مقابلہ سیاسی استحکام کے بعد ہی ہوسکتا ہے، سیاسی استحکام کی بڑی وجہ اپوزیشن ہے کیونکہ وہ جمہوری اور سیاسی حزب اختلاف کے طور پر سامنے نہیں آرہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتیں سیاسی دائرے میں رہ کر سیاست نہیں کررہی، 9 مئی جیسا واقعہ سیاست نہیں، اسلام آباد میں جو بھی ہوا وہ سیاست نہیں ہے، اداروں کو آئینی کردار تک محدود رکھنے کیلیے سیاست دان کو سیاسی دھارے میں آنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ سیاست دان کو بات چیت کے ذریعے مسئلے حل کرنا چاہیں، ہماری خواہش ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کردار ادا کر کے ملک میں سیاسی استحکام کو قائم کریں، اس میں حکومت کی ذمہ داری زیادہ ہے۔
بلاول نے کہا کہ اپوزیشن کی کچھ جماعتیں سیاسی اپوزیشن اور مخالفت کرنا چاہتی ہیں جبکہ غیر سیاسی اور غیر جمہوری اپوزیشن کا رویہ مختلف ہے، جو اپوزیشن جمہوری اور سیاسی رویہ اپنائے گی اُسے ایسے ہی جواب دیا جائے گا، اگر اپوزیشن کا رویہ سیاسی اور غیر جمہوری ہوا تو حکومت ویسے ہی جواب دے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مسائل کے حل کیلیے تمام جماعتوں کو مل بیٹھ کر سیاسی استحکام قائم کرنا ہوگا، چاہے اس کے لیے بات چیت کرنی پڑے یا لاٹھی کی ضرورت ہو تاکہ ریاست کی رٹ بحال ہو اور معاشی صورت حال بھی بہتر ہو۔
بلاول نے کہا کہ ہم ہمیشہ مذاکرات اور بات چیت کی بات کرتے ہیں مگر اپوزیشن سیاست جماعتوں سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات چاہتی ہے، اگر یہی طرز سیاست رہا تو پی ٹی آئی اور ملک دونوں کو نقصان ہوگا۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی اور خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا، اگر حکومت نے رابطہ کیا تو کوشش کریں گے کہ اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ ملک اور عوام کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی۔ بلاول نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ بہت سنجیدہ ہے اور ہمیشہ پیپلزپارٹی نے اس معاملے پر آواز بلند کی اور اپنے دور میں اسٹیٹ کی رٹ بحال کی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ امن و امان کے مسئلے پر سیاست کی جارہی ہے، جب ماضی میں ہم دہشت گردوں کو شکست دے سکتے ہیں تو پھر ایک بار پھر متحد ہوکر ملک سے دہشت گردوں کو شکست دے سکتے ہیں، ملک کے عوام کو زندگی کا تحفظ ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے حالات بہت سنگین ہیں، امن و امان کی وجہ سے ایمرجنسی بحران پیدا ہوتا جارہا ہے، پارا چنار کے حالات کو سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا دکھا رہا ہے، صوبائی حکومت رٹ بحال کرنے کے بجائے وفاق پر چڑھائی کررہا ہے۔
بلاول نے کہا کہ وزیراعلیٰ آج بھی اسمبلی میں کھڑے ہو کر وفاق پر گولی چلانے کی دھمکی دے رہا ہے، ہم کب تک یہ برداشت کریں کہ پاکستان کے اصل مسائل کچھ اور ہیں، پختونخوا میں 100 سے زیادہ لاشیں موجود ہیں اور یہ اسلام آباد میں اپنی 100 لاشیں تلاش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کرم میں وفاق کی مدد سے امن و امان قائم کرے، اگر اس میں وہ سنجیدہ نہیں اور صرف اپنے لیڈر کی رہائی، این آر او دلوانا ترجیح ہو تو پھر انہیں صوبائی حکومت کو چھوڑ دینا چاہیے۔
بلاول نے کہا کہ مجھے امید ہے صوبائی حکومت اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اب عوامی مسائل پر توجہ دے گی اور اب ہر دوسرے دن احتجاج کے نام پر انتشار پھیلائیں گے، احتجاج کا پاکستانی کا حق ہے، مگر قانون ہاتھ میں لینا اور لشکر کشی کی اجازت کسی صورت نہیں ہے۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ حکومت کبھی نہیں چاہتی کہ کسی واقعے میں کوئی شہری کی جان جائے، ہمیں امید ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومت ملکی مفاد کیلیے اپنا کردار ادا کریں گے، ہمیں ملکر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلیے نیشنل ایکشن پلان 2.0 لانا پڑے گا اور ایک متفقہ فیصلہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں دہشت گردوں یا ناراض لوگوں کو انگیج کرنے کے لیے بھی پالیسی بنانی ہوگی، ہمیشہ منصوبہ بندی کے ذریعے ہی دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے۔