کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دلوں میں ہمیشہ زندہ جاوید رہتے ہیں، سائنس دانوں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سیاست میں ذوالفقارعلی بھٹو، شعرا میں رئیس امروہوی، وزیر اعظم کے عہدے پر رہنے والی دختر سندھ بے نظیر بھٹو، موسیقی سے وابستہ گلوکارہ نور جہاں۔
یہ وہ لوگ تھے جن کے تذکرے پر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے اور قوم کی دلی قربت ہمیشہ ان کے ساتھ رہی مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ان کی برسیاں خاموشی سے گزر جاتی ہیں نوجوان نسل ان کی پذیرائی سے محروم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لکھاری باضابطہ ذمے داری کا ثبوت نہیں دیتے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہماری کوتاہی ہے آج ناکامی دل گرفتہ ہو کر پھر قلم اٹھانے کی کوشش کی کہ شاید بات میری آپ کے دل کے نہاں خانوں میں اتر جائے۔
گلوکارہ نور جہاں موسیقی کی انسائیکلوپیڈیا تھیں، راقم جب نوجوانی کی دہلیز پر تھا 1992 کی بات ہے تو کراچی کے ایک روزنامے سے وابستہ تھا اور شوبزنس کی صحافت سے منسلک تھا، لاہور اکثر آنا جانا ہوتا تھا تو اکثر محمد علی، ندیم، بہار، دیبا، شمیم آرا سے ملاقاتیں ہوتی تھیں اور ان حضرات نے ہمیں فلمی معلومات کا خزانہ دیا جس کا میں تہہ دل سے ممنون ہوں۔
لاہور میں ہماری ملاقات گلوکارہ نور جہاں سے ہمارے بزرگ موسیقار نثار بزمی نے کرائی اور پھرکئی مرتبہ اظہار قاضی کے ساتھ بھی آنا جانا رہا۔ پورے ملک میں عوامی پذیرائی جو گلوکارہ نور جہاں کو ملی وہ بہت کم لوگوں کو مل سکی اور اس کے بعد جب بھی لاہور جانا ہوتا، میڈم نور جہاں سے ضرور ملتا وہ فلم انڈسٹری کا خزانہ تھیں اور ان کی دی ہوئی معلومات صحافت میں ہمارے کام آ رہی ہے۔
میڈم نور جہاں پاکستان کے علاوہ ہندوستان میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ بھارت کی معروف گلوکارہ لتا جی نے تو ان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ تو مجھ سے بہت بہترگلوکارہ ہیں۔ یہ لتا جی کا بڑا پن تھا کہ انھوں نے نور جہاں کی شخصیت کو دل سے تسلیم کیا۔
نور جہاں تو بے پناہ صلاحیتوں کی ملکہ تھیں اور اس بزم ہستی میں گلوکارہ کی حیثیت سے جو مقام ان کو ملا وہ کسی کو نہ مل سکا۔ فن گلوکاری میں ان کی گراں قدر خدمات کو ہم اور ہمارا ملک کیسے نظرانداز کرسکتا ہے، انھوں نے 1935 پنچولی پروڈکشن کی پنجابی فلم ’’ چوہدری‘‘ میں بے بی نور جہاں کی حیثیت سے اداکاری کی اور ان کی اداکاری کو شائقین فلم نے بہت سراہا۔
سید شوکت حسین رضوی کی فلم ’’خاندان‘‘ ایک قابل ذکر فلم تھی جب پاکستان وجود میں آیا تو ان کی فلم ’’چن وے‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1952 سے لے کر 1962 تک وہ بحیثیت ہیروئن کے جلوہ گر ہوئیں اس دوران خوب کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ فلم ’’غالب‘‘ غالباً آخری فلم تھی جس میں انھوں نے اداکاری کو تقریباً خیرباد کہہ دیا اور بحیثیت گلوکارہ اس سے وابستہ ہوگئیں اور جہاں بھی اردو اور پنجابی بولی جاتی یہ ان کے دلوں کی مہمان بن گئیں۔ ان کے ہزاروں گیتوں پر تو ہم تفصیلی روشنی نہیں ڈال سکتے کہ کالم کے اپنے آداب ہوتے ہیں۔
البتہ خاص باتیں ضرور تحریرکریں گے، ان کے گلے کا ترنم تو دل کے نہاں خانوں میں ہلچل مچا دیتا تھا۔ نور جہاں وہ گلوکارہ تھیں جو اداکاری کے ساتھ ساتھ اپنی ہی فلم کے گیتوں کے جھرمٹ میں فلم میں نظر آتی تھیں۔ ہم اس کالم میں ان کے کچھ گیتوں کا تذکرہ بھی ضرورکریں گے۔
میڈم سے ایک ملاقات ہماری بابائے صحافت الیاس رشیدی کے ساتھ بھی ہوئی۔ میڈم نے دوپہر کے کھانے پر الیاس رشیدی اور ہمیں مدعو کیا تھا۔ ہمیں آج بھی یاد ہے کہ اس دعوت میں میڈم نور جہاں نے آلو قیمہ بنایا تھا جو اپنی مثال آپ تھا بہت کم شایقین فلم کو معلوم ہے کہ پاکستان کے وجود میں آ جانے کے بعد 1951 سے لے کر 1961 تک وہ بحیثیت ہیروئن فلموں میں آتی رہیں اور اپنے وقت کی سپراسٹار تھیں۔
فلم ’’غالب‘‘ کے بعد انھوں نے فلم کو خیرباد کہہ دیا اور بحیثیت گلوکارہ کے اپنے آپ کو محدود کر لیا اور ہزاروں گیت شایقین فلم کو دیے۔
1925 میں پیدا ہونے والی نور جہاں کا اصلی نام اللہ وسائی تھا۔ ان کی دو بہنیں عیدن اور حیدر باندی تھیں جو فلمی دنیا سے جڑی ہوئی تھیں جب کہ عیدن معروف شاعر تنویر نقوی کی اہلیہ تھیں۔ نورجہاں نے بچپن میں ہی فن سے تعلق جوڑ لیا تھا، انھوں نے کئی فلموں میں چائلڈ اسٹارکے طور پرکام کیا بحیثیت چائلڈ اسٹارکے انھوں نے فلم یملا جٹ، گل بکائولی اور چوہدری میں کام کیا جب وہ جوانی کے دور میں آئیں تو ان کی فلم خاندان 1942 میں ریلیز ہوئی جو اپنے وقت کی سپرہٹ فلم تھی۔
میڈم نور جہاں سے ہماری کافی ملاقاتیں رہیں، یہ 1990 کی بات ہے ان کی تجربے کار گفتگو سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ اپنے سینئر کا احترام کریں کیونکہ سینئرز کی باتیں آپ کے لیے انمول تحفہ ہوتی ہیں اور اس کے تحت ہی آپ نوجوانی اور جوانی کا دور اچھا گزار رہے ہوتے ہیں۔
ابن انشا ایک معروف مصنف تھے جنھوں نے یہ گیت لکھا تھا: ’’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘ راقم اس زمانے میں فرسٹ ایئرکا طالب علم تھا، ان سے ہم نے ادب کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا۔ انھوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ’’ نور جہاں بہت اچھی خاتون ہیں وہ پروگراموں میں نہیں گاتی تھیں ہم نے ایک پروگرام کیا ’’نوجوان نسل‘‘ کے نام سے، میں نے میڈم سے بات کی کہ آپ ہمارے پروگرام میں شرکت کر لیں یہ غریب طالب علم کے لیے ایک پروگرام کر رہے ہیں، میں آپ سے گائیکی کی درخواست نہیں کر رہا آپ صرف اس محفل میں آ کر ایک خوبصورت تقریرکردیں۔
انھوں نے میرا مان رکھا وہ پروگرام میں آئیں اور نوجوانوں کو ایک اچھی تعلیم کا درس دیا مجھے ان کی شخصیت نے بہت متاثر کیا۔‘‘ راقم الحروف علامہ اقبال ٹاؤن میں رہتا تھا اور انشا جی بھی وہیں رہتے تھے ہم ان کی استادوں کی طرح عزت کرتے تھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
اب شوبزنس پر کم لکھتا ہوں، اول تو اب شوبزنس ختم ہوا، سینما ہال ویران ہیں، شان، بابر علی، مسعود کا ہیروشپ کا دور بھی ماضی ہوا۔ شوبزنس کا دور تو محمد علی، وحید مراد اور ندیم کے بعد ختم ہوا۔ سینماؤں پر اب ہاؤس فل کے بورڈ نہیں لگتے، اب تو ٹی وی ڈرامے سینما ہالوں میں دکھائے جاتے ہیں۔
چلیے دوبارہ میڈم نور جہاں کی محفل میں چلتے ہیں سید شوکت حسین رضوی اپنے وقت کے حسین ترین انسان تھے۔ نور جہاں نے بتایا کہ فلم ’’خاندان‘‘ جس کے مصنف سید امتیاز علی تاج تھے، ان کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے تھا یہ فلم 1942 میں ریلیز ہو کر سپرہٹ ہوئی۔ یہی وہ فلم تھی جس میں، میں اور شوکت حسین رضوی ایک دوسرے کے قریب آگئے وہ بنیادی طور پر شریف اور نیک آدمی تھے۔
ان کی یہ ادا مجھے بہت پسند آئی بلکہ میں تو ماضی میں معروف ہیروئن سے کہتی تھی کہ اگر انڈسٹری کا کوئی اداکار تمہیں اچھا لگے تو گھر بسانے کی کوشش کرنا فلمی اداکاروں کی عمریں بہت کم ہوتی ہیں۔ 10 سال تک تو کامیاب رہتے ہیں اس کے بعد عمر ڈھل جاتی ہے اس سے پہلے قسمت کا بہتر فیصلہ کر لو بعد میں کوئی گھاس نہیں ڈالتا مگر ان نک چڑی لڑکیوں کا دماغ آسمان پر ہوتا ہے اور پھر بڑھاپا تنہا گزارتی ہیں۔
کئی نام ہیں مگر میں لینا نہیں چاہتی شادی شدہ ہیروز میں محمد علی و ندیم، وحید مراد کے بارے میں نورجہاں نے بتایا کہ زیبا بہت اچھی سیرت کی خاتون ہیں جب کہ محمدعلی ان سے بھی زیادہ اچھے تھے زیبا آج بھی سینئرز کی بہت عزت کرتی ہیں۔ محمد علی خوش اخلاق اور لوگوں کی ہمیشہ مدد کرتے رہے۔ وحید مراد خاموش طبیعت انسان تھے مجھ سے جب ملتے بہت ادب سے ملتے، یہ ادا ان کی خوب تھی۔ ’’ مستانہ ماہی‘‘ ہٹ ہوئی تو میرے گھر مٹھائی لائے اور میرے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے لگایا۔ سلمیٰ مراد بھی ان کے ساتھ تھیں۔
نورجہاں کے گیتوں کو تو لکھنا بہت مشکل ہے کہ ان کی تعداد تو ہزاروں میں ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی محبت بھری گفتگو راقم کو آج بھی یاد ہے، انھیں جن فلموں میں ایوارڈ ملے ان میں کوئل،آگ کا دریا، لاکھوں میں ایک، فلم سالگرہ، دوستی، آج اورکل، چراغ بالی اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔ ان کی بیٹی شازیہ اور ان کے داماد حسن سردار نے ان کی کراچی میں بہت خدمت کی۔ رب ان کی مغفرت کرے۔ 23دسمبر کو ان کی برسی منائی جاتی ہے۔