غالب اور اقبال کے بعد فیض احمد فیض وہ شاعر ہیں جن کا مرتبہ بلند نظر آتا ہے، فیض کی پیدائش 13 فروری 1911 ہے۔ سیالکوٹ کو یہ مرتبہ حاصل ہے کہ وہاں علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کی ولادت ہوئی۔ ان کی شہریت پاکستانی اور برطانوی ہند ہے ان کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے تھا۔ ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے۔
فیض ترقی پسند تحریک کے کامیاب شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ شاعری کی ابتدا انھوں نے رومانیت سے کی، اس کے بعد وہ ترقی پسند نظریات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی شاعری میں بھی یہ رنگ نمایاں ہوتا چلا گیا۔
انھیں اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری کی شاعری نے بہت متاثر کیا۔ فیض کو نظم نگاری میں ملکہ حاصل تھا۔ وہ اپنے ترقی پسندانہ خیالات کو شاعری کے پیکر میں بہ خوبی ڈھال لیتے تھے۔ فیض نے مغربی شاعروں کو نہ کہ خوب پڑھا بلکہ اس کے اثرات بھی قبول کیے، انھیں فارسی اور اردو زبان پر عبور حاصل تھا۔
فیض کی شاعری نغمیت سے رچی بسی تھی۔ ان کے شعری مجموعے ’’دستِ صبا‘‘ اور ’’ زنداں نامہ‘‘ موجودہ حالات کے تناظر میں تشکیل ہوئے تھے اور جب وہ 1951 میں راولپنڈی کیس قید و بند کی مصیبتیں جھیل رہے تھے۔ ’’ دستِ سنگ‘‘ یہ وہ مجموعہ کلام ہے جو اسیری سے نجات کے بعد منظر عام پر آیا اور آزادی کی فضا میں سانس لیتے ہوئے، انھوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
ڈھلتی ہے موج مے کی طرح رات ان دنوں
کھلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ و بُو سے پُر
ویراں ہیں جام، پاس کروکچھ بہار کا
دل آرزو سے پُر کرو، آنکھیں لہو سے پُر
یہی وہ زمانہ تھا جب 1958میں فیض کو ’’ لینن پیس ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ اس مجموعے میں ان کی شاہکار نظمیں شامل ہیں۔ جشن کا دن، ’’ آج بازار میں پابجولاں چلو‘‘ فیض نے بین الاقوامی سیاست پر بھی نظمیہ شاعری کی ہے۔ 1967کی عرب اسرائیل جنگ کے پس منظر میں لکھی ہوئی ’’سروادیٔ سینا‘‘ اور ’’دُعا‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔ فیض احمد فیض اپنی اعلیٰ شاعرانہ صلاحیتوں، دانشوری، تعلیم و تعلم کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت کے مالک تھے۔
جب 1978 میں وہ ممبئی گئے تو ان سے ملنے کے لیے امیتابھ بچن، دلیپ کمار، راج کپور اور دیوآنند جیسے مہان اداکار فیض صاحب سے ملاقات کے لیے آگئے تھے۔ حکومت پاکستان نے 2011 کو فیض احمد فیض کے نام سے منسوب کر کے اس عظیم شاعر کی صد سالہ تقریبات ان کے شایان شان طریقے سے منائے جانے کا اعلان کیا اور پھر ان کے عقیدت مندوں اور ان کے قدردانوں نے ساری دنیا میں ان کی شخصیت اور فن پر تقاریب منعقد کیں، دنیا کی بہت سی زبانوں میں ان کی شاعری کے تراجم بھی ہوئے۔
اس حوالے سے روسی اسکالر ڈاکٹر لدمیلا خاصی شہرت رکھتی ہیں۔ فیض احمد فیض کی تحریروں کی وہ مترجم ہیں۔ 1967۔1984 تک بے حد لگن اور عقیدت سے یہ کام جاری رکھا، یہاں تک کہ ایک کتاب منصہ شہود پر جلوہ گر ہوگئی۔
فیض صاحب کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا لیکن انھوں نے کبھی بھی اس بات کو مخفی نہیں رکھا بلکہ اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ فیض احمد فیض نے انگریزی ادب اور عربی زبان میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے لیکچرار کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دیے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد فیض احمد فیض ’’ پاکستان ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ’’امروز‘‘ (اردو روزنامہ) اور ہفتہ وار ’’ لیل و نہار‘‘ کا بھی اجرا کیا۔ فیض صاحب ایک بڑے اور عہد ساز شاعر تھے۔
ان کی شاعری میں غم جاناں اور غم دوراں کا گہرا عکس نظر آتا ہے۔ ان کا کلام غنائیت سے بھرپور ہے، انھوں نے اپنی شاعری میں علامتوں اور استعاروں کا استعمال دلکشی کے ساتھ کیا ہے۔ ان کی شاعری میں عصری مسائل اور مظلوم طبقے کی صدا سنائی دیتی ہے۔
فیض صاحب کے بہت سے شعر زبان زدخاص و عام ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر یہ شعر جس میں راولپنڈی سازش کیس کا حوالہ ہے:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
یہ شعر بھی جو سیاسی رنگ لیے ہوئے ہے، ضرب المثل بن گیا ہے۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
اس کے ساتھ ہی اپنے مقالے کا اختتام کرتی ہوں، آپ کی سماعتوں کا شکریہ۔
(’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ کی محفل میں پڑھا گیا مضمون۔)