دُنیا بھر میں مہنگائی کی شرح میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے شاید ہی کوئی طبقہ یا فرد ایسا ہو جسے مُشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا رہا ہو۔ اس سب کے بیچ اکثر والدین خاص طور پر اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔
دل و دماغ میں یہی چل رہا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنے بچوں کو باشعور اور مثبت شہری بنانے کے لیے بہتر تعلیم دے پائیں گے؟ کیا اُن کے پاس اتنے مالی وسائل ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے اُنھیں کسی اچھے تعلی ادارے میں داخل کروا سکیں۔
اب یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر ایک ایسی چیز ہے جس میں تمام والدین شریک ہیں۔پہلی تشویش عام طور پر اچھی صحت کو برقرار رکھنے یا زندگی میں اپنے انتخاب سے خوش رہنے کے بارے میں ہوتی ہے،لیکن جیسے جیسے وہ انھیں بڑے ہوتے دیکھتے ہیں، ایک تشویش جو اکثر پیدا ہوتی ہے وہ ان کی معاشی خوشحالی کے گرد گھومتی ہے۔
برطانیہ کے میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں کرائے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر 10 میں سے سات والدین اپنے بچوں کے مالی مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔اس تشویش کے عام طور پر دو پہلو ہوتے ہیں، ایک یہ کہ اپنے مستقبل کے لیے بچت کیسے کریں، دوسرا یہ ہے کہ کیا وہ اس بچت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
مطالعات سے پتا چلا ہے کہ کم عمری سے بچت کرنے کی عادت سے بچے مستقبل میں اپنے معاشی معاملات بہتر انداز میں چلا پاتے ہیں لیکن یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ بچت کرنا اتنا آسان نہیں ہے، جیسا کہ امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی کے معاشی ماہر اور مصنف ڈین ایریلی کہتے ہیں۔
پیسے کی خامیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے بارے میں کبھی بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کب تک کسی کے پاس رہے گا، اسی وجہ سے ہمارے لیے یہ سوچنا بہت مشکل ہے کہ طویل مدت میں اس کا اصل مطلب کیا ہے۔ ایک پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ ’جو چیز واقعی اہم ہے وہ یہ ہے کہ انھیں (بچوں کو) کچھ کنٹرول رکھنے اور پیسے کے بارے میں اپنے کچھ فیصلے کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ شاید وہ کچھ غلطیاں کر سکیں۔
معاشی ماہر سٹیفنی فٹزجیرالڈ کا کہنا ہے کہ ’اوہ، کاش میں نے کچھ پیسے بچا لیے ہوتے یا میں نے اُنھیں کسی ایسی چیز پر خرچ کیا ہوتا جو طویل عرصے تک میرے پاس رہتی۔چونکہ ہمارے بچوں کو فوری طور پر پیسے کی ضرورت نہیں ہے اور طویل مدتی بچت کی مصنوعات ہمیشہ اعلیٰ فوائد پیش کرتی ہیں، لہٰذا بینکوں کی طرف سے پیش کردہ اکاؤنٹس اور ہر ایک پر سود کی شرح کا موازنہ کرنا بہتر ہے،لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ بچوں کے سادہ سے اکاؤنٹس ہیں اور یہ بچوں کو پیسے کی آمد اور اخراج کے بارے میں سمجھانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔
بینک میں اکثر دو قسم کے اکاؤنٹس ہوتے ہیں، فوری رسائی والے کرنٹ اکاؤنٹس کے ساتھ آپ کسی بھی وقت رقم نکال سکتے ہیں یا جمع کروا سکتے ہیں لیکن ان میں سود کی شرح محدود یا طویل مدتی سیونگ اکاؤنٹس کے مقابل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔اس بارے میں سمجھنے کے لیے کہ کون سا بینک بچوں کے لیے اچھے سیونگ اکاؤنٹ آفر کر رہا ہے، کُچھ ’کمپیریزن سائٹس‘ موجود ہیں جہاں آپ مختلف اسکیمز کا موازنہ کر سکتے ہیں۔
آپ بہت سے بینکس میں ایسے اکاؤنٹ بھی منتخب کر سکتے ہیں جن تک صرف وہ بچے رہی رسائی حاصل کر سکتے ہوں جن کے نام پر وہ بینک اکاؤنٹ حاصل کیا گیا ہے، مگر اس میں مزید ایک اچھی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ بچے اس اکاؤنٹ میں جمع ہونے والی رقم کو تب استعمال کر سکتے ہیں جب وہ 18 سال کے ہو جائیں۔سٹیفنی فٹزجیرالڈ کے مطابق ’اس سے کسی کے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے یا کسی ایسی چیز کو کوور کرنے کے امکانات محدود ہوجاتے ہیں جس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
لیکن سب سے بڑھ کر، آپ کو انھیں اس لمحے کے لیے تیار کرنا ہوگا اور یہ بات بھی اُن کے ساتھ کرنی ہوگی کہ آپ کی اُن سے توقعات کیا ہیں کہ آپ کی نظر میں اُنھیں یہ رقم کب، کہاں اور کس وقت استعمال کرنی ہے، جیسے یونیورسٹی میں داخلے کے وقت، مستقبل میں کسی بھی ہنگامی صورتحال کے وقت، یا پھر شاید اپنی پہلی گاڑی کی خریداری کے وقت۔
ایک اور مثبت نکتہ یہ کہ جب آپ ان کے لیے بچت کرتے ہیں تو ان سے بات کرنا ضروری ہے کہ غیر متوقع واقعات کے لیے مختص رقم کس طرح انھیں یہ احساس دلائے کہ اُن کا مستقبل محفوظ ہے۔ بس اگر اُنھیں کسی چیز پر توجہ دینی ہیں تو وہ اُن کی تعلیم ہے۔
آہستہ آہستہ، پیسے جمع کرنے کے لیے بچت کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا،آج ایک بچے کے لیے بچت اس کے مستقبل کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ نہ صرف وہ کچھ رقم کے ساتھ اپنی بالغ زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں بلکہ اس عمل میں بچوں کو شامل کرنے سے انھیں پیسے کے بارے میں اہم سبق سیکھنے میں بھی مدد ملتی ہے،لیکن اگر آپ کچھ عرصے کے لیے خاندانی صورتحال کی وجہ سے ان کے لیے بچت نہیں کرسکتے ہیں تو، معاملات مُشکل میں تو پڑ سکتے ہیں مگر کوشش سے پھر بھی آپ کُچھ نہ کُچھ کر ہی سکتے ہیں۔
ضروری بات یہ ہے کہ قرض نہ لیا جائے یا اس طرح کی کسی چیز کے لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال نہ کیا جائے۔’والدین کے لیے یہ بہت فطری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو بہترین مستقبل ملے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم افراط زر کی وجہ سے زندگی گزارنے کے اخراجات کے بحران سے دوچار ہیں اور لوگوں کی بچت کرنے کی صلاحیت اس وقت واضح طور پر کافی تناؤ کا شکار ہے۔
فنانشل پلانر کرسٹی اسٹون کے بھی ایسا ہی خیالات ہیں۔اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ ’ہم واقعی لوگوں کی حوصلہ افزائی کروں گی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے بچت کی اُمید میں قرض میں نہ جائیں یا اپنے قرضوں میں ڈیفالٹ نہ ہوں۔آپ کے بچوں کو تکلیف نہیں ہوگی اور اہم بات یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ خاندان اس وقت مالی طور پر محفوظ ہے۔ اُمید ہے، جیسے جیسے چیزیں بہتر ہوں گی، وہ مستقبل میں مزید بچت کرنے کے قابل ہوں گے۔یہ تمام والدین کے لیے پیغام ہے کہ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔