سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی عجیب دنیا میں ایلگوردم کی مہربانی سے کینوس وسیع ہونے کے بجائے محدود سے محدود تر ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کو یہ گمان رہتا ہے کہ وہ دنیا بھر کے ٹرینڈ دیکھ رہا ہے، جب کہ الگوردم بڑی باریکی اور نفاست سے اپنی چھلنی میں سے اس کی اسکرین پر وہی دکھاتا ہے جو اس کی ہسٹری کے مطابق ’’اسے‘‘ دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔
ایسے میں خبر، پروپیگنڈا اور بیانیہ کی حقیقت سچ ، جھوٹ اور مبالغہ ارائی سب یوں گڈ مڈ ہوتے ہیں کہ ہر ایک کو اپنی اسکرین پر نظر آنے والا ہی اصلی اور عالمی سچ محسوس ہوتا ہے جسے ماہرین متبادل سچ یعنی alternate reality کہتے ہیں۔
پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے ایک زوردار بحث سوشل میڈیا اور مین اسٹریم پر یہ چھڑی رہی کہ پاکستان سے ترک سکونت کے خواہش مند نوجوانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔اس رجحان کا تعلق سیاسی حالات سے جوڑا گیا۔
پی ٹی آئی اور اس سے ہمدردی رکھنے والوں نے اعداد و شمار کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے لوگوں میں اپنے ملک سے مایوسی بڑھ رہی ہے، بالخصوص نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ملک سے نکلنے کے خواہاں ہیں۔
ایپسوس یعنی IPSOS ایک عالمی تحقیقی ادارہ ہے جو مختلف سماجی اور معاشی رجحانات پر پاکستان اور عالمی سطح پر ریسرچ کرتا ہے۔ اسی ادارے کی طرف سے حال ہی میں جاری رپورٹ کے مطابق عام خیال کے برعکس ملک کے نوجوانوں کی غالب اکثریت (74%)اپنے ملک ہی میں سکونت رکھنے کو ترجیح دیتی ہے جب کہ 26 فیصد نوجوان بیرون ملک جانے کے خواہشمند ہیں۔
مزید تفصیل میں جائیں تو بیرون ملک مائیگریٹ کرنے والے نوجوانوں میں آسودہ حال طبقات اور فیڈرل کیپیٹل کے رہائشی نوجوانوں کا تناسب زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 27 فیصد، کے پی کے میں 35 فیصد، سندھ میں 20 فیصد، بلوچستان میں 21 فیصد جب کہ اسلام آباد میں 46 فیصد نوجوان بیرون ملک جانے کے خواہش مند ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق 2022 کے سروے میں 32 فیصد نوجوانوں نے بیرون ملک مائگریشن کی خواہش کا اظہار کیا تھا جو موجودہ سال میں 26 فیصد سامنے آئی، جس سے بیرون ملک مائیگریشن کے رجحان میں کمی کا اظہار ہوتا ہے۔
جو نوجوان ملک سے مائیگریشن کے خواہش مند ہیں ان کے ترجیحی ممالک سعودی عرب (تیس فیصد), دبئی (25 فیصد), یو کے (نو فیصد), کینیڈا (آٹھ فیصد ),یو ایس اے( آٹھ فیصد ) ہیں۔
گزشتہ 10 سال کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو 2015 میں تقریبا ساڑھے نو لاکھ لوگوں نے مائیگریشن کی (جوایک ریکارڈ تھا)۔
یہ تعداد کم ہو کر 2018 میں 3.82 لاکھ ہو گئی۔کووڈ کے دورانئے میں اس تعداد میں خاصی کمی آئی ، تا ہم کووڈ کے بعد 2022 میں مائیگریشن کرنے والوں کی تعداد 8.33 لاکھ، 2023 میں 8.63 لاکھ اور 2024 میں تا حال سوا پانچ لاکھ ریکارڈ کی گئی.
اعداد و شمار کا یہ رجحان بھی واضح کرتا ہے کہ مائیگریشن کے اعداد و شمار میں ایسا کوئی غیر معمولی اضافہ ریکارڈ نہیں ہوا جس کی بنا پر یہ دعوی کیا جائے کہ پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت ملک سے مایوس اور کسی بھی قیمت پر دنیا کے کسی بھی ملک میں جانے کے لیے مچل رہی ہے۔
مائیگریشن کی اس تعداد کا تقابل اگر عالمی رجحانات سے کیا جائے تو یہ غلط فہمی مزید دور ہو جاتی ہے کہ پاکستان سے زیادہ سے زیادہ لوگ بھاگنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ورلڈ مائیگریشن رپورٹ 2024 کے مطابق دنیا بھر میں 2020 تک ریکارڈ اعداد و شمار کے مطابق تارکین وطن کی تعداد 28 کروڑ کے لگ بھگ تھی جو دنیا کی آبادی کا 3.6 فیصد ہے۔ مجموعی طور پر گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران مائیگریشن کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
2020 کی تعداد کا 1970 سے موازنہ کیا جائے تو یہ پانچ گنا اضافہ ہے جب کہ اسی تعداد کو 1990 سے موازنہ کیا جائے تو یہ دو گنا سے زائد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں مائیگریشن کے رجحان میں اضافے میں تسلسل رہا ہے۔
مائیگریشن کا اہم ترین معاشی اثر ترسیلات زر کا بڑھتا ہوا حجم ہے۔ 2022 میں دنیا بھر میں تارکین وطن نے اپنے اپنے ملکوں کو جو ترسیلات زر بھجوائیں اس کا حجم 831 ارب ڈالرز تھا جو 2020 کے مقابلے میں 128 ارب ڈالر زیادہ ہے۔
بھارت 111 ارب ڈالرز کے حجم کے ساتھ دنیا میں سب سے بڑا ترسیلات زر حاصل کرنے والا ملک ہے، اس کے بعد میکسیکو۔ پاکستان دنیا بھر میں ترسیلات زر حاصل کرنے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ان ترسیلات کا جی ڈی پی میں شیئر 6.5 فیصد ہے. اس وقت حالت یہ ہے کہ پاکستان کو وصول ہونے والی ترسیلات زر مجموعی ایکسپورٹ سے زائد ہے۔
ان ترسیلات کی غیر موجودگی میں پاکستان میں مالیاتی استحکام کا تصور بھی محال ہے۔ مائیگریشن پاکستان اور پاکستان جیسے بہت سے دیگر ممالک کے لیے زر مبادلہ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ نوجوانوں کی مائیگریشن عالمی رجحانات کے مطابق پہلے بھی کم و بیش اسی رفتار سے جاری تھی اور اب بھی جاری ہے۔ گلوبلائزیشن کے دور میں ترقی یافتہ اور معاشی امکانات کے حامل ممالک میں ہنرمند افراد کی مانگ میں یقینا اضافہ ہوا ہے۔ ان میں زیادہ تر لوگ انتہائی ٹیکنیکل اور ہائی کوالیفائیڈ درکار ہیں۔ ڈنکی لگا کر جانے والوں یا غیر ہنرمند افراد کی مانگ بہت کم ہے۔
سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنانے اور سیاسی ڈھول پیٹ کر نیوز سائیکل آگے بڑھ جاتا ہے لیکن اپنے پیچھے آدھے سچ اور متبادل سچ کا ملبہ چھوڑ دیتا ہے جو بہت سے نوجوانوں کو بلا وجہ مایوسی کی طرف دھکیل دیتا ہے جب کہ زمینی حقائق اور اصل رجحان اس قدر مایوس کن نہیں ہوتے۔
عالمی رجحانات کو بھی سامنے رکھیں تو سوشل میڈیا کی اڑائی گرد کے پیچھے حالات اس قدر یک رخے نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اںصاف، امن و امان اور روزگار کی مشکلات موجود نہیں ، ضرور موجود ہیں لیکن یہ مشکلات دنیا کے بیشتر ممالک میں ہیں۔ انسان کی جبلت اور بقاء کا جذبہ کہئیے کہ ان مشکلات میں رہنا بھی اسے آتا ہے ،۔ دوسری مجبوری یہ کہ دوسری جانب کا گھاس ہمیشہ ہرا بھی تو نہیں ہوتا۔