طالب علمی کے زمانے میں، میں سرخا تھا، انقلاب پرکامل یقین رکھتا تھا۔ چی گو ویرا، فیض احمد فیض کی تصاویر بمعہ ان کی شاعری ’’ قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے‘‘ میرے کمرے کی دیواروں پر چسپاں تھے۔
رات دیر تک جاگنا، پو پھٹنے پر سونا، سگریٹ کے جلے ہوئے ٹوٹے اور بکھری کتابیں۔ میری اماں پریشان رہتیں، گو بائیں بازو سے جڑی ہوئی تھی، میری سیاست اور بائیں بازوکی سیاست سے منسلک تھے میرے انقلاب۔ اب جو خان صاحب کے چاہنے والوں کی کارروائیاں دیکھی ہیں، نو مئی سے لے کر چھبیس نومبر تک وہ انقلاب کی صورت کم اورایک مخصوص مذہبی انتہا پسندی، مخصوص طبقاتی برتری کا نظریہ یا پھر اقتدار پر قبضہ کرنے کی جدوجہد زیادہ نظر آتی ہے۔
یہ واضع ہو رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی سوچ فاشسٹ ہے اور ان کا رشتہ ایسے ہی انتہاپسند نظریات رکھنے والوں کے قبیلے سے ہے، مگر ہیں یہ بھی انقلابی۔
ہم اپنے وقت میں ایسا سمجھتے تھے کہ ایک دن سوویت یونین کی ٹینک افغانستان کے بارڈرکو عبورکر کے یہاں بھی پہنچ جائیں گی، جس طرح ببرک کارمل کابل پر مسلط کیا گیا تھا، اسی طرح یہاں کے سرخوں کو تخت پر بٹھایا جائے گا۔
بس ہمیں تھوڑی سی جدوجہد کرنی ہوگی، باقی کام وہ خود ہی کریں گے۔ یہ بھی ہوا تھا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یوگوسلواکیہ سے لے کر ہنگری، ایسٹ جرمنی اور پولینڈ سب پر وہاں کی کمیونسٹ پارٹی کو مسلط کیا گیا اور جب جبراً حکومتیں بنائی گئیں تو وہ سب آمریت نکلیں۔
رومانیہ کے چاؤ سسکو شاید آپ کو یاد ہوں اور پھرگوربا چوف نے یہ بتایا کہ سوویت یونین خود ایک قبضہ ہے۔ پھر سینٹرل ایشیا سے بالٹک ریاستوں تک کو سوویت یونین سے آزادی ملی اور یوکرین، بیلوروس اور جارجیا کو بھی۔
ان میں انقلاب صرف ایک تھا وہ تھا بالشویک انقلاب۔ جس نے اپنی بربریت خود پیدا کی اور اس انقلاب نے اسٹالن جیسے آمرکو جنم دیا، جس نے تیس سال حکومت کی۔ معاشی اعتبار سے لوگوں کو مستحکم کیا مگر اشتراکی اکانومی غیر فطری تھی۔سوویت یونین دنیا کی بڑی فوجی طاقت بنا، مگر معاشی اعتبار سے سنبھل نہ سکا بلآخر ٹوٹ گیا۔
انقلاب کا تصور بالکل ایسی ہی مثال ہے جیسے دورکے ڈھول سہانے۔ یہ سب رومانوی داستانوں کی طرح ہیں جو ساحر لدھیانوی اور فیض کے اشعار میں بستی ہیں مگر حقیقت میں ہولناک ہیں۔قصہ مختصر کر کے آگے بڑھتا ہوں کہ خاں صاحب کی تیار کردہ فوج کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے جیسا کہ بنگال کے باغیوں کا تھا، جس کا ذکر قرۃ العین حیدر نے اپنی کتاب ’’آخرشب کے ہمسفر ‘‘ میں کیا ہے۔ اس کو فیض احمد فیض نے اپنی شاعری اس طرح سے پرویا ہے
آخر شب کے ہم سفر فیض نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کس جگہ صبا صبح کدھر نکل گئی
26 نومبر کو اسلام آباد میں ڈی چوک جانا ان کی غلطی تھی۔ وہ یہ ارادہ ترک کردیتے جب خان صاحب اس بات سے متفق تھے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈی چوک پر جانا کس کا فیصلہ تھا؟ اس انقلاب کوکامیاب کرنے کے لیے کرائے کے گوریلے افغانستان سے بلوائے گئے تھے۔
یہاں موجود افغان مہاجرین بھی ساتھ تھے، یہ جہادکا بیانیہ تھا جو اس انقلاب کی پشت پناہی کر رہا تھا اور ان کی ہمت تب بڑھی جب نو مئی کے واقعے کا احتساب نہیں ہو پایا اور یہ احتساب کیوں نہیں ہو پایا، اس کے لیے حکومت ہمارے عدالتی نظام کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔
اس سے پہلے جو دو، تین معرکے خان صاحب نے مارے ہیں، اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے وہ 26 نومبر سے پہلے کے ہیں، وہ ان میں بھی کامیاب تو نہ ہوئے مگر اسلام آباد کو اس چڑھائی نے کمزور ضرور بنایا۔ ان کا بیانیہ سوشل میڈیا پر چھایا ہوا تھا۔ اس بیانیے کو فائر وال کے ذریعے فلٹرکیا گیا۔ حکومت اپنے اس قدم میں کامیاب تو ضرور ہوئی لیکن ڈیجٹل میڈیا کے خفیہ اور چور دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
ان تمام بحرانوں اور سیاسی تناؤ کے باوجود ایک چیز مثبت چلی آرہی ہے، وہ ہے پاکستان کی معیشت جو بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ خاں صاحب کی جھوٹی سچی باتوں نے اس پرکوئی منفی اثر نہیں ڈالا۔ انھوں نے بیرونی سازشوں کے ہتھکنڈے اپنائے، آئی ایم ایف کو خطوط لکھے کہ پاکستان کو امداد نہ دی جائے اور مزید یہ کہ ان کے تعلقات یہودی اور صیہونی سوچ رکھنے والی بیرونی طاقتوں کے ساتھ ہیں۔ بشریٰ بی بی نے سرِ عام فرقہ وارانہ مذہبی کارڈ استعمال کیا، ہاں! مگر ان کے چاہنے والوں پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔
خاں صاحب کے تمام اقدامات غیر جمہوری ہیں بلکہ انھوں نے جوکیا وہ اس معذور جمہوریت کے خاتمے کے لیے کیا جو اس وقت اس ملک میں رائج ہے، وہ پاکستان کی سیاسی قیادت سے نہیں بلکہ براہِ راست اسٹبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے تھے۔
آج بھی ان کا رویہ نہیں بدلاہے۔26 نومبر کا معرکہ پہلے دو معرکوں سے زیادہ طاقتور تھا اور اس بات کا بھی پروپیگنڈا کیا گیا کہ امریکا میں چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آگئی ہے اور وہ اس حکومتکو نہیں چلنے دیں گے ۔میں نے بارہا کئی سیاسی پنڈتوں کو تبصرے کرتے ہوئے سنا کہ اس بار خاں صاحب کا وار خالی نہیں جائے گا، اس حکومت کا اب خاتمہ ہے، اسٹبلشمنٹ خود ہی کوئی نئی چال چل رہی ہے۔ پروپیگنڈا کرنا پی ٹی آئی کا ایک مضبوط عمل ہے، اس عمل میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔
پھر ڈی چوک اس رات نہ جانے کیا ہوا۔ ایک مکمل اندھیرا تھا، آرٹیکل 245 پہلے ہی نافذ العمل تھا۔ ہمارا یہ خیال تھا کہ اس آرٹیکل کا لاگو ہونا بھی مؤثر نہ ہو پایا۔
پھر یہ ’’انقلابی‘‘ بہروپیے اپنی گاڑیاں تک چھوڑکر بھاگے۔ ریاست نے26 نومبرکے انتشار اور انارکی کو بھرپور انداز میں روکا۔ ایسی حکمتِ عملی شاید نو مئی کو نہیں اپنائی گئی تھی۔اسٹاک ایکس چینج نے لگا تار دو دن تک ایک لاکھ پوائنٹ کے ہدف کو چھو کر یہ باورکروا دیا ہے کہ اب پاکستان آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
خاں صاحب کی پارٹی میں اب وہ صلاحیت نہیں رہی کہ وہ دوبارہ اسلام آباد کو یرغمال بنا سکیں۔ یہ انقلاب، انقلاب لانے سے قبل ہی انجام کو پہنچ چکا ہے بلکہ پی ٹی آئی کی اپنی قیادت میں پھوٹ پڑچکی ہے۔ اب تک پی ٹی آئی کے ساتھ ریاست نے نرم برتاؤ روا رکھا۔ انھوں نے انارکی اور انتشار پھیلانے کی بھر پورکوششیں کیں لیکن ریاست نے ان پر لاٹھی نہیں اٹھائی، لیکن برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
جو لوگ اس بات کی پیشگوئیاں فرما رہے تھے کہ اسٹبلشمنٹ اس حکومت کے ساتھ نہیں، وہ غلط ثابت ہوئے۔
ریاست مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ افغان پالیسی جس کے بیج ایوب خان کے دور میں بوئے گئے اور جو جنرل ضیا الحق کے زمانے سے اس ریاست کو دیمک کر طرح چاٹ رہی ہے، اس کو خیر باد کہا جا رہا ہے۔
یہ سیاسی تضادات انھیں لوگوں کی ایماء پر ہو رہے ہیں جو اس افغان پالیسی اور اس سے جنم لینے والی معیشت اور سوچ کا خاتمہ نہیں چاہتے، جو اس ملک میں اسمگلنگ، مذہبی انتہا پسندی، منشیات کا کاروبار چاہتے ہیں۔بلیک اکانومی کو کنٹرول کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ریاست کے وسائل پر ایسے قبضہ چاہتے ہیں جیسے یہ ان کی وراثتی جائیداد ہے، ان سے کوئی حساب نہ لے اور وہ سب سے حساب لیں۔
چھبیس نومبرکے اقدامات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اب اس ملک میں فاش ازم کی مارچ کی کوئی گنجائش نہیں۔