پاکستان بنگلہ دیش تعلقات کا نیا دور
یہ ایک عجوبہ ہی کہا جائے گا کہ پاکستان کے بنگلہ دیش سے پچاس برسوں سے چل رہے دشمنوں جیسے تعلقات اب دوستی میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ یہ دوستی کا موقعہ شاید کبھی میسر نہ آتا اگر حسینہ واجد اپنے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ نہ توڑتیں اور اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لیے آمرانہ ہتھکنڈے استعمال نہ کرتیں۔
انھوں نے ہر عام انتخابات میں دھاندلی کے ریکارڈ توڑتے ہوئے کامیابیاں حاصل کیں۔ ایسے مواقع پر اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں کو جیل میں ڈالے رکھا۔ خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی ایک مقبول سیاسی رہنما ہیں وہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ بھی ہیں۔
یہ پارٹی حسینہ کی کرپشن کی وجہ سے عوام کی ہر الیکشن میں اولین ترجیح ہوتی تھی مگر انھوں نے تو اس پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی تھی۔
ادھر جماعت اسلامی بھی عوام میں خاصی مقبول ہے مگر حسینہ نے اس کے ساتھ تو وہ ظلم کیا جو شاید کسی بھی جمہوری ملک میں کسی سیاسی پارٹی سے نہیں کیا جاتا۔
جماعت اسلامی کو کرش کرنے کے لیے اس کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے وقت بنگالیوں کو قتل کیا تھا جب کہ یہ جرم کسی بھی عدالت میں ثابت نہ ہو سکا۔
جماعت کے رہنماؤں کو پھانسی دینے کی اصل وجہ بھارت کا حکم تھا۔ بھارت کو ڈر تھا کہ جماعت اسلامی ایک ایسی پارٹی ہے جو پاکستان کے بہت قریب ہے اور وہ بنگالیوں کو پھر سے پاکستان سے جوڑ سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حسینہ نے وہ سب کچھ کیا جس سے ان کا اقتدار مستحکم ہوسکتا تھا۔
وہ بھارت کے اتنے قریب چلی گئی تھیں کہ بنگلہ دیش بھارت کا ہی ایک صوبہ لگنے لگا تھا۔ حسینہ نے بھارت کو اپنی سرزمین پر بعض ایسی سہولیات بھی دیں جن سے بنگلہ دیشی عوام ان سے بدظن ہوتے چلے گئے۔
انھوں نے بھارتی فوج کو اپنی سرزمین سے گزر کر بھارت کی جنوب مشرقی ریاستوں تک پہنچنے کی سہولت بھی فراہم کی تھی۔ حسینہ کی جانب سے بھارت کی یہ ایک بڑی مدد تھی کیونکہ بھارت کی مشرقی ریاستوں میں آئے دن بغاوت کی لہر اٹھتی رہتی ہے جسے رفع دفع کرنے کے لیے پہلے شمال کی جانب سے لمبا سفر طے کر کے اور کافی وقت صرف کرکے پہنچنا پڑتا تھا۔ حسینہ عوام کی مرضی کے بغیر بھارت کو یہ سہولت دے کر کافی تنقید کا نشانہ بنی تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیشی عوام بھارت کے بنگلہ دیش میں روز بہ روز قومی مفاد کے خلاف بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور حسینہ کا ہر معاملے میں بھارت کا دم بھرنے سے ان کے خلاف ہوتے گئے۔ حسینہ کی مسلسل پندرہ سالہ حکمرانی اور کرپشن نے ملک کو نہ صرف حسینہ بلکہ بھارت سے بھی نجات حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو مجبور کر دیا تھا۔
حسینہ واجد نے عوام پر ایک اور بھی ظلم کئی سالوں سے جاری و ساری رکھا۔ انھوں نے 1971 مکتی باہنی کے دہشت گردوں کو خصوصی رعایتیں دے رکھی تھیں۔ ان کے لیے سرکاری ملازمتوں میں سب سے زیادہ کوٹہ مختص کر رکھا تھا پھر ان کی اولادوں کو بھی اس سہولت سے بہرہ مند کیا جا رہا تھا۔
اس ناانصافی نے عام بنگالیوں کے لیے کافی مشکلات پیدا کر رکھی تھیں۔ وہاں کی یونیورسٹیوں سے ہر سال ہزاروں طلبا فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں مگر سرکاری نوکریوں کے لیے مارے مارے پھرتے تھے۔
اس ناانصافی نے بالآخر نوجوانوں اور طلبا کو حسینہ کی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا۔ عوام تو پہلے ہی حسینہ کی آمرانہ حکمرانی اور کرپشن سے بے زار تھے۔ چنانچہ وہ بھی طلبا کے ساتھ مل گئے اور پھر پورے بنگلہ دیش میں حسینہ کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔
حسینہ نے اس عوامی بغاوت کو دبانے کے لیے پولیس اور فوج کو بے دریغ گولیاں چلانے کا حکم دے دیا جس سے پانچ سو سے زیادہ طلبا اور عام لوگ مارے گئے، اس قتل عام نے مظاہرین کو بے قابو کر دیا اور وہ حسینہ کی رہائش گاہ کی جانب آگ لگانے کے لیے پیش قدمی کرنے لگے ایسے میں حسینہ کو بنگلہ دیش میں کہیں پناہ نہ ملی بالآخر انھیں اپنے آقا مودی کے قدموں میں ہی پناہ مل سکی۔
اس کامیاب انقلاب کے بعد عوام نے حسینہ کے والد مجیب الرحمن کے مجسمے ملک میں ہر جگہ توڑ پھوڑ ڈالے اور دفاتر سے حسینہ سمیت ان کے والد جنھیں حسینہ نے بابائے بنگلہ دیش کا درجہ دے رکھا تھا ہٹا دی گئیں۔
وہاں اب ایک عارضی حکومت نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم ہے جس نے وہاں بھارت کی بالادستی کو ختم کر کے پاکستان سے برادرانہ تعلقات استوار کر لیے ہیں۔ اب پاکستان سے تجارت کا آغاز بھی ہوگیا ہے جو حسینہ کے دور میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ دونوں ممالک میں مزید دوستانہ تعلقات استوار ہوتے جا رہے ہیں۔