اسرائیل کی جارحیت اور امریکی مفادات
غزہ اور جنوبی لبنان میں جنگ روکنے کے لیے عالمی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی ہیں، اسرائیلی فورسز غزہ میں بھی مسلسل کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ جنوبی لبنان میں بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان غزہ میں ہوا ہے، سارا غزہ کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے جب کہ جنوبی لبنان میں بھی بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر کی تباہی ہوئی ہے۔ گزشتہ روز کی اطلاعات کے مطابق بھی اسرائیلی فوج نے فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی میں نُصیرات ، المغازی، دیر البلح اور غزہ سٹی پر بمباری کی۔
اطلاعات کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران مزید 33 فلسطینیوں کی شہادتیں ہوئی ہیں۔ یوں کل شہداء کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہوگئی ہے۔ عالمی میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری دوسری جنگ عظیم کے بعد عام شہریوں پر کی جانے والی اب تک کی سب سے بڑی بمباری ہے۔ لبنان میں اسرائیل مسلسل کارروائیاں کر رہا ہے حالانکہ یہاں جنگ بندی معاہدہ ہو چکا ہے لیکن اس معاہدے کے تین دن کے دوران بھی اسرائیلی فورسز نے معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یا ہو نے کہا ہے کہ وہ فائر بندی پر آمادہ ہو سکتے ہیں، جنگ کے خاتمے پر نہیں کیوں کہ ہمیں حماس کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ جنگ بندی میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ فائر بندی اور جنگ بندی کی بحث میں خطے میں جنگ جاری ہے۔ یوں عالمی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی ہیں۔
ادھر فلسطین کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے جمعہ کو عالمی دن منایا گیا ۔ہر سال عالمی برادری فلسطینی عوام کی عزت، حقوق، انصاف اورحق خودارادیت کے لیے یکجہتی کا اظہارکرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا کہ اس سال کی یادگار بڑی تکلیف دہ ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 کے تحت جنگ بند کرانے کی اپنی ذمے داری پوری کرے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے لیے بینکنگ سروسز کے لیے ضروری خدمات کی ایک سال تک کی مدت میں توسیع کرے۔
فلسطینیوں کے کاز کی دنیا بھر میں حمایت جاری ہے۔ ماضی میں بھی اقوام عالم فلسطینیوں کی حمایت کرتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کو ان کا حق خوداختیاری نہیں دیا گیا اور نہ ہی انھیں ان کی سرزمین پر اقتدارِ اعلیٰ دیا گیا ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ اسرائیل کا قیام عالمی قوانین کے مطابق نہیں ہے۔ اس خطے میں اسرائیل نام کی جس ریاست کے وجود کا ذکر کیا جاتا ہے، اس کا سوائے مذہبی اور عقیدہ جاتی حوالوں کے کوئی ٹھوس آرکیالوجیکل ثبوت موجود نہیں ہے جب کہ فلسطین ہزاروں برس سے چلا آ رہا ہے۔
ادھر غزہ کی پٹی میں موجود فلسطینیوں کے لیے اس علاقے میں رہائش مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ غزہ میں جاں بحق افراد کی تعداد پینتالیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور فلسطینی حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی تقریباً تمام ہی آبادی بے گھر ہوچکی ہے، آدھے سے زیادہ گھر تباہ ہوگئے یا رہنے کے قابل نہیں رہے، 80 فیصد تجارتی و کاروباری جگہیں، 85فیصد اسکول، 65 فیصد سڑکیں اور 65فیصد زرعی زمین تباہ ہوچکی ہے، غزہ کے 36اسپتال کھنڈر بنا دیے گئے ہیں، صرف 17 اسپتال ایسے ہیں جن میں علاج معالجے کی جزوی سہولتیں دستیاب ہیں، اسرائیل کی فورسز نے اسپتالوں پر جو بمباری کی ہے، اس کے نتیجے میں ایک ہزار کے قریب طبی عملہ ہلاک ہوا ہے۔
پورے غزہ میں طبی جگہوں میں صرف 1500بیڈز دستیاب ہیں، اس میں فیلڈ اسپتالوں میں موجود 650بیڈز بھی شامل ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے زیرکنٹرول مغربی کنارے کو بھی جنگ کی آگ میں گھسیٹ لیا ہے۔
اسرائیل کی فورسز نے جان بوجھ کر رہائشی عمارتوں، نہتے فلسطینیوں کے قافلوں کو نشانہ بنایا اور اسپتالوں پر بمباری کی۔ غزہ کو تخت و تاراج کرنے اور حماس کی لیڈرشپ کو شہید کرنے کے بعد اسرائیل نے لبنان کا رخ کر لیا ہے، حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کو سینئر قیادت سمیت شہید کردیا گیا، شام پر بھی اسرائیل حملے کرتا رہتا ہے۔
امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین تمام تر مظالم کے باوجود اسرائیلی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ یمن پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، بحیرۂ احمر میں موجود بحری جہازوں سے لڑاکا طیارے اور جنگی جہاز یمن کے دارالحکومت صنعا سمیت کئی علاقوں پر بمباری کرتے رہتے ہیں۔ یوں پورا مشرق وسطیٰ جنگ کی لپیٹ میں نظر آتا ہے۔
غزہ کے فلسطینی مظلومیت اور صبر و برداشت کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے ان پر ایک ایسی جنگ مسلط کر رکھی ہے جس کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ ایک سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے، اسرائیل پر کوئی ایسا دباؤ نہیں آیا جس کی بناء پر وہ جنگ بندی پر مجبور ہو جائے۔
اہم سوال یہ ہے کہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکا کی خارجہ پالیسی تبدیل ہونے جا رہی ہے یا نہیں؟ مشرق وسطیٰ میں غیر معمولی تناؤ اور غیر یقینی صورت حال کا دور دورہ ہے، اس لیے خطے کے حکام ان علامات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ نئی ریپلبکن انتظامیہ اپنے اثرورسوخ اور طاقت کو کس طرح استعمال میں لا سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ میں سیکریٹری خارجہ اور سیکریٹری دفاع کے عہدے جن شخصیات کو دیے گئے ہیں، ان کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ امید نظر نہیں آتی کہ وہ اسرائیل پر بڑا دباؤ ڈالنے کے لیے تیار ہوں گے۔ بہرحال فلسطینی عوام کی خواہش ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو مزید جارحیت سے روک کر ایک ایسے صدر کا تاثر دیں جو مشرق وسطیٰ کے تناظر میں فلسطینیوں کا حامی نہیں ہے تو ان کا مخالف بھی نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ جاری بحرانوں کو حل کریں گے، انتخابی مہم کے دوران کیے گئے ان کے وعدے کی وجہ سے ہی عرب امریکن ووٹرز نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے لیے کئی ممالک کے دروازے بند ہوگئے، دورے کی صورت میں گرفتاری کا امکان ہے۔ گو ان کی گرفتاری کا امکان نہیں ہے لیکن کسی ملک کے وزیراعظم کے لیے اس سے بڑی شرمندگی کا باعث اور کیا ہو گا کہ اس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو گئے ہیں لیکن اس کے باوجود نیتن یاہو کے چہرے پر ندامت کے کوئی آثار نہیں ہیں جب کہ امریکا نے وارنٹ گرفتاری کی مخالفت کی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت مفرور ملزم کی ہوگئی ہے۔ ترکیہ، اسپین، نیدر لینڈ، آئرلینڈ، اٹلی، کینیڈا اور برطانیہ نے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔
امریکا کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنگوں کے خاتمے کے حوالے سے جو کچھ کہہ چکے ہیں، نہیں لگتا کہ وہ ایک دن میں ساری جنگیں ختم کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے خاتمے کے لیے دو ریاستی حل کو ریپبلکن پارٹی کے اندر بہت کم حمایت حاصل ہے، جس سے یہ امکان بہت کم ہو جاتا ہے کہ نئی ٹرمپ انتظامیہ اس حوالے سے اسرائیل پر دباؤ ڈالے گی۔
پچھلے 15 برس کے دوران ریپبلکن پارٹی نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بہت کم حمایت ظاہر کی، اس لیے پارٹی کے اندر کوئی ایسا دھڑا نہیں جو اس کے لیے دباؤ ڈال سکے۔ریپبلکن پارٹی کے اندر ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو اسرائیل کے ایسے سخت گیر سیاست دانوں کی حمایت کرتے ہیں جو فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کر چکے ہیں۔ کیا امریکی صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ امن کی بحالی میں کامیاب ہوجائیں گے، اس سوال کے جواب کا انتظار پوری دنیا کو ہے ۔
صدر ٹرمپ کے لیے صدارت آسان نہیں ہو گی۔ مشرق وسطیٰ میں امریکا کے مفادات بہت زیادہ ہیں۔ اکیلا اسرائیل ان مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے امریکا اور یورپ کو عرب اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ بیس برس پہلے جو عالمی حالات تھے ان میں اب فرق پڑ چکا ہے۔ روس اور چین اپنے لیے نئے عالمی کردار کا تعین کر چکے ہیں جب کہ بھارت بھی مکمل طور پر امریکی مفادات کے تابع نہیں آنا چاہتا۔
روس، چین اور بھارت مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔ ان ملکوں کے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جب کہ ایران، عراق اور شام کے ساتھ بھی ان ممالک کے اچھے ریلیشن شپ ہیں جب کہ ترکی بھی ان ممالک کے ساتھ اقتصادی رشتوں میں بندھا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں صدر ٹرمپ کے لیے اسرائیل کی اندھی حمایت جاری رکھنا امریکی معیشت کے لیے خسارے کا سودا بن سکتا ہے۔