’’ لائیو تشدد‘‘
شاید حکومت کے خیال میں لوگ پتھر اٹھانے اور پھر چلانے سے پہلے موبائل پر آپس میں صلاح مشورے کرتے ہیں۔
مسلمان اور بالخصوص برصغیر کے مسلمان اسلامی جذبات ظاہر کرنے میں دوسرے مسلم ممالک سے ہمیشہ آگے رہے ہیں۔ یہ ان کا منفرد اعزاز ہے۔
اگر گستاخانہ فلم پر ان کا ردعمل دوسرے ملکوں سے بڑھ کر ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان بھر میں پچھلے کئی دنوں سے مظاہروں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا تھا۔
حکومت نے شاید اس پر بند باندھنے یا پھر مظاہرین کو یہ تاثر دینے کے لیے کہ وہ ان کے ساتھ ہے' جمعہ کو یوم عشق رسولﷺ منانے کا اعلان کردیا اور سرکاری تعطیل کر دی لیکن یہ تعطیل اسے مہنگی پڑی۔
جمعرات تک کے مظاہروں میں بے پناہ تشدد کا ایسا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا تھا جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنتا لیکن تعطیل نے شرپسند عناصر کے لیے آسانیاں پیدا کر دیں۔ یہ بات خاص طور پر توجہ طلب ہے کہ ملک کے ہر شہر میں جلوس نکالے گئے اور ہر جگہ امن رہا۔ صرف تین چار شہروں میں تشدد کے ایسے واقعات پیش آئے جن کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی۔
بہرحال اس شبہ کی پوری گنجائش موجود ہے کہ کوئی نہ کوئی دیسی یا ولایتی ہاتھ اس کے پیچھے ضرور تھا۔ خاص طور پر کراچی میں جو کچھ ہوا، اس پر سب حیران ہیں، وہاں تو جم کر لڑائیاں لڑی گئیں۔ عام طور پر تشدد تب بھڑکتا ہے جب پولیس پرامن جلوس پر لاٹھی چارج یا فائرنگ کرتی ہے لیکن کراچی میں تو اچانک ہی پرتشدد واقعات میں تیزی آئی۔
پاکستان میں جو جذباتی فضا بنی ، گھیراؤ جلاؤ ہوا، اس کا دنیا کو یہ پیغام ضرور گیا ہے کہ پاکستانی قوم اپنی مذہبی غیرت کے بارے میں کتنی حساس ہے لیکن اس معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کیا مغربی میڈیا میں اس پیغام کو زیادہ اہمیت دی جائے گی یا ان مظاہروں کے دوران ہونے والے پرتشدد واقعات کو زیادہ اچھالا جائے گا۔
غیرملکی قونصل خانوں کا تو خیر کچھ نہیں بگڑا لیکن پاکستان میں اپنے بھائیوں کی ملکیت بسوں' پٹرول پمپوں اور عمارتوں کو جلا کر ہم نے اپنا بے انداز نقصان کر دیا ہے۔ اس دوران ایک دو چرچ بھی جلا دیے گئے۔
اندیشہ ہے کہ باہر کا میڈیا ان چرچوں کے جلائے جانے کو اتنا زیادہ اچھالے گا کہ اصل ایشو دب کر رہ جائے گا۔ حکومت نے اپنی دانست میں قوم کا ساتھ دیا لیکن اب وہ اس ساری بدامنی کو روکنے میں ناکامی کی ذمے دار ٹھہری ہے۔
خدا جانے اسے تعطیل کا اعلان کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔ بہت بڑے بڑے مظاہرے انڈونیشیا اور بنگلہ دیش سے لے کر مصر اور ترکی تک بیشتر اسلامی ملکوں میں ہوئے لیکن کسی بھی مسلمان ملک نے حتیٰ کہ سعودی عرب نے بھی قومی چھٹی کا اعلان نہیں کیا تھا۔
کیا یہ سوچا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب مذہبی حمیت میں پاکستان سے کم ہے؟ حکومت اگر برا نہ مانے تو اسے اس شکوے کا سامنا ضرور کرنا چاہیے کہ یہ ایک غیرضروری بلکہ عاقبت نااندیشانہ فیصلہ تھا۔ مظاہرے جس طرح ہو رہے تھے، انھیں اس طرح ہوتے رہنے دینا چاہیے۔ ''سرکاری ملکیت'' میں لینے کی حماقت کرتے وقت نتیجہ مدنظر نہیں رکھا گیا۔
بدامنی کو پھیلنے سے روکنے کی حکومتی کوششیں بھی ''قابل داد'' تھیں۔ موبائل فون سروس معطل رکھی گئی اور یہ سوچ لیا گیا کہ موبائل نہیں ہو گا تو لوگ پتھراؤ اور جلاؤ گھیراؤ بھی نہیں کریں گے۔
شاید حکومت کے خیال میں لوگ پتھر اٹھانے اور پھر چلانے سے پہلے موبائل پر آپس میں صلاح مشورے کرتے ہیں۔ فون بند کرنے سے امن وامان کی جو فضا پیدا ہوئی وہ تو ہوئی لیکن کروڑوں افراد نے رابطہ کٹ جانے پر جو کوفت اور اذیت بھگتی اس کا ''ثواب'' ظاہر ہے۔
انھوں نے حکومت ہی کو بخشا ہو گا۔ حکومت کچھ اچھا بھی کرتی ہے تو اس کے ''دانشمند'' مشیر اپنی عقل سے اسے اس کے کریڈٹ سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ اس نوعیت کے تمام موقعوں پر حکومت جس بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتی ہے اسی کا ایک نمونہ یہ دانش مندی ہے کہ اس سارے معاملے میں نجی ٹی ویز کے کردار کو نظرانداز کر دیا گیا۔ یہ غور نہیں کیا گیا کہ جب ہنگاموں کی لمحہ بہ لمحہ رننگ کمنٹری کی جائے گی تو اشتعال کا دائرہ بھی پھیلے گا۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ حکومت نجی ٹی وی چینلوں سے مظاہروں کی لائیو کوریج نہ کرنے کی درخواست کرتی۔
اس کے بجائے نجی ٹی وی چینل مظاہروں کے ٹیکر چلائیں اور تفصیل صرف نیوز بلیٹنز میں دیں۔ لائیو کوریج کم سے کم ہوتی اور ٹیکروں اور خبرناموں میں واقعات کی تفصیل اس طرح بتائی جاتی کہ فلاں جگہ مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے یا انھوں نے پھر مارچ شروع کر دیا ہے، اب مظاہرین ایک قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ساری تفصیل وقفے وقفے سے آتی تو آگ بھڑکنے کے بجائے مدھم ہو سکتی تھی۔
میرے اس نقطہ نظر کو شاید آزادی صحافت کے منافی سمجھا جائے لیکن یہ معاملہ ایسا ہے کہ حکومت اور میڈیا والوں کو اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ علمائے کرام کے کردار پر کوئی اعتراض نہیں لیکن حکومت' میڈیا اور معاشرے کو یہ ضرور پتہ چلنا چاہیے کہ شرپسند لوگ کب اور کہاں مظاہرین میں شامل ہوئے۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مظاہرین کی قیادت کرنے والے حضرات صورت حال پر نظر رکھتے تو ہنگامہ آرائی شروع ہوتے ہی اپنی اپنی جماعت کے لوگوں کو جگہ بدلنے کی ہدایت دے سکتے تھے۔ مظاہرے بہت بڑے تھے لیکن افسوس کہ مختصر سی اقلیت نے ان پر ''پرتشدد'' ہونے کی تہمت لگا دی۔ شاید ابھی وقت نہیں آیا کہ ہمارے ہاں بھی پرامن احتجاج کی روایت قائم ہو اور ہم یہ ثابت کر دیں کہ ہم اپنے ہم وطنوں کو دکھ دیے بغیر بھی اپنے جذبات کااظہار کر سکتے ہیں۔