ملک میں روئی کی ریکارڈ درآمدات کے بعد مقامی روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں مندی کا رحجان
ملک میں روئی کی ریکارڈ درآمدات کے بعد ٹیکسٹائل سیکٹر کی بڑے پیمانے پر سوتی دھاگے کی درآمد کا بھی انکشاف ہوا ہے جس کے نتیجے میں مقامی روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں مندی کا رحجان دیکھا جارہا ہے جس کی وجہ سے کپاس کے کاشتکاروں اور کاٹن جنرز میں تشویش کی لہر پائی جارہی ہے۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس کو بتایا کہ مختلف ملک سے روئی کی درآمدات پر اگرچہ سیلزٹیکس کی چھوٹ ہے لیکن مقامی سطح پر پیدا ہونے والی روئی اور سوتی دھاگے کی خریداری پر 18فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے یہی وجہ ہے کہ مقامی ٹیکسٹائل ملوں کی جانب سے مختلف ممالک سے بڑے پیمانے پر روئی اور سوتی دھاگا درآمد کیا جارہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی ٹیکسٹائل ملز نے جولائی سے اکتوبر 2024 کے دوران 66ہزار میٹرک ٹن سوتی دھاگا درآمد کیا ہے جو تقریباً ساڑھے چار لاکھ روئی کی گانٹھوں کے مساوی ہیں جبکہ اس سے قبل گزشتہ کچھ عرصے میں 35لاکھ روئی کی گانٹھوں کے درآمدی معاہدے کیے گئے جن میں سے 12لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ پاکستان پہنچنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
خیال کیا جارہا ہے کہ پاکستان اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اس سال ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ 60لاکھ سے زائد روئی کی گانٹھیں درآمد کرے گا جبکہ سوتی دھاگے کی صورت میں بھی روئی کی دس لاکھ گانٹھیں درآمد ہونے کے امکانات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تازہ ترین امریکی کاٹن ایکسپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ ہفتے امریکا سے ایک لاکھ 46ہزار روئی کی گانٹھوں کے درآمدی معاہدے کیے ہیں جو ملکی تاریخ میں ایک ہفتے کے دوران زیادہ سے زیادہ روئی درآمدی معاہدے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ روئی اور سوتی دھاگے کی ریکارڈ درآمد کے باعث بین الاقوامی منڈیوں میں روئی کی قیمتوں میں ریکارڈ تیزی کے باوجود ٹیکسٹائل ملز مالکان کی جانب سے روئی خریداری میں عدم دلچسپی دیکھی جارہی ہے جس کے باعث پاکستان میں روئی یا پھٹی کی قیمتوں میں کمی کے رححان دیکھا جارہا ہے اور مندی کے اس رحجان کے باعث کاشتکاروں اور کاٹن جنرز میں تشویش کی لہر دیکھی جارہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں روئی کی قیمتیں 18ہزار روپے کی سطح سے بھی نیچے آگئی ہیں۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ مقامی روئی اور سوتی دھاگے کی خریداری پر بھی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے تاکہ ملک میں پیدا ہونے والی روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں بہتری سے آئندہ سال کپاس کی کاشت میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہوسکے۔