ہر سال 3 دسمبر کو دنیا بھر میں ’’خصوصی افراد کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، خصوصی افراد اور سول سوسائٹی کے نمائندوںکو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
خواجہ سکندر ذیشان
ڈائریکٹر جنرل سوشل ویلفیئر و بیت المال پنجاب
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کا منصوبہ ہمت کارڈ، افراد باہم معذوری کی زندگیوں میں انقلاب لا چکا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ وہی قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں جو اپنی عوام خصوصاً کمزور طبقات کا خاص خیال رکھتی ہیں، انہیں نہ صرف عام شہریوں کے برابر حقوق دیتی ہیں بلکہ ان کے مسائل و مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے خصوصی سہولیات اور مراعات بھی فراہم کرتی ہیں۔
خصوصی افراد معاشرے کا ایک اہم جزو ہیں جو زیادہ توجہ اور ہمدردی کے حقدار ہیں۔ ملکی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ نے خصوصی افراد کی تکالیف کو کم کرنے میں بلاشبہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے منصب سنبھالتے ہی عوامی فلاح و بہبود کیلئے جس طرح سنجیدگی، یکسوئی اور ثابت قدمی سے پنجاب کی عوام کی خدمت کا آغاز کیا وہ قابل ستائش ہے۔ انہوں نے صوبے میں خصوصی افراد کی بحالی کے پروگراموں میں خصوصی دلچسپی لی۔
ان کی ہدایت پر صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر و بیت المال سہیل شوکت بٹ نے مختصر مدت میں ہی خصوصی افراد کی بحالی، نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لیے ٹھوس اقدامات کیے اور موثر حکمت عملی اپنائی ہے۔ محکمہ سوشل ویلفیئر و بیت المال نے افراد باہم معذوری کے لیے بہترین اقدامات کیے ہیں جیسے ہمت کارڈ کا دوسرا مرحلہ جو دسمبر سے شروع ہو رہا ہے، خصوصی افراد کے لیے معاون آلات، CRPD کونسل کے قوانین و ضوابط کی تشکیل، ضلعی بحالی و فلاحی یونٹس (DRWUs) کی تشکیل، ADsاور سپروائزرز کو انسپکٹرز نامزد کر کے APWD 2022ء کے نفاذ کی ذمہ داری دینا، خصوصی کھیلوں کے لیے اسپورٹس کیلنڈر کا آغاز، معذوری کے بورڈز کو فعال اور بہتر بنانا اور DPMIS پر رجسٹریشن کے عمل کو آسان اور فعال بنانا۔ ہمت کارڈ پروگرام مریم نواز شریف کی خصوصی ہدایات پر عمل پیرا ہوکر شروع کیا گیا، جس کے تحت سپیشل افراد کو سہ ماہی وظائف دیے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ، وہیل چیئر، ہیرنگ ایڈ، ٹرائی سائیکل، بریل اور دیگر معاون آلات فراہم کیے جا رہے ہیں۔ مرحلہ وار سبسڈائز پبلک ٹرانسپورٹ سہولت اور قرضے بھی دیے جائیں گے۔ یہ پروگرام خصوصی افراد کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے شروع کیا گیا ہے۔دھی رانی پروگرام کے تحت تقریباً پانچ ہزار مستحق لڑکیوں کی شادی کے لئے رجسٹریشن مکمل ہو چکی ہے۔ اس پروگرام کے پہلے مرحلے میں 1500 جوڑوں کی اجتماعی شادیاں کی جائیں گی۔ حکومت پنجاب نے پہلے مرحلے کے لئے 50 کروڑ روپے جاری کیے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت، سوشل ویلفیئر اور بیت المال ڈیپارٹمنٹ ہر جوڑے کو ایک لاکھ 64 ہزار روپے کا پیکیج دے گا اور شادی کی تقریب میں شامل ہونے والے 20 مہمانوں کے لئے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا وژن یہ ہے کہ خصوصی افراد کو معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف پروگرامز شروع کیے گئے ہیں جن کے ذریعے سپیشل افراد ہنر مند بن کر اپنے مستقبل کو سنوار سکیں گے۔
محکمہ سوشل ویلفیئر و بیت المال پنجاب پہلے سے زیادہ محنت اور جستجو سے کام کر رہا ہے تاکہ خواتین، بچوں اور بزرگوں کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ سپیشل پرسنز کے لیے بھی تمام وسائل برووئے کار لائے جائیں اور پنجاب میں متوازن ترقی کا عمل جاری رہے۔ہمت کارڈ کے تحت، صوبہ بھر میں خصوصی افراد کو ہر تین ماہ کے بعد 10 ہزار پانچ سو روپے کی رقم ادا کی جا رہی ہے۔ وزیر برائے سوشل ویلفیئر پنجاب سہیل شوکت بٹ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ہمت کارڈ کے لیے ہر تحصیل لیول پر رجسٹریشن کا عمل تیز کیا جائے گا۔
پنجاب بھر میں تین لاکھ 84 ہزار کے قریب خصوصی افراد کا ڈیٹا موجود ہے، جس کے تحت دو کیٹگریز بنائی گئی ہیں: فٹ ٹو ورک اور ناٹ فٹ ٹو ورک۔ ناٹ فٹ ٹو ورک کیٹگری (جو افراد کام نہیں کر سکتے) انہیں ہمت کارڈ دیا جائے گا۔ خصوصی افراد کو سرٹیفکیٹ دینے کے لیے ہسپتالوں میں بورڈز بھی بنائے گئے ہیں جن میں ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹیوٹا پنجاب)، لیبر ڈپارٹمنٹ، سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ، ایک متعلقہ ڈاکٹر اور ہسپتال کا میڈیکل سپرانٹنڈنٹ شامل ہوتے ہیں۔ سرٹیفکیٹ میں لکھا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں اور اسی بنیاد پر اس شخص کا شناختی کارڈ بنتا ہے۔
ہمت کارڈ کے حصول کے لیے سپیشل پرسنز کا بائیو میٹریک بھی کیا جائے گا جس کے لیے پنجاب آئی ٹی بورڈ کی مدد سے ایک موبائل ایپلی کیشن بھی بنائی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمت کارڈ حاصل کرنے کے لیے ہیلپ لائن 1312 بھی قائم کی گئی ہے۔پنجاب حکومت مختلف پروگرامز پر کام کر رہی ہے جن میں افراد باہم معذوری کے حقوق کے تحفظ کے لیے صوبائی کونسل کا قیام، سرکاری ملازمتوں میں 3 فیصد کوٹہ مختص، رعایتی سفری کارڈ کے ذریعے کرایوں میں 50 فیصد رعایت، خصوصی تعلیم اداروں میں مفت تعلیم اور میڈیکل سہولیات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، خصوصی افراد کے لیے کھیل کود اور ثقافتی سرگرمیوں میں بھی شرکت کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ معاشرتی زندگی میں بھرپور طریقے سے شامل ہو سکیں۔ صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر و بیت المال سہیل شوکت بٹ نے اپنے عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی جو انقلابی اقدامات کیے ہیں، وہ قابل تعریف ہیں۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے وژن کو عملی جامہ پہناتے ہوئے خصوصی افراد کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد منصوبے شروع کیے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے بھرپور محنت کر رہے ہیں۔ سہیل شوکت بٹ نے خصوصی افراد کی رجسٹریشن اور ہمت کارڈ کی تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے صوبہ بھر میں مختلف تحصیل سطح پر کیمپ لگوائے ہیں جہاں خصوصی افراد کی رجسٹریشن اور بائیو میٹرک کا عمل تیزی سے جاری ہے۔
اس کے علاوہ، انہوں نے مختلف شہروں میں خصوصی افراد کے لیے الگ بس سروس شروع کروائی ہے تاکہ انہیں سفر میں آسانی ہو۔ سہیل شوکت بٹ کی قیادت میں سوشل ویلفیئر و بیت المال ڈیپارٹمنٹ نے خصوصی افراد کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف منصوبے شروع کیے ہیں۔ ان اقدامات کی بدولت خصوصی افراد کی زندگیوں میں نمایاں بہتری آ رہی ہے اور وہ معاشرتی زندگی میں بھرپور طریقے سے شامل ہو رہے ہیں۔حکومت پنجاب کی جانب سے خصوصی افراد کے لیے کیے جانے والے انقلابی اقدامات اور سہیل شوکت بٹ کی قیادت میں ان منصوبوں کی کامیابی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر عزم اور ارادہ مضبوط ہو تو کوئی بھی ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
خصوصی افراد کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جانے والے یہ اقدامات نہ صرف ان کی زندگیوں میں بہتری لا رہے ہیں بلکہ معاشرے میں بھی ایک مثبت تبدیلی کا باعث بن رہے ہیں۔
حکومت پنجاب کی جانب سے خصوصی افراد کے لیے کیے جانے والے انقلابی اقدامات اور صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر و بیت المال سہیل شوکت بٹ کی انتھک محنت اور کوششیں قابل ستائش ہیں۔ ان اقدامات کی بدولت خصوصی افراد کی زندگیوں میں نمایاں بہتری آ رہی ہے اور وہ معاشرتی زندگی میں بھرپور طریقے سے شامل ہو رہے ہیں۔ ان اقدامات سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب خصوصی افراد کی فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے اور ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
ڈاکٹر خالد جمیل
بگ برادر
حکومت نے خصوصی افراد کے لیے ہمت پیکیج کا اعلان کیا ہے جو انتہائی اہم اور اچھا قدم ہے۔ اگرچہ یہ رقم زیادہ نہیں ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ بہتر ہے اور خصوصی افراد کی بحالی کی طرف اہم پیشرفت ہے۔
ہم اس اقدام کو سراہتے ہیں اور خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں۔ خصوصی افراد کے حوالے سے رواں برس ہماری تحریک کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہمارے لیے پلاننگ کریں لیکن ہمارے بغیر نہیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ معاشرہ ہمارے بارے میں اچھی رائے رکھتا ہے اور ہمارے لیے بہتری لانا چاہتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں کو ہمارے اصل مسائل کے بارے میں علم نہیں ہے۔
مسائل کا بہترین ادراک خود خصوصی فرد کو ہی ہوسکتا ہے لہٰذا جب بھی ہمارے لیے کوئی پالیسی بنائی جائے،ا س میں ہمیں اور ہماری رائے کو لازمی شامل کیا جائے۔ جب لوگوں کو ہمارے مسائل کا اندازہ نہیں ہوگا اور وہ ہمارے لیے منصوبہ بندی کریں گے تو یہ یقینا یہ زیادہ سود مند نہیں ہوگی۔ سرکاری و نجی سطح پر جہاں بھی خصوصی افراد کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جائیں وہاں خصوصی افراد کے نمائندوں کو لازمی شامل کرنا چاہیے، سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر موثر نتائج حاصل نہیں ہوسکتے ۔
رواں برس خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پر ہمارا مطالبہ ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خصوصی افراد کیلئے کم از کم دو نشستیں مختص کی جائیں۔ اقلیتوں کی تعداد ہمارے سے کم ہے، اگر ان کیلئے کوٹہ رکھا جاسکتا ہے تو ہمارے لیے کیوں نہیں؟ ملک کی 10 فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے، اتنی بڑی آبادی کے مسائل اور ان کا حل الگ ہے، ضروریات مختلف ہیں لہٰذا مسائل کے حل کیلئے پارلیمان میں ان کی آواز ہونا ناگزیر ہے۔
اس وقت بنیادی مسائل تین ہیں۔ پہلا یہ کہ خصوصی افراد کا علاج ہر ہسپتال میں مکمل فری ہونا چاہیے۔ ان کی تعلیم مفت ہونی چاہیے۔ یہ سوشل اور میڈیکل ماڈل سری لنکا جیسے ملک میں بھی ہے۔ تیسرا یہ کہ ان کے لیے ملازمت کا لازمی بندوبست کیا جائے۔ اگر کوئی ملازمت نہیں کر سکتا تو قرض حسنہ دیا جائے، سرمایہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ کوئی ایسا کام کرسکے جو اس کی معذوری کے حساب سے ہو اور وہ اپنی زندگی بہتر انداز میں گزار سکے۔
شاہنواز خان
نمائندہ سول سوسائٹی
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں 65کروڑ سے زائد خصوصی افراد ہیں۔ پاکستان میں ان کی تعداد ڈیڑھ سے پونے دو کروڑ کے لگ بھگ ہے جو مختلف نوعیت کی ذہنی اور جسمانی مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان میں خصوصی افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق حال ہی میں قانون پاس ہوا ہے جس میں ان کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ متعین ہے اور دیگر سہولیات دی گئی ہیں عملدرامد نہیں ہوا۔
اس کے علاوہ علاج کی مفت سہولیات اور خصوصی افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جبکہ پرائیویٹ اداروں میں 50فیصد فیس معافی اور روزگار کی یقینی فراہمی بھی اس قانون کا حصہ ہے۔ مگر اس کے باوجود اکثر خصوصی افراد کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور پولیس کے ڈنڈے بھی کھانے پڑتے ہیں۔ پاکستان میں خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے خصوصی تعلیمی ادارے اور سماجی ادارے احسن طریقے سے کام کر رہے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں تقریباً 264 تعلیمی ادارے سماعت و بصارت سے محروم طلباء، ذہنی پسماندگی اور جسمانی معذوری کے شکار طلباء کو تعلیم اور پیشہ وار تربیت سے آراستہ کر رہے ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا خصوصی بچوں کو صرف خصوصی تعلیمی اداروں میں محدود کرکے انہیں معاشرے کا مفید اور فعال شہری بنایا جاسکتا ہے؟ ترقی یافتہ ممالک میں قابلِ رسائی ٹیکنالوجی اور مددگار آلات کی بدولت سماعت اور بصارت سے محروم افراد بھی آفس ورک باآسانی کرلیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی آجرین اور کاروباری اداروں کی انتظامیہ کو اس ضمن میں تربیت کی ضرورت ہے اور انہیں معذوری کی اقسام کے مطابق اپنے اداروں میں ملازمتیں پیدا کرنے کی آگاہی ملنی چاہیے۔
وطن عزیز میں خصوصی افراد کی معاشی و معاشرتی بحالی کے لیے ہر سطح پر سیاسی امور میں ان کی شمولیت لازم و ملزوم ہے۔ ہمارے ملک میں مقامی حکومت، صوبائی و وفاقی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی طرح خصوصی افراد کے لیے بھی نشستیں مختص ہونی چاہئیں تاکہ افرادِ باہم معذوری سے متعلق بننے والی تعمیر و ترقی کی تمام پالیسیوں کے بارے میں اُن کی رائے شامل حال رہے کیونکہ وہ اپنے مسائل اور اُن کے حل کی بہتر طور پر نشاندہی کرسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مقامی حکومت، صوبائی و وفاقی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی طرح خصوصی افراد کے لیے بھی نشستیں مختص ہونی چاہئیں۔
لالہ جی سعید اقبال مرزا
قائد اعظم گولڈ میڈلسٹ، چیئر مین پاکستان اسپیشل پرسن
خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پر سیمینار اور ٹیبلو پیش کرنے کے علاوہ کوئی ٹھوس کام نہیں ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے خصوصی افراد کی بحالی ارباب اختیار کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے خصوصی افراد کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا گیا ہے جو اقساط میں ادا کیا جاتا ہے، میرے نزدیک یہ بھیک کی جدید شکل ہے۔
تعلیم یافتہ خصوصی افراد کو ملازمتیں دی جائیں اور ہنرمند خصوصی افراد کو دس لاکھ روپے تک قرض حسنہ دیا جائے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔ جو افراد معذوری کی وجہ سے بستر سے نہیں اٹھ سکتے انہیں مزدور کی تنخواہ کے برابر ماہانہ وظیفہ دیا جائے، یہ ڈائریکٹ ان کے بنک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیا جائے۔خصوصی افراد کے تعلیم یافتہ بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر سرکاری نوکریاں دی جائیں تاکہ وہ اپنے والدین کی کفالت کر سکیں۔
ہمارے ہاں آج بھی لوگوں کو سپیشل پرسنز کے بارے میں آگاہی نہیں، سرکاری دفاتر میں بھی ان سے اچھا برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ قیام پاکستان سے لے کر 1980ء تک خصوصی افراد کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے ڈاکٹر خالد جمیل اور میری کاوشوں پر جنرل ضیاء الحق نے 1981ء میں سرکاری اداروں میں خصوصی افراد کے 1 فیصد کوٹہ کا آرڈیننس جاری کیا۔
اس آرڈنینس کی وجہ سے بیرون ملک سے سپیشل پرسنز کو 1300 سی سی تک کسٹم فری گاڑی منگوانے کی سہولت ملی، پاکستان ریلوے اور پی آئی اے میں سفر پر 50 فیصد رعایت اور بڑے ہسپتالوں میں سپیشل پرسنز، والدین اور ان کے خاندان کو مفت علاج معالجے کی سہولت ملی۔ اس وقت پاکستان میں دو کروڑ ، پنجاب میں پچاس لاکھ جبکہ سندھ میں بیس لاکھ سے زائد خصوصی افراد ہیں۔ خیبر پختونخوا، بلوچستان اورآزاد و جموں کشمیر میں بھی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آبادمیں بیس ہزار سے زائد خصوصی افراد ہیں۔ ہم خصوصی افراد کے حوالے سے ہر ممکن آواز اٹھا رہے ہیں۔
یہ ہماری کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج عدلیہ، پولیس و دیگر سرکاری اداروں کی عمارتوں میں خصوصی افراد کیلئے ریمپ موجود ہیں۔ خصوصی افراد کو مضبوط آواز دینے کیلئے پارلیمان میں نمائندگی دی جائے، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں کم از کم 3، 3 نشستیں مختص کی جائیں۔
ہمارے دیرینہ مطالبے پر پنجاب کے بلدیاتی اداروں میں خصوصی افراد کی ایک مخصوص نشست کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے، جب بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے، خصوصی افراد بھی اس میں آگے آئیں گے۔ خصوصی افراد کو معذوری کے سرٹیفکیٹ کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے، روزانہ کی بنیاد پر سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں۔ رواں برس عالمی دن کے موقع پر ہمارا مطالبہ ہے کہ خصوصی افراد کی الگ وزارت اور الگ محتسب کا ادارہ قائم کیا جائے۔