اسلام آباد احتجاج کے بعد ریاست مخالف پروپیگنڈا کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ، ٹاسک فورس قائم

چیئرمین پی ٹی اے کی سربراہی میں دس رکنی جوائنٹ ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے


ویب ڈیسک December 01, 2024

اسلام آباد:

اسلام آباد احتجاج کے بعد ریاست پاکستان کے خلاف مذموم پروپیگنڈا کرنےوالوں کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے ان افراد کی شناخت کے لیے جوائنٹ ٹاسک فورس تشکیل دے دی گئی۔

حالیہ دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں کے بعد پاکستان کی ریاست اور خصوصاً سیکیورٹی فورسز کو بدنام کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر مذموم مہم چلائی جا رہی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے بے بنیاد اور اشتعال انگیز خبروں کو پھیلایا جا رہا ہے، جس کا مقصدریاستی اداروں کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب دکھانا ہے۔

اس مہم کا مقصد ملک میں امن وامان کی صورتحال کو خراب کرنا، صوبائیت اور نسلی تقسیم کو ہوا دینا اور مخصوص سیاسی مقاصد کو حاصل کرنا ہے۔ غیر ملکی سامعین کو متاثر کرنے کے لیے، اس دشمنانہ مہم کے محرکین نے جعلی پرتشدد تصاویر اور مواد کا استعمال کرتے ہوئے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تاثر دینے کی کوشش کی۔

وزیراعظم نے اس صورتحال کے پیش نظر ایک مشترکہ ٹاسک فورس (JTF) کے قیام کا حکم دیا ہے تاکہ اس مہم میں ملوث عناصر کی تحقیقات کی جا سکے۔ ٹاسک فورس کے سربراہ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے چیئرمین ہوں گے۔

ٹاسک فورس میں جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ جوائنٹ سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات، ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے، ڈائریکٹر آئی ٹی، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، جوائنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو، ڈی آئی جی پولیس اسلام آباد اور آئی ایس آئی اورایم آئی کے نمائندے بھی شامل کیے گئے ہیں۔

ٹاسک فورس کو اختیارات تفویض کردیے گئے ہیں اور اس کی ذمے داریوں میں 24 سے 27 نومبر 2024 کے دوران اسلام آباد میں سیاسی شرپسندوں سے متعلق جھوٹی اور گمراہ کن خبروں کے پھیلاؤ میں ملوث افراد، گروہوں یا تنظیموں کی نشاندہی کرنا، ملک کے اندر یا بیرون ملک اس مذموم مہم میں شامل افراد یا گروہوں کو تلاش کرکے قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لانا اور پالیسی کے خلا کو ختم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کرنا شامل ہے۔

ٹاسک فورس کو 10 دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے اور ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت دی گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔