نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مصنوعات پر محصولات عائد کرنے کی دھمکیوں کے بعد کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو ٹرمپ سے ملنے فلوریڈا پہنچ گئے۔ یہ ملاقات ان کے دورے کے سرکاری شیڈول میں شامل نہیں تھی۔
دوسری جانب ٹرمپ نے دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے گروپ BRICS کو امریکی ڈالرکی متبادل کرنسی لانے پر خبردارکرتے ہوئے کہا ہے کہ برکس ممالک نہ تو اپنی کرنسی لائیں نہ ہی ڈالر کے متبادل کرنسی کی حمایت کریں، ایسا کیا تو ان پر 100 فیصد ٹیکس لگے گا۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25 فیصد محصول عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جب کہ میکسیکو کی صدر نے بھی ٹرمپ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا۔کینیڈا اور میکسیکو ٹرمپ کے تجارتی خطرات کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جس کے بارے میں ماہرین نے خبردارکیا ہے کہ امریکی صارفین کو بھی سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کینیڈا کی برآمدات کا تین چوتھائی سے زیادہ، یا592.7 ارب کینیڈین ڈالر (423 ارب امریکی ڈالر) گزشتہ سال امریکا کوگیا اور تقریباً 20 لاکھ کینیڈین ملازمتوں کا انحصار تجارت پر ہے۔ کینیڈا کے ایک سرکاری ذریعے نے بتایا کہ کینیڈا، امریکا کے خلاف ممکنہ جوابی محصولات پر غورکررہا ہے۔ پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ صوبے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جب اس طرح کے بیانات دیتے ہیں، تو وہ ان پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے کے اوائل میں امریکا کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں خوف و ہراس پھیلا دیا جب انھوں نے کہا کہ وہ میکسیکو اورکینیڈین درآمدات پر 25 فیصد اور چین سے آنے والی اشیاء پر 10 فیصد محصولات عائد کریں گے۔
انھوں نے ان ممالک پر الزام لگایا کہ وہ منشیات، خاص طور پر غیر قانونی تارکین وطن کے ذریعے امریکا پر حملے کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ میکسیکوکی صدر کلاڈیا شین بام نے ڈونلڈٹرمپ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا، تاہم دونوں رہنماؤں کے موقف میں کافی تضاد تھا۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ میکسیکو کی بائیں بازو کی صدر نے میکسیکو اور امریکا کے درمیان ہماری جنوبی سرحد کو موثر طریقے سے بند کرتے ہوئے ہجرت روکنے پر اتفاق کیا ہے۔
کینیڈا کی پولیس اور تارکین کی مدد کرنے والے گروپس امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد کی توقع کر رہے ہیں اور وہ اس صورت حال سے نمٹنے کی تیاری میں مصروف ہو گئے ہیں،کیونکہ 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بنے تھے تو پناہ کے متلاشی ہزاروں افراد کینیڈا میں داخل ہوگئے تھے۔
اس وقت زیادہ تر تارکین کیوبک اور نیویارک کی سرحد سے کینیڈا میں داخل ہوئے تھے۔ پناہ کے متلاشی افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس کا کہنا ہے کہ اگر آپ لوگوں کو درست طور پر راستہ نہیں دیں گے تو وہ غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔
ڈونلڈ جان ٹرمپ کی کہانی نیویارک کے علاقے کوینز سے شروع ہوئی، جہاں ان کی پیدائش 14 جون 1946 کو ہوئی۔ ان کے والد، فریڈ ٹرمپ جرمنی سے ہجرت کرکے امریکا آباد ہوئے تھے جہاں انھوں نے پراپرٹی کے کاروبار میں خاصی کامیابی بٹوری۔ سیاست میں کوئی تجربہ نہ ہونے کے باوجود، ٹرمپ نے امریکا کا صدر بننے کے بعد اپنے خیالات اور پالیسیاں امریکی عوام تک پہنچانے کے لیے روایتی راستوں کے بجائے ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکا استعمال کیا اور ٹوئٹر پر ہی اپنے بیانات سے غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ کھلے ٹکراؤ کی صورت حال پیدا کی۔
انھوں نے اپنے سابقہ دور میں بڑے موسمیاتی اور تجارتی معاہدوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا، سات مسلم اکثریتی ممالک سے سفر پر پابندی عائد کی، سخت امیگریشن قواعد متعارف کرائے، چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغازکیا، ریکارڈ ٹیکس کٹوتیاں نافذ کیں اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات کو نئی شکل دی۔ اس کے علاوہ، انھوں نے عدلیہ میں اہم تبدیلیاں کیں اور سپریم کورٹ میں کئی ججوں کی تقرری کی۔ فوجی بجٹ میں اضافہ، سرحدی سیکیورٹی کو سخت کرنا، اور کرمنل جسٹس ریفارمز بھی ان کی پالیسیز میں شامل رہے۔
نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ عالمی معیشت میں امریکی ڈالر کے متبادل کا کوئی امکان نہیں، ڈالرکے متبادل کرنسی کی حمایت کرنے والے برکس ممالک کو امریکی معیشت میں جگہ نہیں ملے گی۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق برکس ممالک کا اپنی کرنسی میں تجارت کا منصوبہ زیر غور ہے۔ برکس برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقا پر مشتمل گروپ ہے۔ رواں برس برکس میں عرب امارات، ایران، مصر اور ایتھوپیا نے بھی شمولیت اختیارکی۔
اسی طرح چین کے صدر شی جن پنگ نے امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے رہنماؤں نے لیما میں ایشیا بحرالکاہل کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ملاقات کی جس میں جنوری میں ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی پر نئی تجارتی جنگوں اور سفارتی تناؤ کے خدشات کا احاطہ کیا گیا۔ شی جن پنگ اور بائیڈن نے تجارت سے لے کر تائیوان تک کے معاملات پر تناؤ کو کم کرنے کی کوششوں پر بات کی ہے۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے روز سے ہی میکسیکو،کینیڈا اور چین سے آنے والی تمام درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی عائد کر دیں گے جب کہ چین کا یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ کسی بھی تجارتی جنگ میں کوئی کامیاب نہیں ہو گا۔ واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگیو کا کہنا ہے کہ چین یہ سمجھتا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس کا اقتصادی اور تجارتی تعاون فریقین کے لیے فطری طور پر فائدہ مند ہے۔
صدارتی منصب کا حلف اٹھانے کے بعد مسٹر ٹرمپ کے ایجنڈے میں سرفہرست مسئلہ توانائی کا ہوگا جس میں گھریلو بلوں کو کم کرنے کے لیے سپلائی میں اضافہ درکار ہوگا، توانائی کی اونچی قیمتیں اس افراط زرکا ایک طاقتور محرک رہی ہیں، جس نے امریکی صدر جوبائیڈن کی صدارت کے ابتدائی سالوں کو متاثرکیا۔ اس سلسلے میں رکاوٹوں کو مارکیٹوں اور توانائی کی کمپنیوں کو یہ سگنل بھیجنا کہ ہم دوبارہ کاروبار کے لیے کھلے ہیں، درحقیقت توانائی کی قیمتوں کو طویل مدت تک کے لیے کم کرنے کا باعث بنے گا۔
امریکی صدارتی انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ طرزِ سیاست اور تبدیل شدہ امریکی پالیسیوں کو واپس لانے کی خواہش ظاہر کی۔ امریکا میں عوام کی اکثریت معاشی مسائل، امیگریشن قوانین کی سختی اور امریکی حکومت میں ڈرامائی تبدیلیاں چاہتی تھی، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منشور میں جگہ دی اور پھرکامیابی سے ہم کنار ہوئے۔
اس کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسی حکومت کی تشکیل کا ارادہ رکھتے ہیں جو ان کے مخالفین پر کڑی نظر رکھے، بڑے پیمانے پر تارکینِ وطن کو نکالے اور امریکی اتحادیوں کے لیے سخت پالیسی بنائے۔ مذکورہ اقدامات کے ذریعے ٹرمپ نے ایک مضبوط امریکی قوم کا جو نظریہ پیش کیا، وہ نوجوان ووٹرز میں مقبول ہوا۔
اب صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد امریکی عوام کو ریپبلکن پارٹی کی حکمتِ عملی سے جو توقعات ہیں ان میں معاشی اصلاحات، امیگریشن کنٹرول اور امریکا کی عالمی پوزیشن کو دوبارہ مضبوط کرنا شامل ہیں۔
کانگریس اور سینیٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کو اپنے قوانین اور پالیسیز نافذ کرنے میں ڈیموکریٹس پارٹی کی مخالفت کا سامنا کم کرنا پڑے گا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی عوام ٹیکس میں چھوٹ، قومی سلامتی میں سختی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیے جانے کی توقع کر رہے ہیں۔
حالیہ صدارتی انتخابات امریکی سیاسی نظام کے مستقبل کو ایک نئی سمت کی طرف لے گئے ہیں اور عوام کے لیے یہ تبدیلی کئی اہم معاملات پر اثر انداز ہو گی۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مرکز سب سے پہلے امریکا ہے اور ان کی معاشی پالیسی امریکا میں کاروبار اور ملازمتوں کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس کٹوتیاں اور تجارتی معاہدوں میں ترامیم ہیں جن کا مقصد ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔
امریکی سیاست کے مستقبل پرکئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر کس حد تک عمل کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کیا ٹرمپ کے اقدامات سے مستقبل قریب میں دنیا بھر میں نئی تجارتی جنگیں اور مزید سفارتی تناؤ سامنے آئے گا، اس سوال کا جواب آنے والے وقت میں ملے گا۔