تحریک انصاف کی فائنل کال کی ناکامی کے بعد حکومت نے تحریک انصاف کے خلاف ایک جارحانہ حکمت عملی شروع کی ہوئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فائنل کال کی ناکامی سے حکومت مضبوط ہوئی ہے اور شہباز شریف ایک مضبوط وزیر اعظم کے طور پر ابھرے ہیں۔
انھوں نے ایک دفعہ پھر تحریک انصاف کو سیاسی محاذ پر شکست دی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جب سے شہباز شریف وزیر اعظم بنے ہیں انھوں نے ہر محاذ پر تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کو شکست دی ہے۔ لیکن فائنل کال کی ناکامی اور اس میں حکومت کی فتح نے شہباز شریف کو ایک طاقتور ترین وزیر اعظم بنا دیا ہے۔ انھوں نے اپوزیشن کی احتجاجی سیاست کو شکست دے دی ہے بلکہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات کو بھی ظاہر کیا ہے۔
ویسے تو یہ اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف دوبارہ اسلام آباد ڈی چوک کی کال دینے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ بشریٰ بی بی سمجھتی ہیں کہ فائنل کال کی ناکامی اور ان کے وہاں سے فرار نے انھیں سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچا دیا ہے۔
ان کی سیاست ڈی چوک سے فرار کی وجہ سے ختم ہو گئی ہے۔ اس لیے وہ دوبارہ کال دینے کی خواہش رکھتی ہیں۔ لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں نہ تو دوبارہ اسلام آباد کی طرف فائنل کال جیسی کال ممکن ہے اور نہ ہی بشریٰ بی بی کو سیاسی طور پر جو نقصان ہو گیا ہے اس کو ختم کرنے کا کوئی راستہ موجود ہے۔ وہ میدان سے بھاگ گئی ۔ یہ ان کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا رہا رہے گا۔
لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کے ڈی چوک سے بھاگنے کا بھی وزیر اعظم شہباز شریف کو سیاسی طور پر بہت فائدہ ہوا ہے۔ یہ دونوں ان کے سیاسی حریف تھے اور ان کے دونوں سیاسی حریف ایک ہی معرکہ میں ان سے شکست کھا گئے۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ دونوں شہباز شریف کو وزارت عظمی سے اتارنے کے لیے آئے تھے۔ وہ حکومت ختم کرنا چاہتے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ شہباز شریف کی حکومت ختم کرنے کے چکر میں انھوں نے اپنا بہت سیاسی نقصان کر دیا اور شہباز شریف کو مضبوط کر دیا ہے۔ یہی سیاست کی بنیاد ہے جہاں مخالف کی غلطی آپ کو بہت فائدہ دیتی ہے۔ فائنل کال میں کی جانیوالی غلطیوں نے شہباز شریف کو بہت فائدہ دیا ہے۔
فائنل کال نے شہباز شریف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان پہلے سے موجود بہترین تعلقات کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔ فائنل کال سے پہلے ملک میں یہ رائے بن رہی تھی کہ بانی تحریک انصاف اور تحریک انصاف کے اسٹبلشمنٹ سے پس پردہ مذاکرات جاری ہیں۔ مذاکرات جاری تھے یا نہیں لیکن عوام میں یہ تاثر بن رہا تھا کہ پس پردہ بات چیت جاری ہے۔
اچھے بھلے سمجھدار لوگ بھی کہتے دکھائی دیے کہ آپ کو نہیں پتہ بات چیت جاری ہے۔ لیکن فائنل کال کی ناکامی نے اس سارے تاثر اور ایسی تمام چہ میگوئیوں کو ختم کر دیا ہے۔ تحریک انصاف بانی تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان خلیج بہت وسیع ہو گئی ہے۔ جس کا بھی سیاسی فائدہ شہباز شریف کو ہی ہوا ہے۔
رینجرز اہلکاروں کی شہادت اور ان کے جنازوں کو وزیر اعظم اور آرمی چیف کی جانب سے اکٹھے کندھا دینے کی تصاویر بھی تحریک انصاف اور ان کی احتجاجی سیاست کو ایک واضح پیغام تھا۔
جہاں یہ فورسز کو واضح پیغام تھا کہ ہم اپنے شہدا کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان تصاویر نے فورسز کا مورال بھی بلند کیا اور حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے ایک پیج پر ہونے کا عوامی ثبوت بھی دیا۔ بہرحال اس کا فائدہ بھی شہباز شریف کو ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن کا مورال کمزور اور شہباز شریف کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔
شہباز شریف نے جب وزارت عظمیٰ سنبھالی تھی تو ایک رائے تھی کہ یہ ایک کمزور حکومت ہو گی۔ ایک طرف اتحادیوں کا دباؤ اور دوسری طرف اپوزیشن شہباز شریف ہر وقت ایک پل صراط پر چل رہے ہوں گے۔ اگر اتحادیوں سے نبٹیں گے تو اپوزیشن پکڑ لے گی اور اپوزیشن سے نبٹیں گے تو کوئی نہ کوئی اتحادی پکڑ لے گا۔ واضح اکثریت نہ ہونے سے وہ عددی طور پر بھی کمزور ہوں گے اور سیاسی طور پر بھی کمزور ہوں گے۔ لیکن آج انتخابات کے دس ماہ بعد ہی انھوں نے ایک کمزور حکومت کو مضبوط حکومت میں تبدیل کر دیا ہے۔ اتحادیوں کو بھی ساتھ رکھا ہوا ہے اور اپوزیشن کی احتجاجی سیاست کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے۔ جلسوں جلوسوں اور مارچ سے بھی نبٹ لیا ہے۔ انتخابات کے بعد حکومت کمزور نظرآرہی تھی اور اب اپوزیشن کمزور نظر آرہی ہے۔
تحریک انصاف کو سڑکوں پر شکست دینے سے پہلے شہباز شریف نے اپوزیشن کو پارلیمان میں بھی شکست دی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری پارلیمان میں اپوزیشن اور بالخصوص تحریک انصاف کی بڑی شکست تھی۔ یہ ماننا ہوگا کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کو روکنے کے لیے اپوزیشن نے بہت زور لگایا۔ حتیٰ کے سپریم کورٹ کے ایک بنچ سے بار بار وضاحتوں کا جاری ہونا بھی پارلیمان میں 26ویں آئینی ترمیم کو روکنے کے لیے دیکھا گیا ہے۔ تاہم اس ترمیم کی منظوری نے عددی طو رپر کمزور حکومت کو دو تہائی کی حامل اکثریتی حکومت بنا دیا۔ اب یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت موجود ہے، وہ جب چاہے ایک اور ترمیم کر سکتی ہے۔ اس لیے پارلیمانی طور پر بھی شہباز شریف ایک مضبوط وزیر اعظم بن چکے ہیں۔
شہباز شریف نے آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ایسی قانون سازی بھی کی ہے جس سے حکومت مزید مضبوط ہو گئی ہے۔ بالخصوص سروسز چیف کی مدت ملازمت کو پانچ سال کرنے سے جو لوگ کسی سیاسی عدم استحکام کو دیکھ رہے تھے وہ بھی نا امید ہو گئے ہیں اور حکومت کو بہرحال اس قانون سازی کا بہت فائدہ ہوا ہے۔پارلیمان نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے ملک میں جیوڈیشل ایکٹوزم کا جن بھی بوتل میں بند کر دیا ہے۔ خارجہ محاذ پر بھی پاکستان کو کامیابیاں ملی ہیں۔
آج سب کہہ رہے ہیں کہ اب یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی ۔ حکومت کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سب کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف نے دس ماہ میں ہی تمام حریفوں کو شکست دے دی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشی محاذ پر مثبت خبروں نے بھی شہباز شریف کی سیاسی ساکھ کو بہت بہتر کیا ہے۔ لوگوں کو معاشی محاذ پر بہتری نظر آرہی ہے۔
اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، آئی ایم ایف پروگرام کا منظور ہونا، شرح سود میں کمی، مہنگائی میں کمی، ان سب نے بھی شہباز شریف کو سیاسی طور پر مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے مخالف بھی ان کی کارکردگی کے معترف نظر آرہے ہیں۔