تحریک انصاف نے 24 نومبر کے احتجاج کی جو کال دی تھی، اسے اس نے فائنل کال کا نام دیا تھا اور وہ جس انجام سے دوچار ہوئی اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک قبل از وقت دی جانے والی بے سروپا ایک جذباتی کال تھی۔
اس کی نہ پہلے سے کوئی تیاری کی گئی تھی اور نہ کوئی مناسب پلاننگ ، یہ محض ایک شخص کے کہنے پر شروع کردی گئی اور شروع کرنے سے پہلے پارٹی کے اندرکوئی مشورہ بھی نہیں کیا گیا۔ صرف ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کے بھروسے پر وفاق پر منظم حملہ کر دیا گیا، وہ وزیراعلیٰ جس کے اپنے صوبے میں امن و امان کی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور جو ابھی تک اپنے صوبے کے لیے کوئی قابل قدر کام بھی نہیں کر پایا ہے اور جو صرف مولاجٹ کی طرح دھمکیاں دیتا ہے۔
پچھلے نو مہینوں میں اس نے اس کے سوا اورکوئی قابل ذکر کام بھی نہیں کیا۔ وہ سمجھتا ہے کہ لوگ اس کے اس اسٹائل سے مرعوب ہوجائیں گے اور شاید پی ٹی آئی کے چاہنے والوں کو بھی ایسا ہی اسٹائل پسند ہے۔ خود پارٹی کے بانی بھی ایسے لوگوں کو اپنا زیادہ وفادار سمجھتے ہیں اور انھیں پر بھروسہ بھی کرتے ہیں۔
خاموش طبع اور مہذب افراد کے لیے اُن کے یہاں کوئی اہمیت نہیں ہے، وہ انھیں کمزور اور بزدل تصور کرتے ہیں۔ اپنی گرفتاری سے پہلے بھی یا جب وہ برسراقتدار تھے ایسے ہی لوگوں کو اچھا اور اپنا دوست سمجھا کرتے تھے۔ جو اُن کے مخالفوں کو جتنی گالیاں دے یا جتنا لتاڑے وہی سب سے قابل اعتماد شخص ہے۔ انھوں نے ہمیشہ ایسے ہی لوگوں کو پارٹی میں آگے بڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ علی امین گنڈا پور اُن کے معیار پر پورا اُترتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چاہے اپنے صوبے کے عوام کی کوئی خدمت کرے یانہ کرے لیکن بانی کی نظروں میں وہی سب سے اچھا دوست ہے۔
ہمیں یہ نہیں پتا کہ اڈیالہ جیل میں قید بانی پارٹی کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ احتجاج کے لیے فائنل کال دینے کا یہی مناسب اور بہتر وقت ہے، جب کہ انھیں پتا تھا کہ مقتدر قوتوں کی انھیں اس وقت کوئی سپورٹ اور حمایت حاصل نہیں ہے۔ تیس برس سے سیاست کرنے والوں کو ہمارے یہاں اتنی سمجھ بوجھ تو ہو ہی جاتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی مدد کے بغیر یہاں کوئی بھی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی ہے ۔
خود ان کے 2014 کے دھرنوں کے پیچھے بھی یہی فیکٹر پس پردہ موجود تھا، ورنہ کیا مجال کہ 126 دنوں تک ڈی چوک جیسا اتنا حساس علاقہ حکومت وقت کی گرفت سے باہر نکل جائے اور وزیراعظم ہاؤس سمیت ساری پارلیمنٹ محصور ہو کر رہ جائے۔ جس امپائرکی انگلی کے اُٹھ جانے کی وہ ہر شام دھرنے میں پیش گوئیاں کرتے رہے وہ ایسے ہی خواہ مخواہ تو نہیں تھیں۔ کسی نے انھیں اس بات کی یقین دہانی تو ضرورکروائی ہوگی کہ تم بس میدان سجاؤ ہم پھر اپنا کام کریں گے۔
خان صاحب اس وقت تک کامیابی سے سیاست کرتے رہے جب تک انھیں اس ملک کی اسٹبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل تھی۔ یہ اُن کی غلط فہمی تھی کہ وہ اس کامیابی کو اپنی کامیابی اور سیاست سمجھنے لگے، وہ اگر اتنے ہی باہنرکامیاب سیاستداں ہوتے تو 1996سے لے کر 2011 تک کیوں ٹھوکریں کھاتے پھرتے۔ اس عرصے میں جتنے بھی الیکشن ہوئے وہ ایک یا دو نشستوں سے زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔ 2011 سے اچانک ایسا کونسا کرشمہ ہوگیا کہ وہ اس ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے لیڈر تصور کیے جانے لگے۔
کہنے کو تو کہا جاسکتا ہے کہ ایجنسیاں جلسوں میں حاضرین کی اتنی بڑی تعداد نہیں لاسکتی ہیں، لیکن وہ میڈیا کو تو قابو کرسکتی ہیں۔ عوام کو کسی پارٹی کی جانب راغب کرنے کے لیے میڈیا کو تو استعمال کیا جاسکتا ہے اور وہ کیا بھی گیا۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ کس طرح اُن دنوں ہمارا الیکٹرانک میڈیا صبح و شام خان کے ترانے گایا کرتا تھا۔
لمبی لمبی نشریات صرف انھیں کی پبلسٹی کے لیے مخصوص ہوا کرتی تھیں۔ وہ دھرنے میں جانے کے لیے جب تیار ہونا شروع ہوتے تھے اس وقت سے لے کر رات گئے تک میڈیا انھی کی کوریج کیا کرتا تھا۔ میوزیکل کنسرٹ شام کو ہوتا تھا لیکن دوپہر سے خان کو اسٹیج پر پہلوانوں کی طرح رنگ میں گھومتے اور مکے دکھاتے دکھایا جاتا ہے۔ عوام کی نظروں میں زبردستی اس شخص کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔
سارا دن ڈی چوک پر کرسیاں خالی منہ چڑا رہی ہوتی تھیں لیکن سرشام اسلام آباد کے فیشن ایبل گھرانوں کی آسودہ فیملیاں وہاں جمع ہو کر ڈی جے کی میوزیکل دھنوں پر تفریح کیا کرتی تھیں۔ ہمیں اس مجمع میں اس ملک کا ایک بھی پسماندہ شخص دکھائی نہیںدیتا تھا۔ سب اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ وہاں جمع ہو جایا کرتے تھے اور خان کی تقریر سن کر واپس لوٹ جایا کرتے تھے۔ کہنے کو یہ ایک دھرنا تھا لیکن دھرنے میں موجود لوگ صرف شام ہی کو دکھائی دیتے تھے۔
2022میں اپنی معزولی کے بعد خان نے جتنے میں احتجاجی مظاہرے کیے اُن میں اسے کامیابی نہیں ملی، ایسا کیوں ہوا، یہ خان کو سوچنا ہوگا۔ محرومیت اور مظلومیت کا جو تاثر تحریک عدم اعتماد کے بعد ان کے حق میں ابھرا تھا وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ ہر روز کے احتجاج اور ہنگامہ آرائی سے عام آدمی تنگ آرہا ہے۔
جبراً اور زبردستی تو یہ کام کیا جاسکتا ہے لیکن عام آدمی اپنی مرضی اور خوشدلی سے کئی کئی دنوں تک سڑکوں پرنہیں رہ سکتا۔ عام طور سے خان کے جلسوں میں زیادہ تر نفری خواتین کی ہوا کرتی تھی لیکن اس طرح کے دھرنوں میں وہ ہرگز نہیں آسکتی ہیں۔ دھرنوں میں وہی شخص آسکتا ہے جو کہیں نوکری یا ملازمت نہیں کررہا ہو۔ بیروزگار اور فسادی شخص چند ہزار کی دیہاڑی پر شاید شرکت کے لیے رضا مند ہوجائے لیکن دوسری جانب سے آنسوگیس اور لاٹھی چارج کے سامنے وہ بھی نہیں رک سکتا۔ کفن پہن کر ایک شخص بھی گزشتہ احتجاج میں شامل نہیں ہوا، ہر ایک کو اپنی جان پیاری ہے۔
یہ کوئی اسلامی جہاد تو ہے نہیں جو شہادت کا درجہ پانے کے لیے کیا جائے ۔ خان کو اب مزید احتجاجی کالیں دینے سے اجتناب کرنا چاہیے، ورنہ اگلے احتجاج میں شاید اس سے بھی برا نتیجہ سامنے آئے۔ سیاسی معاملات کو سوجھ بوجھ کے ساتھ اور بات چیت کے ذریعہ نمٹانا چاہیے۔
میاں نوازشریف کو ایک بار نہیں تین مرتبہ زبردستی معزول کیا گیا لیکن انھوں نے ایک دن بھی ایسا رد عمل نہیں دکھایا کہ جلاؤ گھیراؤ اور آگ لگا کے اس ملک کے اہم اداروں کو نشانہ بنایا جائے۔ انھوں نے صبر و اطمینان سے اس وقت تک انتظار کیا جب تک حالات اُن کے حق میں سازگار نہ ہوگئے۔ خان کو بھی ایسا ہی کوئی راستہ اختیارکرنا ہوگا۔ ویسے بھی حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ آج کی مشکلیں کل ختم ہوسکتی ہیں۔
اداروں کے خلاف محاذ آرائی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ خان جب خود برسراقتدار تھے تو دیگر جماعتوں کے دھرنوں اور احتجاج سے متعلق یہ کہا کرتے تھے کہ ریاست سے ٹکرانے کا نتیجہ خود اپنی تباہی کی شکل میں نکلتا ہے، لٰہذا آج اپنے کہے پر عمل پیرا ہونے کا وقت ہے۔ مذاکرات کے ذریعے ہی کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے لڑ مرکر نہیں ۔