بلدیہ عظمیٰ کراچی کو نہ جانے کیسے شہر میں صفائی کے شدید فقدان اورکچرے کے انباروں اور جگہ جگہ پھیلے کچرے کا خیال آگیا اور میئر کراچی مرتضٰی وہاب کی ہدایت پر شہر میں کچرا پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی اور عرصہ دراز بعد دکانداروں، ہوٹلوں اور ایک کمرشل بینک کو جرمانے کے نوٹس دیے گئے۔
ڈائریکٹر سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ جو شہر میں صفائی اور کچرا اٹھانے کا ذمے دار ہے، منیجنگ ڈائریکٹر کی سربراہی میں مختلف ٹیموں نے کارروائی کا آغازکیا ہے۔ کچرا پھیلانے پر چار دکانداروں کو پچیس پچیس ہزار روپے کے جرمانے کے نوٹس دیے گئے اور بارہ دکانداروں کو انتہائی نوٹس جاری کیے گئے اور ٹیموں کے سربراہوں نے دکانداروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنی دکانوں کے سامنے کچرا نہ پھیلائیں اور کچرا کوڑے دانوں میں ڈالیں۔ متعلقہ افسران نے شہریوں کو بھی کہا کہ وہ صفائی کا خیال رکھیں۔
ایس ایس ڈبلیو ایم بی کی طرف سے شہریوں کو صفائی ستھرائی کے لیے آگاہی بھی فراہم کی گئی کہ وہ صفائی و ستھرائی اور کچرے کا خیال رکھیں۔ کچرا پھیلانے والوں کے خلاف مہم جاری رہے گی اور ہدایات کی خلاف ورزی پر جرمانے کیے جائیں گے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میئر کو کسی نے بتایا ہوگا کہ کچرے اور صفائی رکھنے کے لیے بلدیاتی اداروں کے قوانین پہلے سے موجود ہیں جن پر عمل کرنا چھوڑ دیا گیا ہے۔ پہلے بلدیاتی اداروں میں میونسپل مجسٹریٹ ہوتے تھے اور ہیلتھ افسروں کو اختیارات ہوتے تھے کہ وہ بلدیاتی قوانین پر عمل کرائیں اور خلاف ورزی پر متعلقہ جرمانے کریں۔
چھوٹے شہروں میں فوڈ انسپکٹر اور بڑے بلدیاتی اداروں میں ڈائریکٹر ہیلتھ کو ذمے داری دی گئی تھی کہ وہ صفائی ستھرائی وکچرا پھیلانے والوں کے علاوہ ملاوٹ روکنے اور ملاوٹی اشیا بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لاتے رہیں مگر متعلقہ حکام خود ان بلدیاتی قوانین کو بھول گئے اور کمائی میں مصروف رہتے ہیں ان کی بلا سے کہ کچرا پھیلا رہے۔
جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں سے بدبو اٹھتی رہے۔ ملاوٹ کرنے والے عوام کی جان و مال سے کھیلتے رہیں اور انھیں کوئی پوچھنے والا ہے ہی نہیں اور شہریوں کو زہر کھلایا اور پلایا جاتا رہے اور متعلقہ بلدیاتی افسران یہ سب کچھ دیکھتے اور خاموش تماشائی بنے رہیں۔
کراچی اور لاہور کے دو بڑے شہروں کے لوگوں کو باشعور سمجھا جاتا ہے جن میں صفائی ستھرائی کو اہمیت دی جانی چاہیے مگر لاہور کے مقابلے میں کراچی کے شہریوں میں بلدیات کا زیادہ فقدان ہے اور لوگ بلدیاتی قوانین کو بھول چکے ہیں۔ جان بوجھ کر گھروں اور دکانوں کی صفائی کرکے سڑکوں اور راستوں پر کچرا پھیلانا معمول ہے۔
لاہور میں تو گھر کی صفائی کے بعد جو کچرا سڑک پر پھیلا ہوتا ہے اسے سمیٹ کر کہیں جمع کرکے اٹھوا لیا جاتا ہے مگر کراچی ایسا بھی نہیں ہے۔ کراچی، لاہور میں جن گھروں میں پانی کی قلت نہیں وہ بے دردی سے پائپ کے ذریعے پانی ضایع کیا جاتا ہے اور گھروں کو دھو کر سڑکوں پر پانی بہایا جاتا ہے اور جہاں پانی کی قلت ہے اور گھریلو استعمال کے لیے بھی پانی میسر نہیں ہوتا۔
گھر کے باہر کھڑی گاڑیوں کو دھونے کے لیے پانی کا بے دردی سے استعمال عام ہے اور سڑکوں پر پانی بہانا معمول ہے جس سے راستوں پر پانی جمع رہتا ہے اور جمع پانی سے سڑکیں تباہ ہوتی ہیں کیونکہ اندرون شہر کی سڑکوں میں معیار کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا، وہاں تعمیری کام چیک ہوتے ہیں۔ لاہور میں اندرون شہر سڑکوں کی حالت کراچی سے بہت بہتر ہے جب کہ کراچی میں اندرون شہر سڑکوں کی حالت بہت بدتر ہے۔
سیوریج لائنیں اور پانی کی لائنیں بچھائی گئی ہیں وہاں سڑکوں کو تباہ حال حالت میں چھوڑ دیا گیا ہے اور سڑکوں کی کھدائی کی مد میں بلدیاتی ادارے رقم وصول کرچکے ہیں وہ رقم مذکورہ سڑکوں کی مرمت پر خرچ ہی نہیں ہوتی اور دیگر جگہوں یا تنخواہوں پر خرچ کر دی جاتی ہے اور وہاں کی تباہ حال سڑکیں بری حالت میں سالوں سے تعمیر و مرمت کی منتظر ہیں۔ کراچی میں حالیہ بارشوں کے بعد اندرون شہر کی سڑکیں مزید تباہ ہوئی ہیں جہاں گڑھوں میں ملبہ ڈلوایا گیا ہے مگر کراچی کے ٹاؤنز کے پاس سڑکوں اور راستوں کی ضروری مرمت کے لیے بھی فنڈز نہیں ہیں۔
کراچی کے بے اختیار ٹاؤن میونسپل کارپوریشنوں، یوسیز کے پاس اضافی فنڈز ہیں نہ اختیارات۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی توجہ صرف بڑی سڑکوں پر مرکوز رہتی ہے۔ حکومت سندھ نے کراچی کے بلدیاتی اداروں کو اپنا محتاج بنا رکھا ہے اور وہ اپنے علاقوں میں بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے حکومت سندھ اور بلدیہ عظمیٰ کی مدد کے منتظر رہتے ہیں کیونکہ ان پر تنخواہوں کا ہی بڑا بوجھ ہے۔
ہر بلدیاتی ادارے میں سیاسی مفادات کے لیے فاضل عملہ بھرتی کیا گیا ہے جن کی تنخواہوں اور دفتری اخراجات کی ادائیگی کے لیے رقم ہی نہیں بچتی۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے یوٹیلیٹی ٹیکس کے علاوہ کے الیکٹرک کے ذریعے فی میٹر کہیں چالیس اور کہیں تین سو روپے مسلط کر دیے ہیں جہاں بلدیاتی ادارے اندرون شہر صفائی کراتے ہیں نہ کچرا اٹھواتے ہیں اور یوسیز میں لوگ کچرا اٹھوانے والوں کو تین سو روپے ماہانہ ادا کرتے ہیں جب کہ صفائی کرانے کی الگ ماہانہ رقم ادا کرتے ہیں۔
شہر میں کچرے دانوں کی بہت زیادہ کمی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنا کچرا سڑکوں اور راستوں پر ڈالنے پر مجبور ہیں مگر بلدیہ عظمیٰ کراچی اس طرف توجہ دیتی ہے نہ سالڈ ویسٹ بورڈ کچرا اٹھانے اور صفائی پر توجہ دیتا ہے اور اب کمائی بڑھانے کے لیے جرمانے بھی کیے جانے لگے ہیں۔