وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، کو خود کئی چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ یہ چیلنج عوام کی جانب سے شہباز حکومت کو درپیش ہیں ۔ سب سے بڑا چیلنج دلشکن مہنگائی کا اور دوسرا بڑا چیلنج کمر توڑ مہنگی بجلی کا ہے ۔ حکومتی دعوؤں کے برعکس مہنگائی کا گراف نیچے نہیں آ رہا ۔حکمران اور اُن کی بیگمات نے شاید خود کبھی گروسری خریدی ہے نہ خود اپنی جیب سے بجلی کے بِلز ادا کیے ہیں ۔
ستم کی حد ہے کہ سردیوں کے باوجود بجلی کے بِلز گرمیوں والے آ رہے ہیں ۔ گیس تو آ نہیں رہی لیکن گیس کے بیہوش کر دینے والے بِلز ضرور وصول ہو رہے ہیں۔گرمیوں میں بجلی استعمال کرتے ہُوئے خوف آتا تھا، اب گیس(اگر میسر آجائے) کا چولہا جلاتے ہُوئے ڈر لگتا ہے ۔ ایسے پیش منظر میں عوام کی جانب سے حکومت کے لیے کوئی کلمہ خیر نکلے تو کیونکر؟ حکمرانوں کو کوئی دعا دے تو کیوں؟حکومتیں اور حکمران عوام کا جینا حرام کر ڈالیں تو حکمرانوں کے لیے دعاؤں میں ہاتھ نہیں اُٹھتے !
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ ، جناب علی امین گنڈا پور، کو بھی اپنے گھر کے اندر کئی چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن وہ طیش میں پھنکارتے اور للکارتے ہُوئے وفاقی حکومت اور وزیر اعظم کو چیلنج کررہے ہیں ۔ خیبر پختونخوا کے دو انتہائی اہم اور خوبصورت علاقوں ، پارا چنار اور کُرم، میں اب تک ( روزنامہ’’ ایکسپریس‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق) 122افراد، فریقین کے خونی تصادم میں، جاں بحق ہو چکے ہیں ۔
مبینہ طور پر بعض قبائل کی یہ جنگ فرقہ وارانہ بھی ہے اور زمین کے ایک ٹکڑے کے حصول کے لیے بھی ۔ کئی عالمی خبر رساں ادارے اِس خونریز تصادم پر ہم سب کے لیے پریشان کن خبریں اور رپورٹیں شایع اور نشر کررہے ہیں ۔
لگتا مگر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ، علی امین گنڈا پور صاحب ، کو اِن رپورٹوں کی پروا ہے نہ کوئی پریشانی ۔ انھیں پریشانی اگر کوئی ہے تو یہ ہے کہ اُن کے زندانی لیڈر کہیں اُن سے ناراض اور نالاں نہ ہو جائیں ؛ چنانچہ ہم دیکھ اور ملاحظہ کررہے ہیں کہ اُن کی ساری تگ و دَو اپنے قیدی لیڈر کی خوشنودی کے لیے ہے ۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں موصوف کا غضبناک ہو کر خطاب کرنا اور وفاقی حکومت کو چیلنج کرنا بھی درحقیقت اِسی تگ و دَو اور تمنا کا شاخسانہ ہے ۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ، جناب علی امین گنڈا پور، نے وزیر اعظم اور صدرِ مملکت کو چیلنج کرتے ہُوئے پُرجوش اور اشتعال انگیز لہجے میں کہا ہے:’’کسی میں جرأت ہے تو (کے پی کے میں) گورنر راج لگائے ۔گورنر راج لگانے کے بعد تم اِس صوبے میں رہ گئے تو ہم بھی دیکھ لیں گے ۔‘‘موصوف نے اپنے غصیلے بیان میں ’’ہم بھی دیکھ لیں گے‘‘ کی جگہ کچھ اور الفاظ استعمال کیے تھے ( جو روزنامہ’’ ایکسپریس‘‘ میں بھی شایع ہُوئے ہیں) مگر ہم نے بوجوہ وہ خاص الفاظ یہاں شامل نہیں کیے ہیں کہ کالم اور خبر میں کچھ تو امتیاز باقی رہنا چاہیے ۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ نے چیلنج تو کر دیا ہے ۔
وزیر اعظم کو بھی اور صدرِ مملکت کو بھی کہ اگر علی امین صاحب کے صوبے میں گورنر راج کا نفاذ ہوتا ہے تو یہ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت نافذ کریں گے ۔ علی امین صاحب گورنر راج کے نام پر ازخود نہیں بھڑکے ہیں ۔ ایک تو وہ24نومبر2024کی اسلام آباد پر یلغار میں ناکامی پر نادم بھی ہیں اور پریشان بھی کہ اپنے زندانی قائد کو شاید منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ۔ دوسرا بعض وفاقی وزرا کی جانب سے کے پی کے میں حالات کے دگرگوں ہونے کی اساس پر گورنر راج کے نفاذ کی باتیں کی جارہی ہیں ۔
ایسے پس منظر میں علی امین گنڈا پور صاحب کا مرکزی حکومت کے خلاف مشتعل ہونا اور بھڑک اُٹھنا غیر فطری نہیں ہے ؛ چنانچہ ہم کے پی صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے بھڑکاؤ بیانات کے پس منظر کو سمجھ سکتے ہیں۔ ایسا لہجہ بروئے کار لاتے ہُوئے شاید ہی نہیں بلکہ یقیناً وہ اپنے پسِ دیوارِ زنداں لیڈر کو مطمئن کرنے کی بھی سعی کررہے ہیں اور اپنی پارٹی اور اپنے ووٹروں کی نظروں میں بھی سرخرو ہونا چاہتے ہیں ۔
سیاست اور اقتدار کا کھیل بڑا ہی سفاک اور بے رحم کھیل ہے ۔ اِس کھیل میں اکثر دل اور دماغ میں تال میل نہیں رہتا ۔ سیاست و اقتدار کے سرکش گھوڑے پر کاٹھی ڈالے رکھنا سہل ہے نہ ہر کسی کے لیے بازیچہ اطفال۔ صوبے میں گورنر راج سے بچنے اور اپنے قائد کو خوش کرنے کے لیے علی امین گنڈا پور نے ہمت و شجاعت سے مرکزی حکومت کی دونوں شخصیات کو جو چیلنج دیا ہے ، یہ دراصل حکومتی نیت اور مبینہ عزائم کو جواب ہی سمجھنا چاہیے ۔
یہ وفاقی حکومت ہی ہے جس کی طرف سے سب سے پہلے کے پی میں گورنر راج نافذ کیے جانے کا شوشہ چھوڑا گیا۔ مثال کے طور پر:سب سے پہلے وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، کے مشیر برائے قانون، جناب بیرسٹر عقیل ملک، نے ایک نجی ٹی وی کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہُوئے کہا:’’ حکومت سمجھتی ہے کہ گورنر راج لگانا مناسب اقدام ہوگا۔ کچھ عرصے کے لیے خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانے پر غور کیا جارہا ہے ۔
وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کے پی میں گورنرراج پر کلیئر ہیں ۔وفاقی کابینہ کے اراکین کی اکثریت بھی گورنر راج کی حامی ہے ۔ پہلی کوشش ہے کہ صوبائی اسمبلی میں قرارداد لائی جائے ۔اسمبلی میں قرارداد نہیں آتی تودوسرا راستہ بھی ہے ۔ یہ معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی لایا جا سکتا ہے ۔وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر صاحب گورنر راج لگا سکتے ہیں۔‘‘
کچھ دوسرے وفاقی وزرا نے بھی عقیل ملک صاحب کے مذکورہ بیان اور نیت کی تائید کی ہے۔ اِسی پر علی امین گنڈا پور صاحب بھڑک بھی رہے ہیں اور حکومت کو چیلنج بھی کررہے ہیں کہ ہاتھ سے جاتی حکومت کون بآسانی قبول کرتا ہے ؟ وفاقی حکومت اور کے پی حکومت کے باہمی تعلقات کشیدہ ہونے کے باوجود مگر گورنر راج کے نفاذ ایسا کوئی بھی انتہائی قدم اُٹھانا سہل بھی نہیں ہے ۔
یہ بھی لگتا ہے کہ مرکزی حکومت کے کچھ وزرا گورنرراج کے نفاذ کا اعلان تو بظاہر کررہے ہیں لیکن وزیر اعظم سمیت اُن کا اِس بارے دل مضبوط نہیں ہے ۔ حکومت کی اِس دو دِلی، کشمکش اور ہچکچاہٹ کی ترجمانی کچھ وفاقی وزرا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر خواجہ محمد آصف صاحب اور رانا ثناء اللہ صاحب! دونوں ہی بیک زبان کہہ رہے ہیں کہ کے پی میں گورنر راج نہیں لگنا چاہیے ۔ پیپلز پارٹی ، جو مرکزی حکومت کی بڑی اتحادی پارٹی ہے، بھی غیر مبہم طور پر کہہ رہی ہے کہ کے پی میں گورنر راج نہیں لگنا چاہیے ۔
عوامی نیشنل پارٹی ، جو کہ خیبر پختونخوا کی ایک بڑی سیاسی و قدیم جماعت ہے،کے مرکزی صدر، جناب ایمل ولی خان، نے خیبر پختونخواکے گورنر ، جناب فیصل کریم کنڈی ، سے ملاقات کرکے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ کے پی میں گورنر راج کا نفاذ مسائل کا حل نہیں ہے ۔ جے یو آئی کے مرکزی قائد و امیر ، حضرت مولانا فضل الرحمن، نے بھی اِس گورنر راج کے نفاذ کی مخالفت کی ہے ۔
گورنر راج کی مخالفت اور حمائت میں پیپلز پارٹی سب سے پُراسرار کھیل کھیل رہی ہے ۔ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے ارکانِ اسمبلی اور وزیر اعلیٰ نے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کی حمائت کی ہے جب کہ پنجاب میں اِسی حوالے سے پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کا چہرہ بالکل مختلف ہے ۔
اسلام آباد میں یہ خبریں بھی اُڑ رہی یا اُڑوائی جا رہی ہیںکہ اگلے تین چار ماہ کے دوران بانی پی ٹی آئی، مشروط طور پر، آزاد فضاؤں میں پرواز کرنے والے ہیں ۔ اگرچہ اُن کے خلاف کئی مقدمات اپنی جگہ پر قائم رہیں گے ۔اُف !سیاست میں ہمیشہ سے کارفرما طاقتور ہاتھ ایک بار پھر بروئے کار آ رہا ہے؟