ماحولیاتی آلودگی،کرہ ارض کے لیے بڑا خطرہ

یہ معاہدہ اس چیلنج کی سنگینی کو حل نہیں کرے گا جس کا ہم سب کو سامنا ہے۔


زمرد نقوی December 02, 2024
www.facebook.com/shah Naqvi

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے کوپ29سربراہی اجلاس میں دولت مند ملکوں نے غریب ممالک کی امداد کے لیے سالانہ300ارب ڈالر کا عالمی مالیاتی معاہدہ منظور کر لیا،جس کا مقصد گلوبل وارمنگ پر قابوپانے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو ایک سال کی مدت میں تیزکرنا ہے۔ لیکن متعدد ترقی پذیر ملکوں نے اس پیکیج کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اسے ہدف تنقید بنایا۔

بھارتی وفد کی نمایندہ چاندنی رینا نے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ دستاویز نظر کے دھوکا سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ معاہدہ اس چیلنج کی سنگینی کو حل نہیں کرے گا جس کا ہم سب کو سامنا ہے۔ لہٰذا ہم اس دستاویز کو اپنانے کے حق میں نہیں ہیں۔

تاہم اقوام متحدہ کے موسمیاتی امور کے سربراہ نے اس کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے صاف توانائی کے فروغ میں اضافہ ہو گا اور اربوں زندگیوں کا تحفظ ہو سکے گا۔ لیکن یہ معاہدہ اسی صورت میں کام کرے گا جب رقم ناکافی ہونے کی شکایت کے باوجود اگر ہر سال 300ارب ڈالر کی رقم بغیر کسی رکاوٹ اور بہانے بازی کے مہیا کی جاتی رہے اور اس کا درست استعمال ہو تو یقیناً اس کے مفید نتائج برآمد ہوں گے۔ ذرا غور فرمائیں ضرورت ہے تین ہزار ارب ڈالر کی اور منظور کیے گئے صرف300ارب ڈالر۔

موسمیاتی تبدیلیاں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے پیدا ہوتی ہیں جس میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

اس کی وجہ تیل، گیس اور کوئلہ کا بے تحاشہ استعمال ہے ۔اب تک دنیا کا مجموعی درجہ حرارت معمول سے 1.2ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے ۔یہ بڑھا ہوا درجہ حرارت ہی ہے جس کے نتیجے میں کچھ برسوں پہلے پاکستان کو تباہ کن سیلاب سے 30ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔اندازہ کریں کہ یہ موسمیاتی آلودگی اور فضائی آلودگی یہ دونوں عوامل مل کر 2050تک پاکستان کی جی ڈ ی پی میں 18 سے 20فیصد تک کمی کاباعث بن سکتے ہیں۔

جن کی مالیت اربوں ڈالر ہو گی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گرمی کی شدت اور بے موسم بارشوں نے پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔ بے موسمی بارشوں اور شدید گرمی کے نتیجہ میں پوری دنیا غذائی قلت کا شکار ہو جائے گی جس کے نتیجہ میں ان غذائی اجناس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان پہلے ہی سے غذائی قلت کا شکار ہو چکا ہے۔ ایک طرف زرمبادلہ کی انتہائی شدید قلت ، تو دوسری طرف آنے والے برسوں میں پاکستان اہم غذائی اور نقد آور فصلوں جیسے گندم ، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی پیداوار میں بڑی کمی کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

پاکستان تو پہلے ہی سے اپنے قیمتی زرمبادلہ کو ان غذائی اجناس کی خریداری پر خرچ کر رہا ہے، ایک طرف ہمارا قلیل زرمبادلہ دوسری طرف غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی ہمیں خدانخواستہ قحط کی صورت حال سے بھی دو چار کر سکتی ہے۔ 2025  سر پر کھڑا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق 2025 تک "نصف" سے زائد دنیا پانی کی قلت اور خشک سالی کا شکار ہو جائے گی۔ پلاسٹک کی آلودگی پورے زمینی نظام کو بدل رہی ہے اس سلسلے میں سیول جنوبی کوریا میں مذاکرات کا پانچواں دور چل رہا ہے جس میں پلاسٹک کی آلودگی کے عالمی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک معاہدہ پر متفق ہونے کے لیے کوشش کی جا رہی ہے ۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں سے پاکستان میں 55ارب شاپنگ بیگز "روزانہ "استعمال ہورہے ہیں اس تحقیق کے مطابق دنیا کا ہر بالغ شخص سالانہ 50ہزار پلاسٹک ذرات نگل رہا ہے ایک اور ریسرچ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے آٹھ ملکوں میں شامل ہے اور کراچی کا نمبر دنیا کے پہلے چار شہروں میں آتا ہے۔

اس بات پر تو پاکستانیوں کو شاباش ملنی چاہیے جو اپنی صحت اور سرزمین کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں کہ انھوں نے پلاسٹک روک تھام کی تمام حکومتی کوششیں ناکام بنا دی ہیں۔ دسمبرشروع ہے۔سردی کا دور دور تک پتا نہیں پنجاب اور سندھ میں ۔آج سے تیس چالیس برس پہلے سردیاں ستمبر کے آخر سے شروع ہو جاتی تھیں،اب پچھلے دس برسوں سے یہ معمول بن گیا ہے کہ سردیاں دسمبر کے آخر اور جنوری کے پہلے ہفتے سے شروع ہوتی ہیں۔

سردیوں کا دورانیہ کم ہو کر صرف چار مہینے رہ گیا ہے۔اسی تناسب سے موسم گرماآٹھ مہینوں پر پھیل گیا ہے ۔اپریل مئی میں پھر سے ہلاکت خیز گرمی کا آغاز ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ہی خوفناک بجلی بلوں کا بھی۔ زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت انسان کے اپنے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ اﷲ تعالی نے ہمیں یہ پیارا کرہ زمین دیا اور انسان نے صنعتی ترقی کے جنون میں پچھلے 200سال میں اسے بتدریج جہنم بنا کر رکھ دیا۔ اب اگلی دہائیوں میں ناقابل رہائش ہونے والا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں