پی ٹی آئی پر پابندی کا مقدمہ

سیاسی عمل، سیاسی اختلاف یا سیاسی حق تلفی کی صورت میں مزاحمت ناگزیر ہے۔


ڈاکٹر فاروق عادل December 02, 2024
[email protected]

پی ٹی آئی کی فائنل کال کے حالیہ انجام کے بعد کچھ سوالات پیدا ہو گئے ہیں کہ اب اس جماعت کا انجام کیا ہو گا؟ کیا اس پر پابندی عائد کر دی جائے گی یا خیبر پختونخوا میں اس کی حکومت کا خاتمہ ہو گا؟ ان دونوں سوالات کے جوابات تو بڑی حد تک سامنے آ چکے ہیں لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر غور کرنا اور انھیں سمجھنا اس کے باوجود ضروری ہے۔

سیاسی عمل، سیاسی اختلاف یا سیاسی حق تلفی کی صورت میں مزاحمت ناگزیر ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے یا نہیں، اس سوال کو سردست ایک طرف رکھ کر تسلیم کر لیتے ہیں کہ اس جماعت کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں مزاحمت اس کا حق ہے لیکن کیسی مزاحمت؟ بنیادی سوال یہی ہے۔

پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کی دو نمایاں مثالیں سامنے آتی ہیں۔ ان دونوں مثالوں کی نوعیت میں کافی فرق ہے لیکن مزاحمت کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے یہ دونوں مثالیں موزوں ترین ہیں۔ تاریخی ترتیب کے مطابق سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد کے واقعات پر غور کرتے ہیں۔

بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ان کے صاحب زادوں نے الذوالفقار بنائی۔ اس تنظیم کے کریڈٹ پر دہشت گردی کے بہت سے واقعات ہیں جن کی بہت سی تفصیل راجا انور نے اپنی کتاب 'دہشت گرد شہزادہ' میں لکھ دی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اگر بھٹو صاحب کی پھانسی کے دکھ میں الذوالفقار کی سرگرمیوں سے اتفاق کر لیتی یا اس کے کارکن موجودہ دور میں پی ٹی آئی کی طرح یہ کہہ کہ اب ہمارا اس ریاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے لہٰذا ہم اس کی بیخ کنی کرکے رہیں گے تو سچ یہ ہے کہ آج اس جماعت کا وجود تاریخ کے تذکروں میں تو ملتا لیکن عملًا مٹ چکا ہوتا۔

کئی مؤرخوںنے لکھا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے شعوری طور پر الذوالفقار کو ڈس اون کر کے اس سے فاصلہ اختیار کیا اور مشکل اور آسانی ہر صورت میں پاکستان پیپلز پارٹی کو کسی بھی صورت میں سیاسی سرگرمی سے باہر نہیں جانے دیا۔ ایسا نہ ہوتا تو اس کے مخالفین خاص طور پر جنرل ضیا الحق پیپلز پارٹی کا خاتمہ کر کے ہی دم لیتے۔

دائیں بازو کے صحافیوں میں شہید محمد صلاح الدین پیپلز پارٹی کے مخالفین میں نمایاں ترین ہیں۔ اس زمانے میں انھوں نے ایک سلسلہ مضامین لکھا تھا، ' پیپلز پارٹی، مقاصد اور حکمت عملی' یہ مضامین بعد میں کتابی شکل میں بھی شایع ہوئے۔

اس میں انھوں نے تجویز کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کو دہشت گرد جماعت قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی جائے۔ صلاح الدین صاحب کے علاوہ بہت سے دیگر سیاسی و غیر سیاسی حلقے بھی یہی چاہتے تھے۔ الذوالفقار اور اس کی سرگرمیوں کی وجہ سے اس پر پابندی کا کوئی نہ کوئی بہانہ بنایا بھی جا سکتا تھا لیکن پیپلز پارٹی نے اپنے مخالفین کو ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کیا۔

دوسری مثال جماعت اسلامی کی ہے۔ جماعت اسلامی ایک ہمہ گیر انقلاب کی داعی رہی ہے۔ دنیا میں انقلابات کی تاریخ دیکھیں تو اس میں عوامی طاقت اور تشدد کے ذریعے ملک پر غالب آ جانے کی مثالیں ملتی ہیں لیکن جماعت کے بانی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنے پیرو کاروں پر روز اوّل سے ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ تشدد اور خفیہ طریقوں سے کام لینے پر یقین نہیں رکھتے۔ یوں انھوں نے طاقت اور تخریب کے استعمال کا راستہ ابتدا میں ہی روک دیا۔

مولانا مودودی کی رحلت کے بعد جہاد افغانستان کے زیر اثر جماعت کے بعض جونیئر وابستگان میں تشدد کے ذریعے تبدیلی کی خواہش پیدا ہوئی۔ مولانا جان محمد عباسی مرحوم نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ افغانستان سے لوٹنے والے بعض نوجوانوں نے اپنے طور پر تشدد کا راستہ اختیار کیا اور شاید لاہور کے کسی سنیما گھر میں دھماکا بھی کر دیا۔ یہ واقعہ جہاد افغانستان میں عملی شرکت کا منطقی نتیجہ تھا۔

مولانا مودودی جہاد میں اسی لیے شرکت کے سخت مخالف تھے۔ یہی سبب تھا کہ ان کی زندگی میں جماعت اور جمعیت دونوں جہاد افغانستان میں عملی شرکت سے دور رہے۔ ان کی وفات کے بعد جماعت اسلامی میں اس سلسلے میں دو آرا پیدا ہو گئیں یعنی ایک گروہ مولانا مودودی کی رائے پر قائم رہا جب کہ دوسرا جہادی سرگرمیوں میں شرکت کا قائل تھا۔ دوسرا گروہ غالب آ گیا لیکن دھماکے کے واقعے نے سب کی آنکھیں کھول دیں۔

اس کے بعد جماعت اسلامی کی پالیسی میں بہ تدریج تبدیلی آنے لگی۔ ایسا نہ ہوتا تو خدشہ تھا کہ اس پر پابندی لگ جاتی کیوں کہ متعلقہ حلقوں میں اس تجویز پر سنجیدگی سے غور و خوض شروع ہو گیا تھا۔ اس موقع پر مولانا مودودی کی فکر پر سختی سے جمے ہوئے لوگ یعنی میاں طفیل محمد اور مولانا جان محمد عباسی سمیت بعض دیگر قائدین متحرک ہوئے جنھوں نے فیصلہ ساز قوتوں کو بھی سمجھایا اور خود جماعت اسلامی کو بھی مسلح سرگرمیوں سے دور کیا۔ یوں جماعت ایک یقینی خطرے سے بال بال بچ گئی۔

قومی تاریخ کے ان دو واقعات کی تفصیل بیان کرنے کا مقصد پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ کیفیات کا جائزہ لینا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محرومی کے بعد یہ جماعت تشدد کی طرف تیزی سے بڑھی ہے۔ اس ضمن میں  نو مئی کے واقعات کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے جن میں ملک بھر میں درجنوں مقامات پر دفاعی تنصیبات پر حملے کیے گئے۔ 9 مئی سے قبل عمران خان لاہور میں مقیم تھے، اس موقع پر ان کی گرفتاری کی کوشش ہوئی تو اس جماعت کے کارکنوں نے پولیس پر باقاعدہ حملے کیے۔

اس موقع پر پٹرول بم بھی استعمال کیے گئے۔ ایسے واقعات میں غیر ملکیوں کی شرکت کے ثبوت بھی ملے ہیں۔ 24 نومبر اور اس سے قبل اسلام آباد کی طرف جو مارچ کیے گئے، ان مواقع پربھی پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم کے واقعات رونما ہوئے جن میں کئی سیکیورٹی اہل کار جاں بہ حق ہو چکے ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اس جماعت کی مزاحمتی سیاسی سرگرمیوں میں اس کے وابستگان مسلح ہو کر شریک ہوتے ہیں۔ 24 نومبر کے جلوسوں میں بھی آتشیں اسلحے کے علاوہ غلیل اور کلہاڑی بردار لوگ بھی نہ صرف دیکھے گئے ہیں بلکہ پکڑے بھی گئے ہیں۔

پر تشدد طرز عمل کا یہ ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت پی ٹی آئی کی ان سرگرمیوں میں صوبائی پولیس اور سرکاری اسلحہ کے استعمال سے بھی کبھی نہیں ہچکچائی۔ خود وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور بھی اسمبلی کے اندر اور باہر اپنی تقریروں میں کارکنوں کو مسلسل تشدد پر اکسا رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں پر اس طرز عمل کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ ان کے روّیے میں تشدد بڑھتا جا رہا ہے جس کے مظاہر اس جماعت کے مارچوں اور دھرنوں میں مسلسل دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کے تشدد کی طرف مائل ہو جانے کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ اس جماعت کے کارکنوں کو اعتماد میں لے کر رازداری کے ساتھ بات چیت کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی اس جماعت کے متحرک کارکنوں میں شامل ہیں جو ماضی میں غزوۂ ہند کی خواہش میں مختلف مسلح گروہوں کا حصہ رہے ہیں۔ اس قسم کا نظریاتی پس منظر رکھنے والے لوگوں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ماضی میں جہادی سرگرمیوں کا حصہ تو نہیں رہے لیکن غزوۂ ہند جیسے تصورات پر یقین رکھتے ہیں۔

ریکارڈ بتاتا ہے کہ یہ لوگ پی ٹی آئی کے مختلف مظاہروں کے مواقع پر پُر تشدد سرگرمیوں میں شریک رہے ہیں۔ ان تمام عوامل نے مل کر اس جماعت میں تشدد آمیز روّیوں کو فروغ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام مظاہر خطرناک ہیں اور اس جماعت کی سیاسی سرگرمیوں میں تشدد کا عنصر پیدا کر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ریاست نے ماضی میں جب عسکری سرگرمیوں میں مصروف نان اسٹیٹ ایکٹرز کی بیخ کنی کا فیصلہ کیا تھا تو وہ حالات سازگار پا کر اس جماعت میں شامل ہو گئے تھے۔

سنجیدہ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں میں پائی جانے والی ایسی کیفیات سے خبردار ہو کر اصلاح کی کوشش کرتی ہیں جس کی دو مثالیں ہماری تاریخ میں ملتی ہیں لیکن پی ٹی آئی کا المیہ یہ ہے کہ وہ سیاسی اور عسکری مزاحمت کے درمیان فرق کو ابھی تک نہیں سمجھ سکی یا سمجھنا ہی نہیں چاہتی اور اب یہ سیلاب اس کے سر سے گزر رہا ہے۔

پی ٹی آئی پر پابندی کا اصل مقدمہ یہی ہے۔ کیا اس جماعت پر پابندی عاید کی جائے گی؟ یہ ایک علیحدہ سوال ہے۔ فیصلہ ساز اس نوعیت کی پابندیوں کے مضمرات کو خوب سمجھتے ہیں اس لیے پی ٹی آئی پر سر دست پابندی کا امکان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے لیکن یہ جماعت جب تک مکمل طور پر سیاسی طور طریقے اختیار نہیں کر لیتی، پابندی کی تلوار اس کے سر پر لٹکتی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں