ہم نے یہ جملہ کچھ برس قبل جامعہ کراچی کے ’پوائنٹ‘ میں پچھلے دروازے کے پاس لکھا ہوا دیکھا تھا، جو نہ صرف لکھنے والے کی حسِ مزاح کی خبر دے رہا تھا، بلکہ احوال واقعی کی داستاں بھی سنا رہا تھا۔ بہت عرصہ ہوا کہ جامعہ کراچی میں مجموعی طور پر طالبات کی تعداد واضح طور پر طلبا کی تعداد سے کہیں زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔
تبھی جامعہ کراچی کے ’پوائنٹ‘ میں بھی حالت یہ ہوتی ہے کہ عام بسوں میں جتنی جگہ خواتین کے لیے مختص ہوتی ہے، ان بسوں میں بہ مشکل اتنی جگہ لڑکوں کے لیے نکل پاتی ہے، اکثر وہاں بھی طالبات کا ’قبضہ‘ ہوا جاتا ہے، لڑکوںکا پچھلے حصے کی چند نشستوں تک جانا اور سفر کرنا نہایت دشوار ہوا جاتا ہے۔
طلبا اور طالبات کے عدم توازن کی یہ صورت حال گذشتہ کئی برسوں سے مختلف سرکاری اور نجی جامعات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، یقیناً یہ امر توجہ طلب اور قابل غور ہے کہ ایسے کیا حالات ہیں، جس کی وجہ سے اکثر لڑکے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر رہے یا لڑکیاں ان سے زیادہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے اب ہمیں اس عدم توازن کے اثرات سماجی زندگی میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں اور معاشی میدانوں میں بھی ہم اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
سماجی زندگی میں دیکھیے تو تعلیم یافتہ لڑکیوں کے رشتوں کے لیے ان کے ہم پَلّا تعلیم یافتہ لڑکے دست یاب نہیں، جس کی وجہ سے ہر دو طرح کے مسائل ہیں، کہیں ایسے جوڑ کے لیے انتظار طویل ہوا جا رہا ہے، تو کہیں تعلیمی تفاوت والے جوڑ بن جانے کے بعد زندگیوں میں علاحدہ مسائل پیدا ہو ر ہے ہیں اور اس کے نتیجے میں خاندانوں میں انتشار اور عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت سے تو کسی کو بھی انکار نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ لڑکوں کی تعلیم بھی تو نظرانداز نہیں ہونی چاہیے، اس پر بھی تو کہیں غور کیا جانا چاہیے۔ اسی سبب آپ کو شاید یہ جان کر بھی حیرانی ہوگی کہ معاشی میدان میں بھی بہت سے شعبے اور دفاتر ایسے سامنے آتے ہیں، جہاں بوجوہ صنف نازک کی تعداد زیادہ ہوتی ہیں، بہت سی اسامیوں پر مرد امیدوار اہل نہ ہونے یا خواتین کے لیے تعداد مختص کیے جانے کے سبب محروم رہ جاتے ہیں۔ بہت سے ادارے کم تنخواہ پر راضی ہونے والی خواتین کے سبب انھیں ترجیح دیتے ہیں۔
آپ شاید یہاں کہیں گے کہ یہ کیسی صنفی امتیاز کی بات ہے کہ خواتین کی معاشی خود مختاری اور ان کو ملنے والے مواقع کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مرد و زَن کسی خاندان ہی میں نہیں، بلکہ پورے سماج کی گاڑی کے لیے دو پہیوں کی طرح ہیں، اس لیے ہر جگہ اور ہر مقام پر دونوں اصناف کا متوازن اور ذمہ داریوں کے تعلق سے ہم آہنگ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ امر جتنا زیادہ اچھا اور مناسب ہوگا، سماج پر اس کے اُتنے ہی مثبت اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
اب آپ ایک مرد کی بے روزگاری کو دیکھیے، تو وہ اکثر اپنے خاندان کا واحد یا مرکزی کفیل ہے، اس پر سماجی اور مذہبی طور پر بھی اپنی بیوی اور بچوں کا ذمہ عائد ہے، جب کہ خاتون کی آمدنی میں صرف اس کا حق ہے، اگر وہ چاہے تو اُسے گھر پر خرچ کرے اور نہ چاہے تو نہ کرے۔
جب کہ سماج کسی بھی مرد ہی سے یہ توقع رکھتا ہے اور یہ مرد ہی کی بنیادی ذمہ داری تصور کی جاتی ہے کہ وہ باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر کی صورت میں اپنے خاندان کو معاشی سہولت اور سکون فراہم کرے، لیکن جب وہ بے روزگار ہو جاتا ہے، تو اس کے نتیجے میں صرف وہ نہیں بلکہ یہ اس کے پورے خاندان کے لیے ایک نہایت کٹھن مرحلہ بن جاتا ہے۔ ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ اس کے بچے یا شریک حیات معاشی لحاظ سے کس حیثیت میں ہیں۔ اکثر شریک حیات صرف گھریلو ذمہ داریاں ادا کرتی ہیں، تو یقیناً یہ بے روزگاری صرف کسی مرد کی محرومی نہیں رہتی۔
دوسری جانب اگر اس کے روزگار کی جگہ کسی خاتون کو مل جائے، تو وہاں بھی ایسا ممکن ہے کہ کوئی خاتون اپنے اہل خانہ اور بچوں کے اخراجات پورے کر رہی ہو، لیکن اکثر ایسا ہونا ضروری بھی نہیں۔ اکثر بہت سی ملازمت پیشہ خواتین صرف مہنگائی کا مقابلہ کرنے، اپنے اور اپنے بچوں کے بہت سے خوابوں کی تکمیل اور اپنی زندگی کے معیار کو زیادہ سے زیادہ بہتر کرنے کے واسطے معاش کی کٹھنائیوں میں اتری ہوئی ہوتی ہیں، لیکن وہ کسی ایسے مرد کی جگہ لے رہی ہوتی ہیں، جو اکثر اپنے والدین یا اپنے بیوی بچوں کا کفیل ہوتا ہے۔
ایسے میں ’خوب سے خوب تر‘ کے لیے یہاں آنے والی کوئی خاتون امیدوار بنیادی ضروریات کی تکمیل کرنے والے کی جگہ پُر کرتی ہے، تو ایسے میں سوچیے کہ یہ عدم توازن پھر کوئی صنفی تو نہیں رہتا، بلکہ پورے سماج پر اس کے برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
دفاتر، اداروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اکثر خواتین کے حق میں جھکتے ہوئے اس ’اشاریے‘کو بہت خوش کُن اور مثبت یہاں تک کہ ترقی کا ضامن بنا کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے، جو صرف مرد ہی کے معاش کو متاثر نہیں کر رہا، بلکہ اس سے جڑے پورے خاندان (جس میں ظاہر ہے بلاتفریق صنف سبھی شامل ہیں) کو متاثر کر رہا ہے۔ اس لیے اس پہلو کو صنفی پہلو کے بہ جائے معاشرتی توازن کے حوالے سے دیکھنا چاہیے۔