عورت ہوں، بوجھ نہیں!

صنف نازک ہر میدان میں اپنی حیثیت منوا رہی ہیں


خوشبو غوری December 03, 2024

’عورت‘ دنیا میں ایک ایسی ہستی ہے، جو زندگی کی ایک بنیاد ہے۔ عورت اس دنیا میں محبت، قربانی، اور عزم کی مجسم شکل ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی نظام میں عورت کو اکثر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے، جسے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

تاریخی طور پر، عورت کو خاندان کی عزت، روایات، اور خاندانی رسم و رواج کا پاس دار بھی سمجھا جاتا ہے، لیکن ساتھ ہی فرسودہ معاشرتی رسم و رواج کے نام پر عورت کی معاشی آزادی اور ترقی کو محدود بھی کر دیا جاتا ہے۔

آج ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بہت سے معاشروں میں زمانۂ جہالیت کی طرح آج بھی بیٹی کی پیدائش کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اس کے ساتھ جہیز، شادی اور دیگر ذمہ داریوں کا بوجھ والدین یا بھائیوں کے کندھوں پر آجاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ عورت کوئی بوجھ نہیں، بلکہ ایک طاقت ور ستون ہے، جو نہ صرف گھراور خاندان، بلکہ پورے معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

نہ جانے ہمارے معاشرے کو یہ بات آج تک کیوں سمجھ نہ آسکی کہ عورت چاہے بیٹی ہو، بیوی ہو، ماں ہو یا پھر بہن ان کو معاشی اور جذباتی طور پر خودمختار بنانے کے بہ جائے ان کو بچپن سے ہی دوسروں کے اوپر انحصار کرنے کی تربیت کیوں دی جاتی ہے۔ ان کو ہمیشہ یہ ہی کیوں سکھایا اور بتایا جاتا ہے کہ اس معاشرے میں عورت آدمی کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتی؟

جب کہ اگر عملی طور پر دیکھا جائے تو معاملہ اس کے بالکل الٹ نظر آتا ہے۔ جب وقت پڑ جائے تو ایک عورت بہ حیثیت ’سِنگل پیرنٹ‘ بچوں کی تعلیم و تربیت سے لے کر ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما اور خاندان کے مالی معاملات کو منظم طریقے سے چلاتی ہے، جب کہ حضرات کے ساتھ معاملہ اس کے برعکس ہے۔

عورت کے بوجھ ہونے کی سوچ دراصل پِدر شاہی نظام اور فرسودہ سماجی رویوں کی پیداوار ہے۔ یہ وہی سوچ ہے، جو عورت کو مرد سے کم تر سمجھتی ہے، اسے تعلیم، ملازمت، اور خودمختاری کے حقوق سے محروم رکھتی ہے۔ یہ وہی رویہ ہے، جو عورت کی صلاحیتوں کو پہچاننے کے بہ جائے اسے کمزور سمجھ کر پس ماندگی میں دھکیل دیتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں خواتین کو شرعیت کا درس دینے والوں کو یہ بات یاد نہیں رہتی کہ اسلام نے عورت کو بہت بلند مقام عطا کیا ہے اور اسے عزت، حقوق، اور وقار فراہم کیا ہے۔ اسلام نے عورت کو نہ صرف گھریلو زندگی بلکہ سماجی اور معاشرتی سطح پر بھی برابر کے حقوق دیے ہیں۔ عورت کو ایک بوجھ سمجھنے کا تصور اسلام کی تعلیمات کے سراسر منافی ہے، جو اسے عزت اور وقار کے ساتھ دیکھتا ہے۔

عورت کی ترقی اور خود مختاری کے لیے تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم یافتہ عورت نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزار سکتی ہے، بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ تعلیم سے عورت کو نہ صرف شعور ملتا ہے، بلکہ وہ اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل بھی ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ عورت کبھی بوجھ نہیں بنتی، بلکہ وہ اپنے خاندان اور معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، ایسے ہی گھریلو عورت بھی سماج کے لیے برابر کا کردار اداکر رہی ہوتی ہے۔ عورتیں نہ صرف گھریلو زندگی میں بلکہ معاشرتی اور اقتصادی میدانوں میں بھی اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ سیاست، معیشت، تعلیم، صحت، اور دیگر شعبوں میں عورتوں کی شمولیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ معیشت کو سنبھالنے اور ترقی دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ عورتیں اپنی محنت اور قابلیت سے یہ ثابت کر رہی ہیں کہ وہ کسی بھی طور پر بوجھ نہیں ہیں، بلکہ وہ ترقی کا اہم ذریعہ ہیں۔

عورت کو بوجھ سمجھنے کا تصور دراصل صنفی امتیاز کی پیداوار ہے۔ صنفی مساوات کے اصولوں کے مطابق، عورت کو وہی حقوق اور مواقع ملنے چاہئیں، جو مرد کو حاصل ہیں۔ اسے زندگی کے ہر شعبے میں مساوی سلوک ملنا چاہیے۔ جب عورت کو برابر کے مواقع فراہم کیے جائیں گے، تو وہ اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کر کے معاشرتی ترقی میں حصہ ڈالے گی۔

عورتوں کے خلاف تشدد اور صنفی امتیاز معاشرتی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ عورتوں کے لیے راہیں مسدوس کرنا نہ صرف ان کی ترقی کو روکتا ہے، بلکہ معاشرتی پس ماندگی کا بھی سبب بنتا ہے۔ عورتوں پر ظلم اور تشدد کو ختم کر کے ہی ان کو حقیقی معنوں میں بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔

عورت کا خاندان میں مختلف کردار اس بات کا مظہر ہیں کہ وہ بوجھ نہیں، بلکہ معاشرتی استحکام کی بنیاد ہے۔ ایک ماں کے طور پر، وہ نسلوں کی تربیت کرتی ہے؛ ایک بیٹی کے طور پر، وہ گھر کی رونق ہے؛ ایک بہن کے طور پر، وہ محبت اور مددگار ہوتی ہے؛ اور ایک بیوی کے طور پر، وہ زندگی کی ہم سفر ہے۔ ان تمام کرداروں میں عورت کی قربانی اور محبت شامل ہوتی ہے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کو بوجھ نہیں سمجھنا چاہیے۔

عورت کو بوجھ سمجھنے کی سوچ کو ختم کرنے کے لیے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا انتہائی ضروری ہے۔ یہ تبدیلی تعلیم، آگاہی، اور قانون سازی کے ذریعے ممکن ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عورت کسی بھی طور پر بوجھ نہیں، بلکہ ایک طاقت وَر اور متحرک ہستی ہے، جو معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

عورتوں کی عالمی سطح پر کام یاب مثالوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ آج دنیا بھر میں عورتیں سیاست، معیشت، تعلیم، سائنس اور فنون میں کام یابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔ ان کی کام یابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر عورت کو مواقع ملیں تو وہ کسی بھی میدان میں مردوں سے پیچھے نہیں رہتی۔

عورتوں کی صحت اور بہبود کے مسائل پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ خصوصاً پس ماندہ علاقوں میں عورتوں کو صحت کی سہولتوں تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، جس سے ان کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بہتر صحت اور فلاحی سہولتوں کے ذریعے عورتوں کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔

آج کی عورت تعلیم یافتہ ہے، باشعور ہے، اور ہر میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہے۔ سیاست، معیشت، سائنس، اور ادب میں عورتوں کی شمولیت نے ثابت کیا ہے کہ اگر انھیں مواقع ملیں، تو وہ کسی بھی میدان میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ آج کی عورت جہیز کی محتاج نہیں، بلکہ اپنی محنت اور صلاحیت سے خود کو اور اپنے خاندان کو آگے بڑھا رہی ہے۔

عورت کا بوجھ ہونے کا تصور دراصل ہماری سماجی بے حسی اور صنفی تعصب کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر معاشرہ اپنی سوچ میں تبدیلی لائے اور عورت کو اس کا جائز مقام دے، تو یہ نہ صرف عورتوں کی فلاح کے لیے بہتر ہو گا، بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔

’عورت ہوں، بوجھ نہیں‘ کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو بھی وہی حقوق اور مواقع ملنے چاہئیں جو ایک مرد کو حاصل ہیں۔ اسے بھی اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق ہونا چاہیے، چاہے وہ تعلیم کا انتخاب ہو، کیریئر کا یا پھر زندگی گزارنے کا۔ یہ معاشرتی ذمہ داری ہے کہ عورتوں کو ان کے خواب پورا کرنے کا موقع دیا جائے، اور انھیں ایک بوجھ سمجھنے کے بہ جائے ان کی طاقت کو تسلیم کیا جائے۔

عورت بوجھ نہیں، بلکہ معاشرتی اور معاشی ترقی کی ضمانت ہے۔ اگر ہم حقیقی ترقی چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی سوچ تبدیل کرنی ہوگی اور عورت کو بوجھ نہیں، بلکہ اس معاشرے کا ایک اہم حصہ تسلیم کرنا ہوگا۔

آخر میں، یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ’عورت ہوں، بوجھ نہیں‘ ایک ایسی حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ عورت کو مساوی حقوق، مواقع، اور عزت دینے سے ہی معاشرتی ترقی ممکن ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ کو بدلیں اور عورت کو بوجھ سمجھنے کی بہ جائے اس کی صلاحیتوں کو تسلیم کریں، تو ہمارا معاشرہ ایک بہتر اور روشن مستقبل کی طرف گام زَن ہو سکتا ہے۔

عورت بوجھ نہیں، بلکہ ایک طاقت ہے، جو زندگی کی خوب صورتی اور معاشرتی ترقی کی بنیاد ہے۔ اگر ہم عورتوں کو مساوی حقوق اور مواقع دیں، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہیں، بلکہ پورے معاشرے کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ’عورت ہوں، بوجھ نہیں‘ صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کر کے ہم ایک ترقی یافتہ اور خوش حال معاشرہ بنا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے