ٹرن ٹرن۔۔۔
دن کا پہلا پہر ڈھلا تو روزانہ کی طرح ایک بار پھر موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھی، لیکن یہ گھنٹی بج کر جلد ہی بند ہوگئی، کیوں کہ یہ دانستہ دی گئی ایک ’مس کال‘ تھی۔
سو حسب سابق اس ادھوری یا ’اَن اْٹھی‘ کال پر جوابی فون کیا گیا۔
اچانک فون کرنے والی آواز میں موجود رعونت اور فرعونیت ایک ملائم لہجے میں بدل گئی، کسی میٹھی جل ترنگ اور کسی سریلے سْر کی طرح یعنی کہ دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گیا تھا
’’ہاں بیٹا کیسی ہو؟‘‘
اور اس کے بعد پھر وہی پورے دن اور سارے گھر کی کتھا۔۔۔
ایک ایک فرد کے معمولات،
کس نے کیا کھایا، کیسے کھایا۔۔۔؟ کیا پکایا، کیا منگایا۔۔۔؟
کب کون آیا، کون گیا اور کون نہیں آیا اور کیوں نہیں آیا۔۔۔؟
کس نے سارا دن کیا کیا الغرض پورے دن کا ’خبرنامہ‘ ساری چھوٹی بڑی باتیں، اپنی ساری سازشیں، اور گھر والوں کے درمیان ہونے والے مختلف تلخ وترش مکالمے مزید مرچ مسالا لگا کے بتائے گئے، گویا ایک ’سیر حاصل غیبت‘ کی پہلی نشست تمام ہوئی۔
پھر عجیب وغریب طرز عمل یعنی مذہبی ترغیبات اور نیکی وبدی کی باتیں۔۔۔
پھر جب دن ڈھلا تو پھر ’دوسری نشست‘ کے واسطے کال ملائی گئی، اس بار ’مس کال‘ کا انتظار نہیں ہوا، شاید دل میں ’غیبت کا پیمانہ‘ لبریز ہو کے چھلکنے لگا تھا، اس لیے ’بے چاری‘ نے خود ہی کال ملا لی!
اور پھر وہی ساری مشق، جس میں پورے دن کا مکمل احوال سنایا گیا، ویسے ہی ساری جزئیات، اور حرف بہ حرف مکالمے اور پھر ان پر اپنی طرف سے بڑھائی گئی کچھ من چاہی باتیں اور ہمیشہ کی طرح کے جانب دارانہ اور نہایت غیر متوازن تجزے، دوسروں سے بدگمانیاں اور بے شمار الٹ پلٹ سی چیزیں!
یوں گویا آج کے دن کی غیبت کی ’دوسری نشست‘ بھی تمام ہوگئی!
پھر کال منقطع ہوئی، تو اب موبائل ہاتھ ہی میں رہا اور یوٹیوب سے کچھ شوق، یعنی دن بھر کے اپنے ڈرامے کے بعد اب یوٹیوب کے ’ڈرامے‘۔۔۔ لیکن ساتھ ساتھ روزانہ کی نماز، روزے اور عبادات و مذہبی ذوق وشوق اپنی جگہ اسی طرح جاری و ساری ہے اور پھر اسی ’عبادت گاری‘ کے متوازی اپنی غیبت کی بھی بہت اونچی عمارت استوار رکھی ہوئی ہے۔ یہ سب تو کھلا تضاد ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ شاید خود ہی کو دھوکا دینے کے مترادف ہے کہ عبادات کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم لیکن ان کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور حقوق العباد کا خیال رکھنا بھی تو ازحد ضروری ہے، بس وہ اگر یہ جان ہی لیں، تو پھر بات ہی کیا ہے غیبت کے رسیا اپنی عادت سے مجبور ہیں!
جب تک وہ دوسروں کی چغلی نہ کر لیں، ان کا گویا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ اس میں عمر کی کوئی قید ہے اور نہ طبقے یا تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ ہونے کی۔ جو اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ سبھی طرح کے ہوتے ہیں اور ان میں ’غیبت کا رسیا‘ ایک مشترک قدر ہوتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس پر کوئی کچھ نہیں سوچتا کہ کسی کی ذاتی زندگی اور نجی معاملات کو باقاعدہ موضوع بنانا، اس پر اظہار خیال کرنا اور ’’تجزیے کرنا‘‘ کس قدر بری اور قابل اعتراض بات ہے۔ پھر اس سے آج کی تیز رفتار زندگی میں کتنا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے، کوئی اس پہلو سے بھی غور نہیں کرتا، کیوں کہ یہ غیبت ایک نشے کی طرح ہوتی ہے، اور کسی دوسرے کی زندگی کو موضوع بنانے سے ہمارے دل ودماغ میں عجیب سے جذبات کی تسکین ہو رہی ہوتی ہے اور ہم غیبت کے مرتکب ہو کراپنی زندگی کی ناکامیوں میں کمی تو نہں کرتے البتہ اضافہ ضرور کرسکتے ہیں۔ پھر یہ غیبت جیسا منفی عمل ہمارے مزاج میں بھی اپنے منفی اثرات موجود رکھتا ہے، جو اپنی زندگی بہتر کرنے کی کسی کاوش سے ہمیں دور کرتی ہے اور یوں اس لت میں پڑے ہوئے فرد کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کس طرح دراصل دوسروں کی نہیں بلکہ خود اپنی زندگی خراب اور شخصیت کو گہنا رہا ہے۔
غیبت ہی سے ہماری جسمانی صحت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، دل، بلڈ پریشر، ڈپریشن اور شوگر جیسے عوارض کے تانے بانے ہماری اسی عادت سے کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں، کیوں کہ یہ منفی جذبہ ہمارے جسم میں ایسے کیمیکل کو فروغ دیتا ہے، جو مختلف بڑی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، گویا یہ اخلاقی برائی ہمارے لیے نہ صرف ذاتی زندگی میں منفی اثرات مرتب کرتی ہے، بلکہ ہمیں مختلف جسمانی عوارض کا شکار بھی بنا دیتی ہے، سو ، اب آپ کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ آپ جانے، ان جانے میں کہیں دوسروں کے معمولات، ان کی زندگی کے ذاتی معاملات پر تو اظہار خیال نہیں کرتیں۔