دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ ضروری

سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سے لے کر اعلیٰ عہدیداروں تک جام شہادت نوش کررہے ہیں


ایڈیٹوریل December 03, 2024

سیکیورٹی فورسزکی خیبر پختونخوا میں دو الگ الگ کارروائیوں کے دوران آٹھ خوارج ہلاک نو زخمی جب کہ دوگرفتارکر لیے گئے،کیپٹن اور ایک سپاہی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

پاکستان اس وقت بہت سے مسائل سے دوچار ہے، جن میں سے ایک مسئلہ دہشت گردی کا ہے جو سنگین ترین صورت اختیارکرچکا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب دہشت گردی اور تخریب کاری کی کوئی واردات نہ ہوتی ہو۔ ایک سانحے کا دکھ ابھی مندمل نہیں ہوتا کہ دوسرا رونما ہوجاتا ہے، دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا لہو لہان ہیں۔

گزشتہ دو ماہ کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے 482 حملوں کی ذمے داری قبول کی گئی۔ درحقیقت ٹی ٹی پی افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے اندر کارروائیاں کرتی ہے۔ دوسری جانب افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی کے مسئلے کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے، ان الزامات کو مسترد کردیتی ہے۔

سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سے لے کر اعلیٰ عہدیداروں تک جام شہادت نوش کررہے ہیں، یہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس طرح کے پے در پے رونما ہونے والے واقعات سے پاکستان کی فضا سوگوار ہے۔ اس سے قبل جب افغانستان میں طالبان اقتدار میں نہیں تھے تب بھی ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان کے مشرقی صوبوں کنڑ، نورستان، ننگرہار، پکتیا، پکتیکا اور خوست میں موجود تھے۔

تاہم اس دوران پاکستانی حکام صدر حامد کرزئی اور اشرف غنی سے ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات کا مطالبہ کرتے تھے۔ اب امریکا افغانستان سے جا چکا ہے اور افغان طالبان اب پاکستان کے ٹی ٹی پی سے متعلق مطالبات کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔ اگرچہ حکومت شدت پسند گروہوں کے خلاف تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لا کر عسکری کارروائیاں کر سکتی ہے، لیکن جب تک افغانستان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا، پاکستان کے لیے شدت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کو مؤثر طریقے سے روکنے میں مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ ٹی ٹی پی افغانستان میں بہت مضبوط ہے اور وہاں اسے کافی ہمدردیاں حاصل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ طالبان حکومت کی تائید بھی حاصل ہے اس وجہ سے پاکستانی حکومت کے پُرزور اصرار کے باوجود بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی۔ سابقہ قبائلی علاقہ جات میں ٹی ٹی پی اب بھی وہاں اپنی جڑیں رکھتی ہے اور حالیہ عرصے میں ٹی ٹی پی مالی لحاظ سے بھی مضبوط ہوئی ہے اور اس کے پاس جدید اسلحہ بھی ہے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کے درمیان رابطوں کا فقدان بھی دہشت گردی کے سر اُٹھانے کی بڑی وجہ ہے۔ ایسے میں دہشت گرد یہاں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز قائم ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں۔ پاکستان نے لاکھوں افغانوں کی میزبانی کی ہے، لہٰذا طالبان کو بھی دانشمندی اور فہم وفراست سے کام لینا چاہیے۔

پاکستان اور افغانستان ایک پڑوس میں رہنے والے دو بھائی ہیں، دونوں کے دکھ سکھ مشترک ہیں، دونوں کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایک پڑوسی مستحکم اور خوشحال ہوگا تو لازماً دوسرا بھی مضبوط و خوشحال ہوگا لیکن اگر ایک کا گھر جلے گا تو اس سے اٹھنے والے شعلے دوسرے گھرکو بھی لپیٹ میں لیں گے۔ اس لیے افغانستان کو پاکستان کے راستے میں کانٹے بچھانے اور ایسے گروپوں کو اپنے ہاں ٹھکانے دینے کی روش ترک کرنا ہوگی جو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سی قوتیں سی پیک، گوادر اور پاکستان، چین دوستی کے خلاف ہیں۔ پاکستانی حکام کو سی پیک کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عناصر کو بے نقاب کرنا چاہیے جو اس گھناؤنے کھیل کا حصہ ہیں۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے جب دہشت گردوں کا سرغنہ اور ’را‘ کا ایجنٹ کلبھوشن یادیو بلوچستان سے اپنے نیٹ ورک سمیت رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ کلبھوشن کا پکڑے جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارت ملوث ہے۔

دوسرا ثبوت یہ ہے کہ بھارتی چینلز پر بیٹھے ان کے اینکر اور دفاعی تجزیہ نگار علانیہ پاکستان کی سالمیت کے بارے میں ہذیان بک رہے اور بلوچستان میں دراندازی کے دعوے کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت جوکچھ ہو رہا ہے، یہ سب اسی سلسلے کی کڑی ہے اور اس کے تانے بانے براہِ راست نئی دہلی سے ملتے ہیں۔ بھارت ہمارا دشمن ہے، اس نے دشمنی ہی کرنی ہے۔ بھارت سے خیر اور بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے۔

بلوچ عوام میں پائے جانے والے احساس محرومی اور بے چینی کا خاتمہ کیا جائے۔ جہاں ممکن ہو معاملات مفاہمت سے طے کیے جائیں۔ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جائے۔ یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے اور دہشت گردوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان دونوں صوبوں میں متعدد فوجی آپریشنز کیے گئے، جن میں سے تمام عسکری طور پر کامیاب رہے۔

تاہم ان کے سیاسی مضمرات بھی اہم ہیں۔ مثال کے طور پر خیبر پختونخوا میں آپریشن کے بعد اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد (آئی ڈی پیز) کا مسئلہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی بے چینی کا باعث بنا۔ اسی طرح بلوچستان میں فوجی آپریشن فیلڈ میں تو کامیاب رہے ہیں لیکن سیاسی طور پر بے نتیجہ رہے۔ اس کی بڑی وجہ متاثرہ کمیونٹیز اور سیاسی قیادت کے ساتھ رابطے کے لیے بیک اپ پلان کا نہ ہونا تھا۔

بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے دنیا بھر کو چونکا دیا ہے، بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کئی ممالک میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔ بھارت ایک منہ زور ریاست اور دہشت گردی کا بڑا اسپانسر بن چکا ہے، جس سے پوری دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھارتی حکومت کی منظوری سے ہو رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری بھارتی ریاستی دہشت گردی روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ بھارت خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے پڑوسی ممالک کو غیر مستحکم کرنے اور ان کی معیشتوں کو کمزور کرنے میں بھی ملوث ہے۔

پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے۔ ان منصوبوں پر کام کرنے والے کئی چینی انجینئرز اور پاکستانی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔

بھارت بلوچستان میں سی پیک کے خلاف بلوچوں کو گمراہ کرنے اور اسلحہ اٹھانے کی ترغیب دے رہا ہے،وہ اپنے سیاسی و معاشی مفادات کے لیے عالمی تنظیموں کو استعمال کر رہا ہے۔ خطے میں دہشت گردی کے لیے دہشت گردوں کو بھرتی کر رہا ہے۔ وہ دہشت گرد تنظیموں کو مالی مدد، اسلحہ، تربیت اور ہر قسم کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ بھارت کے دہشت گردانہ منصوبے نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہیں، اگر بھارت کی دہشت گردی کے باعث اس خطے میں جنگ چھڑی تو اس کی لپیٹ میں پوری دنیا آئے گی۔

چند سال پہلے تک بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار صرف مقبوضہ کشمیر کے عوام تھے، جو کئی دہائیوں سے بھارتی فوج کی گولیوں، پیلٹ گنز اور مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارت نے اپنی دہشت گردی کا دائرہ مقبوضہ کشمیر سے پاکستان تک بڑھایا، پھر اسے افغانستان اور پوری دنیا تک پھیلا دیا۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں انڈیا براہ راست ملوث ہے۔ ہم دہشت گردی کی جس آگ میں جھلس رہے ہیں یہ بھارت کی ہی لگائی ہوئی ہے، بھارت اس آگ پر مسلسل تیل ڈال رہا ہے تاکہ آگ بجھنے نہ پائے، پاکستان یکسوئی کے ساتھ معیشت کی بحالی پر توجہ نہ دے سکے۔

تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے جو دہشت گرد پکڑے گئے ہیں وہ بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ ان کی مدد کر رہی تھی۔ افغانستان میں بھارت بہت سے لوگوں اور تنظیموں کو پاکستان کے خلاف بھڑکاتا رہا ہے اور انھیں پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ دیکھا جائے تو وزیراعظم مودی نے بڑی محنت سے بھارت کو امن دشمن، دہشت گردوں کا سہولت کار اور منی لانڈرنگ کرنے والا بڑا ملک بنا دیا ہے۔

دنیا جان گئی ہے کہ دہشت گردی بھارت کی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔ بھارت ہمیشہ پاکستان پر الزام لگا کر اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ بھارت خود دہشتگردی کروانے، دہشت گردی کی معاونت کرنے اور وسائل فراہم کرنے میں ملوث ہے۔ انسداد دہشتگردی کے بارے میں بھارت کا کردار مشکوک ہے۔

دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیش نظر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ناسورکے خاتمے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں، دہشت گردوں کو نشان عبرت بنایا اور پوری قوت سے ان کو کچل دیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے